''مجھے قتل کر دو‘‘ اُس نے روتے ہوئے کہا۔ یہ وہ وقت تھا ، پہلی بار جب مجھے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اکثر میں فکشن لکھتا ہوں لیکن یہ وہ واقعات ہیں ، پچھلے تین دن میں حقیقتاً جو مجھ پر بیتے ۔میری زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا ۔ دنیا کے ہر آدمی کو اس صورتِ حال سے گزرنا ہوتاہے ۔ ہر گھر کا یہ مسئلہ ہے اور اس پہ بات کرنا بے حد ضروری ہے ۔
شادی بیاہ اور اولاد کی پیدائش ، زندگی کے اہم ترین معاملات ۔ امریکہ اور یورپ میں تو خیر خاندانی نظام تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا۔ اس کا سب سے بڑا سبب عائلی زندگی پر خدائی قوانین کے متبادل انسانی قوانین کا نفاذ تھا۔عورت کے حقوق انتہائی حد تک بڑھانے کے بعد اعلان کیا گیا کہ جو لوگ بغیر شادی کے اکٹھے رہنا چاہیں، انہیں اجازت ہے ۔ مردوں کی ایک بڑی تعداد شادی سے دستبردار ہو گئی ۔مردو زن کی برابری کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں پر کمانے کی ذمہ داری آن پڑی ۔ ریاست کی ذمہ داریاں محدود ہوتی ہیں ۔ گھر کے اندر گھس کر وہ میاں بیوی کے تعلقات درست نہیں کر سکتی ۔ریاست کی شہ پر بیوی اور بچّے بات بے بات پولیس بلانے لگے ۔ اس کے بعد اعلان ہو ا کہ مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے شادی کرنا چاہیں تو بھی اجازت ہے ۔ دوسری طرف طلاق بھی عام ہو گئی ۔ ہمارے ہاں شوبز میں ، جہاں عورت اور مرد دونوں اپنی اپنی جگہ مکمل طور پر خود مختار ہیں اور جہاں متبادل میسر ہیں ، طلاق کی صورتِ حال مغرب ہی کی طرح ہے ۔ایسے بچّوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، جن کے ماں باپ ساری زندگی اکٹھے رہیں ۔مغرب میںاولاد کو والدین کی محبت میسر آتی ہی نہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے بعد انہیں وہ بوڑھوں کے گھر (اولڈ ہوم) چھوڑ آتے ہیں ۔ شادی شدہ افراد کی اکثریت بچّے پیدا نہیں کرتی ۔ انہی بچّوں کی خاطر پاکستان جیسے معاشروں میں میاں بیوی ذاتی تلخیوں کے باوجود طلاق سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ گہرائی میں آپ غور کریں تو عورت اور مرد برابر نہیں ہو سکتے ۔ مرد کسی صورت اپنے دل میں ماں جیسا ایثار پیدا نہیں کر سکتا۔ جسمانی طور پر وہ دونوں مختلف ہیں ۔ مرد بچّے کو جنم نہیں دے سکتا۔ دوسرے جانوروں کے برعکس انسانی بچّے کو اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے میں کئی برس درکار ہوتے ہیں ۔ حمل کے ابتدائی مہینوں میں عورت کو خاصی تکلیف سے گزرنا ہوتاہے اور آخر میں بھی ۔ وہ سارا سال معاشرے میں حصولِ رزق کی جنگ نہیں لڑ سکتی ۔
شادی تو خیر ایک الگ موضوع ہے ۔ بچّے کی پیدائش کسی بھی نوع کی بقا کا سوال ہوتاہے ۔ دنیا بھر کے جانوروں میں انسانی جسمانی ساخت منفرد ہے ۔ یہ دو ٹانگوں پر سیدھا کھڑا ہے ۔ بن مانس ،چمپینزی اور چھوٹے بند ر دو ٹانگوں پر چل سکتے ہیں لیکن تادیر نہیں ۔ ان کی کولہے کی ہڈی زیادہ چوڑی ہوتی ہے ؛لہٰذا بچہ پیدا کرنے میں اتنی تکلیف نہیں ہوتی ۔ دوسری طرف اگر دھڑ اور سر کا موازنہ کیا جائے تو انسانوں میں سر کا حجم سب جانوروں سے بڑا ہے۔ آکسیجن اور غذا سے پیدا ہونے والی بیس فیصد توانائی دماغ کھا جاتا ہے ؛اگرچہ سر کا حجم اس کا واحد سبب نہیں ۔یہ وہ عوامل ہیں ، جنہوں نے انسانی بچّے کی پیدائش کو سب سے زیادہ تکلیف دہ بنا دیا ہے ۔
پچھلے دس برسوں میں ، میرے تین بہن بھائیوں کے ہاں 9بچّوں نے جنم لیا۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ ان میں سے 7نے آپریشن کے ذریعے دنیا میں قدم رکھا۔ دو بغیر جراحی کے پیدا ہوئے لیکن پاکستان نہیں بلکہ برطانیہ میں ۔ اس سنگین صورتِ حال کا مطلب یہ ہے کہ سوائے ان لوگوں کے ، جنہیں ہسپتال تک رسائی حاصل نہیں ، تقریباً100فیصد بچّے آپریشن کے ذریعے پیدا ہو رہے ہیں ۔ہسپتال تک رسائی اس لیے ضروری ہے کہ پیچیدگیوں کی صورت میں ماں اور بچّے کی زندگی خطرے میں ہوتی ہے ۔
دو گھنٹے وہ تڑپتی رہی ۔ بالآخر اپنی بہن سے اس نے یہ کہا ''مجھے قتل کر دو ‘‘یہ وہ وقت تھا، جب صورتِ حال کی سنگینی کا مجھے اندازہ ہوا۔یہ کہ مزید سات آٹھ گھنٹے وہ یہ تکلیف برداشت نہیں کر سکے گی ۔ یہ وہ وقت تھا، جب ڈاکٹر غزالہ محمود کے پاس میں گیا اور ان سے آپریشن کی درخواست کی ۔ انہوں نے یہ کہا کہ فی الحال آپریشن زیرِ غور نہیں ؛البتہ ایپی ڈیورل نامی تکنیک کے ذریعے درد میں ختم کر دوں گی ۔یہ وہ طریقہ ہے ، جس میں درد کی دماغ تک رسائی ختم کر دی جاتی ہے ۔ ہمارے جسم میں ہر کہیں باریک تاریں موجود ہیں ۔ یہ ایک طرف درد کا احساس دماغ تک لے جاتی ہیں تو دوسری طرف انہی Nervesکے ذریعے دماغ جسم کو حرکت دیتاہے ۔ ایپی ڈیورل کے بعد درد اپنی جگہ موجود رہتاہے لیکن اس کا احساس دماغ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔
صبح ساڑھے چار بجے کا وقت تھا، جب دروازہ کھلا ۔ہسپتال میں صفائی کرنے والی دو خواتین مبارک باد دے رہی تھیں ۔ شاید اس امید پر کہ انہیں کچھ انعام ملے ۔ ''بیٹا ہوا ہے یا بیٹی؟ ‘‘ میں نے پوچھا ۔ '' یہ تو معلوم نہیں ‘‘ انہوں نے کہا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ بیٹی ہوئی ہے ۔ کچھ عقل کے اندھے بیٹی کی پیدائش پر غمزدہ ہوتے ہیں ۔ شاید اسی لیے وہ بتا نہ رہی تھیں کہ کہیں ان کا انعام مارا نہ جائے ۔
میں اسے دیکھنے گیا ۔ ایک صحت مند ، خوصورت بچّی ۔ ''یا اللہ میری بیٹی کو ایمان، عافیت، علم، عقل، صحت اور اپنی سب نعمتیں عطا فرمانا۔ اسے میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دینا۔ دنیا میں اپنی آزمائش کا وقت اسے بہتر طور پر گزارنے کی توفیق دینا‘‘ ربّ کریم کے حضور میں التجا کر تا رہا۔ہم بہن بھائیوں کے خاندان میں یہ پہلی بچّی تھی، میری درخواست کے باوجود جو آپریشن کے بغیر پیدا ہوئی ۔ خوش آمدید بابا کی مانو بلّی !تم کچھ بڑی ہو جائو تو بابا تمہیں اس جہانِ حیرت کی سیر کرائیں ۔