ایشیائی معاشرے میں عورت ہزاروں سال سے ہر طرح کا جبر سہتی آئی ہے۔ محنت بھی وہی کرتی ہے یعنی گھر چلاتی ہے اور گھر چلانے کے فرض سے از خود نوٹس کے تحت سبک دوش ہو رہنے والے ہر مرد یعنی شوہر، بھائی اور بیٹے کے ہاتھوں ناقدری اور بے رحمی پر مبنی رویّے کا عذاب بھی سہتی ہیں۔ یہ صورتِ حال جبر اور ظلم کے کھاتے میں تو آتی ہے، جُرم کا درجہ نہیں پاتی۔ ایسا کوئی قانون نہیں جو اِس حوالے سے عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کو جُرم کے کھاتے میں رکھ کر مجرم کو سزا اور متعلقہ عورت کو جزا سے نوازے۔
جنوبی ایشیا میں مجموعی طور پر عورت کا بہت بُرا حال ہے مگر اس معاملے میں بھارتی معاشرہ واضح طور پر بہت ''آگے‘‘ ہے۔ جس معاشرے میں عورت کو گھر کی لکشمی (مال و زر) قرار دیا جاتا رہا ہے وہاں اب عورت گھر کے لیے لکشمی کمانے کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ کھیتوں، فیکٹریوں اور دفاتر میں کام بھی عورت ہی کرتی ہے اور اس کے عوض گھر میں احترام اور سکون کے بجائے اُسے ذِلّت سے دوچار کیا جاتا ہے۔ عورت کو ایک طرف تو گھر کی لکشمی کہا جاتا ہے اور دوسری طرف اِسی لکشمی کو اپنے ہی گھر میں کئی ''راکشسوں‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ راکشس اُس کے وجود کی لنکا میں آگ لگاتے پھرتے ہیں اور احتجاج کا حق بھی نہیں دیتے۔ اگر کوئی عورت گھر کی چار دیواری میں سہے جانے والے مظالم دنیا کے سامنے آئے تو نیچ، چنڈال اور کُٹنی کا خطاب پاتی ہے۔
منظر نامہ جب یہ ہو تو معاشرتی تبدیلی لازم قرار پاتی ہے۔ اِسی معاشرتی ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں شرابی اور ہڈ حرام شوہروں کی ''ٹھکائی‘‘ کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ ریاستی (صوبائی) کابینہ میں دیہی ترقی اور پنچایتی راج کا قلمدان رکھنے والے گوپال بھارگو معاشرے کی اصلاح کا درد اور درک رکھتے ہیں۔ وہ اجتماعی شادیاں بھی کراتے ہیں۔ حال ہی میں ضلع ساگر کے شہر گڑھ کوٹا میں 700 جوڑوں کی شادی کے لیے منعقد کرائی جانے والی تقریب میں اُنہوں نے دلہنوں میں ''موگریاں‘‘ تقسیم کیں۔ موگری دراصل کرکٹ کے بیٹ سے ملتا جلتا لکڑی کا ون پیس آئٹم ہوتا ہے جس سے صابن یا واشنگ پاؤڈر کے پانی مین بھگوئے ہوئے کپڑے کُوٹے جاتے ہیں۔ دلہنوں میں موگریاں اس لیے تقسیم کی گئی ہیں کہ شرابی شوہروں کا قبلہ درست رکھیں۔ یعنی اب موگریاں کپڑوں کے ساتھ ساتھ شوہروں کے نشیلے داغ دور کرنے کے لیے بھی بروئے کار لائی جائیں گی!
گوپال بھارگو کہتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور کبھی کبھی تو وہ لاتوں سے بھی نہیں مانتے یعنی اِس سے ایک قدم آگے جاکر اُن کی ''دھنائی‘‘ کرنا پڑتی ہے!
گوپال بھارگو دلہنوں کو آشیرواد کے ساتھ ساتھ یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے یا خوشگوار بنائے رکھنے کے لیے اپنے (شرابی) شوہر سے پہلے تو خود بات کریں۔ اگر وہ بات نہ سُنے تو پھر ذرا موگری کو بات کرنے دیں! اور اِس میں کیا شک ہے کہ موگری کی بات صرف شوہر نہیں بلکہ ایک دُنیا سُنے گی!
گوپال بھارگو نے 10 ہزار سے زائد موگریاں تقسیم کرائی ہیں۔ دلہنوں میں تقسیم کی جانے والی ہر موگری پر چھپوایا گیا ہے کہ ''شوہروں کا سُدھارنے کیلئے تحفہ۔ پولیس نہیں بولے گی۔‘‘ یعنی شرابی شوہروں کے ہاتھوں عاجز آئی ہوئی بیویاں موگری کے ذریعے اپنے معاملات درست کریں، پولیس مداخلت نہیں کرے گی۔ گوپال بھارگو کا استدلال ہے کہ انقلاب اُسی وقت آتا ہے جب لوگ انقلاب کے بارے میں سوچتے ہیں اور پھر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ گوپال بھارگو یہ بھی کہتے ہیں کہ معاشرے کو تبدیل کرنا صرف صوبائی حکومت، مقامی انتظامیہ اور پولیس کا کام نہیں۔ اس کے لیے عوام کو آگے آکر اور گند کو اپنے ہاتھوں سے ٹھکانے لگانا ہوگا۔
گوپال بھارگو بتاتے ہیں کہ ان کے حلقۂ انتخاب میں کئی خواتین نے اپنے شوہروں کی شراب نوشی کا رونا روتے ہوئے بتایا کہ ان کی محنت کی کمائی ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ شوہر مار پیٹ کا بازار بھی گرم رکھتے ہیں۔ چند ایک خواتین نے جب پوچھا کہ کیا شوہروں کی شراب نوشی چھڑانے کے لیے ڈنڈے سے لیفٹ رائٹ کرائی جانی چاہیے تب اُنہیں موگری کو زحمت دینے کا آئیڈیا سُوجھا۔
مدھیہ پردیش کا شمار بھارت کی اُن ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں شراب بہت پی جاتی ہے اور یومیہ اُجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے بھی گھٹیا ہی سہی، روزانہ ایک آدھ پَوّا ضرور پیتے ہیں۔ شراب اُن کی صحت اور گھر کے ماحول کو مستقل حالتِ عذاب میں رکھتی ہے۔ زندگی کی چھوٹی بڑی پریشانیوں اور دکھوں کو بھولنے کی خاطر یعنی خود فرامشی کے لیے لوگ بوتل منہ سے لگاتے ہیں اور پھر معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ زندگی کا کوئی سُکھ اِن احمقوں کو منہ نہیں لگاتا! شراب پینے کی چیز ہے اور پی ہی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ شراب اپنے پینے والے کے پورے وجود اور اُس سے متعلق معاملات کو پی جاتی ہے!
گوپال بھارگو ہیں تو دیہی ترقی کے وزیر مگر موگری کی مدد سے وہ ''ترقیٔ نسواں‘‘ یقینی بنانے کی راہ پر گامزن ہیں! گھر کی لکشمی کے ذریعے وہ ''مستانے‘‘ راکشسوں کو فتح کرنے نکلے ہیں گویا ایک نئی رامائن لکھی جارہی ہے اور ایک نئی مہا بھارت کے لیے کروک شیتر سجنے ہی کو ہے! گوپال بھارگو کے پاس پنچایتی راج کا قلمدان بھی ہے اِس لیے ہر گھر کی پنچایت میں درست فیصلہ یقینی بناکر وہاں انصاف کا راج قائم کرنا بھی وہ اپنا فرض گردانتے ہیں!
ہمارے ہاں شراب کی لعنت اِس حد کو نہیں پہنچی کہ گھر میں روز ہنگامہ برپا ہوا کرے مگر ہاں، ایسے شوہروں کی ہمارے ہاں بھی کوئی کمی نہیں جو گھر چلانے کے لیے ہاتھ پیر ہلانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور بیویوں کی محنت کی کمائی پر محض پلتے ہی نہیں بلکہ ''یا بے غیرتی! تیرا ہی آسرا‘‘ کے مصداق دن بھر مستاتے اور دندناتے بھی پھرتے ہیں! گھر کا بجٹ اپنے موج میلے کی رونق برقرار رکھنے پر خرچ رکنے والے ہر مفت خور شوہر کا اِتنا حق ضرور بنتا ہے کہ اُسے راہِ راست پر لانے کے لیے یہاں بھی موگری کو ''زحمتِ کلام‘‘ دی جائے! لاتوں کے بھوت خواہ کہیں کے اور کسی بھی نسل یا مذہب کے ہوں، باتوں سے ہرگز نہیں مانتے۔
گوپال بھارگو نے جو آئیڈیا مارکیٹ میں پھینکا ہے اُس پر بیوڑے شوہروں کا ''آفیشل‘‘ ردعمل اب تک سامنے نہیں آیا۔ اِس محاذ پر ایسی خاموشی ہے جیسے سارے شادی شدہ بیوڑوں نے اپنے آپ کو سُونگھ لیا ہو! پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کی نقّالی کرتے نہیں تھکتے۔ خدشہ (یعنی اُمّید افزاء یقین) ہے کہ گوپال بھارگو کا آئیڈیا ہمارے ہاں بھی آزمانے کی کوشش کی جائے گی۔ مسائل اگر یکساں ہوں تو کہیں بھی آزمایا جانے والا حل اپنانے میں کوئی ہرج نہیں۔ جو ''انقلاب‘‘ بھارت تک آچکا ہے وہ ہم تک پہنچنے میں کون سی دیر لگائے گا۔ لاتوں کے بھوت ہمارے ہاں بھی کم نہیں۔ اُنہیں ہمارا مشورہ ہے کہ تھوڑے کو بہت اور خط کو تار سمجھیں یعنی مدھیہ پردیش میں اُٹھنے والے طوفان سے سبق سیکھیں اور اپنا قبلہ درست کرنے کا اہتمام کریں وگرنہ یہاں بھی معاملہ موگری کے استعمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے! ہمارا کام تھا سمجھانا اور یہ کام ہم کر گزرے ہیں۔ اب اگر کسی کے نصیب میں صرف اور صرف ٹھکائی اور دھنائی لکھی ہو تو ہم اور آپ کیا کرسکتے ہیں؟