رپورٹ شائع؟
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے ایک بیان کے مطابق حکومت اس ہفتے نیوز لیکس کی رپورٹ کے فعال حصے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے شائع کر دے گی جب کہ یہ نوٹیفکیشن وفاقی وزارت داخلہ کے ذریعے جاری ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت رپورٹ کے وہ حصے شائع کرے گی جنہیں وہ فعال سمجھتی ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اب بھی مکمل سچ ظاہر نہیں کرنا چاہتی حالانکہ اس بیان کے مطابق اس نوٹیفکیشن کے بعد حکومت اور فوج کے درمیان جو بے مزگی پیدا ہوئی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ پوری رپورٹ شائع نہیں کرے گی اور مذکورہ بدمزگی بھی برقرار رہے گی اور اس صورت حال کے مطابق فوج کو اس معاملے کی انکوائری خود کرنا پڑے گی تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو سکے، اور اس کا آخری اور ممکنہ مطلب یہ ہے کہ حکومت نے یعنی وزیر اعظم نے باقاعدہ مزاحمت کا فیصلہ کر لیا ہے کہ آئو اور مجھے سٹریچر پر ڈال کر لے جائو۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ فوج وزیر اعظم کو سیاسی شہادت کا رتبہ حاصل کرنے نہیں دے گی بلکہ اس وقوعے کے مرکزی کردار تک پہنچے گی اور مرکزی کردار اس لپیٹ میں آ جاتا ہے اور وزیر اعظم بے شک اقتدار میں رہتے ہیں تو صاحبِ موصوف کے لیے اس سے بڑا صدمہ اور کوئی نہیں ہو سکتا اس لیے لگتا یہی ہے کہ پانی کو پُلوں کے نیچے سے گزرنا ہی پڑے گا۔
انتہائی زیادتی
اخباری اطلاع کے مطابق نیپال کی مخلوط حکومت نے مواخذہ تحریک شروع ہونے پر اپنی پہلی خاتون چیف جسٹس کو معطل کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیپالی حکومت کسی اور دنیا میں رہتی ہے کیونکہ اسے انتظار کرنا چاہیے تھا کہ تحریک کے کامیاب ہو جانے پر ہی یہ حرکت کرتی۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جلد بازی شیطان کا کام ہے، نیپالی حکومت کو ہم سے ہی کوئی سبق سیکھنا چاہیے تھا کہ ہمارے وزیر اعظم سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں کی نظر میں صادق اور امین نہیں رہے لیکن نہ تو وہ خود مستعفی ہوئے ہیں اور نہ انہیں کسی معطّلی وغیرہ کا سامنا ہوا ہے کہ آخر مستقل مزاجی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔
ایک اور درفنطنی
کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سازشی طبقہ حکومت کو پریشان کرنے پر تُلا ہوا ہے کیونکہ کوئی دن نہیں جاتا کہ کسی نہ کسی اربوں کے سکینڈل کا انکشاف نہ کر دیا جاتا ہو۔ آج ہم خوش ہو رہے تھے کہ چلو آج کا دن تو اس لحاظ سے خالی گزرا ہے لیکن یہ خبر پڑھ کر ہمارے منہ کا ذائقہ خاصا خراب ہو گیا ہے کہ پولیس میں مہنگے سامان کی خریداری پر اربوں روپے کی کرپشن سامنے آئے گی اور اس ضمن میں آئی جی آفس کا ایک اہم شخص بے تاج مافیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ یہ شگوفہ کس نے چھوڑا ہے اور اس کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے۔ تاہم عدلیہ کا یہ کہنا کہ کرپشن حکومت کی ناک کے نیچے ہو رہی ہے‘ اس لیے محلِ نظر ہے کہ پولیس کا محکمہ آزاد ہے اور حکومت کی ناک کے نیچے ہرگز نہیں ہے‘ اس لیے حکومت کو خواہ مخواہ بدنام کرنے کی کوشش کا تدارک ہونا چاہیے تاکہ وہ آرام سے اپنا کام کر سکے۔
پھرتیاں
ایک تجزیے کے مطابق نیوز لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم آفس کی پھرتیوں سے صورت حال گمبھیر ہوئی ہے۔ الزام تو حکومت پر یہ دیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم انتہائی سست رو واقع ہوئے ہیں اور فیصلے کرنے میں بہت دیر لگا دیتے ہیں‘ لیکن اگر نیوز لیکس کے سلسلے میں کسی قدر پھرتی سے کام لیا بھی گیا ہے تو لوگ اس پر بھی خوش نہیں ہیں حالانکہ وزیر اعظم آفس سے جو حکم جاری ہوا تھا محض اس لیے تھا کہ فوج کا ردِ عمل معلوم کیا جائے جس پر آفس کو کامیابی ہوئی جو ٹویٹ سے کھل کر سامنے آ گئی۔ چونکہ ملکی ترقی سمیت سارا کام نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس لیے باقی معاملات میں بھی اس خوش رفتاری کی داد دینی چاہیے نہ کہ اس میں کیڑے نکالے جائیں ع
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
ایک اور سازش
ایک اور اطلاع کے مطابق کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی کے حوالے سے نئے رُولز بنانے کے لیے پراسیکیویشن ڈیپارٹمنٹ نے اپنی رائے ہی نہیں دی جس وجہ سے یہ کام رُکا ہوا ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ضروری رُولز بنانے میں تاخیر میں حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ سارا کچھ افسر شاہی کا کیا دھرا ہے حالانکہ بے چاری حکومت ان افسر حضرات کو نہ صرف ترقیوں پہ ترقیاں دے رہی ہے بلکہ ان کی مراعات میں بھی آئے روز اضافہ کرتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں کھلی چھٹی بھی دے رکھی ہے کہ کھائیں پئیں ضرور‘ لیکن کچھ کام بھی کریں اس لیے یہ ان افسروں کی ذمہ داری ہے کہ ایک ہی کام پر اپنی توجہ مرکوز نہ رکھیں بلکہ اپنی ادائیگیٔ فرض کا بھی دھیان رکھیں جس میں کوتاہی کی وجہ سے حکومت بے چاری خواہ مخواہ بدنام ہو رہی ہے۔
نعرے
اگلے روز ایک تقریب میں شرکت کے لیے وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات اور جناب طارق فضل چوہدری سٹیڈیم میں داخل ہوئے تو تقریب میں شامل کھلاڑیوں نے گو نواز گو کے نعرے لگانا شروع کر دیے جس پر متعلقہ لوگوں میں سے کچھ کو موقع سے گرفتار بھی کیا گیا حالانکہ ان دو شخصیات کا ان نعروں سے کوئی تعلق نہیں تھا، ہاں البتہ ان کی جگہ خود وزیر اعظم ہوتے تو الگ بات تھی کیونکہ وہ ان نعروں کا بُرا نہیں مانتے کیونکہ ان میں کم ازکم ان کا اپنا نام تو شامل ہوتا ہے، اس لیے نعرہ زن افراد آئندہ ایسی بے احتیاطی سے گریز کریں‘ مہربانی ہو گی۔
آج کامقطع
کبھی چڑھے گا غلط خواہشوں کا رنگ‘ ظفر
میں نیک ہی سہی‘آخر بدوں میں رہتا ہوں