تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-05-2017

سیاسی خود کشی؟

غیب کا علم پروردگار کے سوا کسی کو نہیں۔ اس کی کتاب یہ کہتی ہے: ہر ذی روح کو ہم نے اس کے ماتھے سے تھام رکھا ہے... اور یہ کہتی ہے: و الی اللہ ترجع الامور۔
آخری قہقہہ برسائے بغیر غلام اسحٰق خان دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اپنے خالہ زاد بھائی سینیٹر طارق چوہدری کے ساتھ میں ان سے ملاقات کے لیے پشاور جایا کرتا۔ کبھی جنرل حمید گل مرحوم سے ملاقات ہوتی تو وہ تفصیل پوچھتے۔ ایسی ہی ایک گفتگو کے دوران انہوں نے کہا ''آخری قہقہہ غلام اسحٰق برسائیں گے‘‘۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی کتنی مہلت ہے۔ خان صاحب مٹی اوڑھ کر سو گئے اور میاں محمد نواز شریف ایک بار پھر وزیرِ اعظم۔ اب مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اقتدار تمام ہو سکتا ہے اور اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔
میاں محمد نواز شریف کے بارے کریدنے کی میں نے بہت کوشش کی مگر لاحاصل۔ بس ایک بار ایک جملہ انہوں نے کہا ''ان کی دیانت بھی دنیا نے دیکھ لی اور اہلیت بھی‘‘۔ 
1988ء کے الیکشن اس حال میں ہوئے کہ محمد خاں جونیجو کی برطرفی کو سپریم کورٹ نے غلط قرار دیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے مگر یہ کہا کہ الیکشن کی فضا بن چکی۔ انتخابات ہی اب زیبا ہیں۔ یہ ایک کھلا راز تھا کہ افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے عدالت کو اس کی ترغیب دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دھمکی بھی۔ جنرل بیگ اور جنرل حمید گل پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں محمد نواز شریف کو وزیرِ اعظم بنانے کا تہیہ کر چکے تھے۔ دو برس میں وہ یہ کر گزرے۔ 
1990ء کے الیکشن میں نون لیگ کی واحد حریف پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی صرف 15 سیٹیں جیت سکی۔ پارٹی کے سربراہ ابھی تک جونیجو تھے؛ اگرچہ 1988ء اور 1990ء کی انتخابی مہمات میں قیادت نواز شریف نے کی تھی۔ 
رازداری سے غلام اسحٰق خاں نے محمد خاں جونیجو کو بلایا۔ جنرل بیگ بیرونِ ملک تھے۔ موبائل فون کا زمانہ وہ نہیں تھا کہ ہر شخص، ہر ایک کا دروازہ ہمیشہ کھٹکھٹا سکتا۔ پنجابی محاورے کے مطابق‘ یوں بھی فوج اور خفیہ ایجنسیاں میاں صاحب کے سر پہ ہاتھ رکھنے کا فیصلہ فرما چکی تھیں۔ جنرل حمید گل نے فون اٹھایا‘ اور صدر کے پرنسپل سیکرٹری فضل الرحمٰن سے رابطہ کیا۔ پوچھا کہ کیا محمد خان جونیجو صدر کے کمرے میں تشریف فرما ہیں۔ پھر صاف صاف کہا ''پاکستان آرمی اس امر کی اجازت نہیں دے گی کہ وزارتِ عظمیٰ انہیں سونپ دی جائے‘‘۔ کھیل وہیں اور اسی وقت ختم ہو گیا۔
بہت بعد میں صدر غلام اسحٰق مرحوم سے جب میں نے کہا کہ نواز شریف کو وزیرِ اعظم بنانے کے بعد یکایک وہ ان سے نالاں کیوں ہو گئے‘ تو ان کا جواب یہ تھا: میں یکایک ان سے نالاں نہ ہوا تھا اور انہیں وزیرِ اعظم بنانے کا فیصلہ میرا نہ تھا۔ 
اگرچہ اخبار نویسوں کی اکثریت مجھ سے اتفاق نہیں کرتی کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور عسکری قیادت میں مصالحت ممکن ہے۔ دو وجوہ سے یہ ناچیز اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے۔ مصالحت وزیرِ اعظم کی ضرورت ہے اور جنرل باجوہ آسانی سے تلخیاں بھلا دیتے ہیں۔
میں انہیں جانتا ہوں۔ کچھ ذاتی طور پر اور اس سے زیادہ دوستوں کے توسط سے۔ اپنی توجہ بیرونی محاذ پر وہ رکھنا چاہتے ہیں۔ داخلی سیاست کی دلدل میں الجھنے کے ہرگز وہ آرزومند نہیں۔ البتہ جیسا کہ عرض کیا تھا، حکمران پارٹی حماقت پر تلی رہی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 
کل ان میں سے کچھ کا ارتکاب نون لیگ کے بعض لیڈروں نے کیا۔ عدم احتیاط کے وزیرِ اعظم ذاتی طور پر بھی مرتکب ہوئے۔ لیّہ میں اپنے سب مخالفین کو جب انہوں نے گیدڑ قرار دیا۔ محترمہ مریم نواز کے ذکر میں تامل ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک خاتون ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے ایک بڑے اخبار سے وابستہ چند معروف اخبار نویس ڈٹ کر نون لیگ کا دفاع کر رہے تھے بلکہ افواج کی مذمت بھی، خود پارٹی میں جس کا بوتا نہیں۔ کل ان میں سے ایک پر محترمہ نے یلغار کر دی اور یلغار بھی ایسی کہ جیسے کوئی شہسوار دشمن کو گھوڑے کے قدموں تلے کچل ڈالنا چاہے۔ اخبار نویس اس طرح نہیں کچلے جاتے۔ سر تا پا لوہے میں غرق ہو کر وہ میدان میں اترتے ہیں۔ انہیں تو خیر کیا نقصان ہوتا۔ ڈان لیکس اور ٹویٹر کو بھول کر، اب وہ حکمران پارٹی کے درپے ہیں۔ اس دلیل کے ساتھ ان میں سے ایک، پہلے ہی بگڑا ہوا تھا کہ مشکل پڑنے پر نواز شریف ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ 
تحریکِ انصاف کے نوجوان تن کر کھڑے ہو گئے۔ رات ڈھلے تک انہوں نے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ نون لیگ والوں کو للکار للکار کے کہتے رہے: آپ لوگ اپنی بڑی بہن کا دفاع کیوں نہیںکرتے؟ وہ بیچارے کیا کرتے؟ راز فاش کرنے والوں کو غدّار اور پاناما لیکس کو محترمہ نے ردّی کا ٹکڑا کہا تھا۔ ردّی کا ٹکڑا؟ کئی حکومتیں جس پر متزلزل ہوئیں‘ اور اب بھی ہیں؛ حتیٰ کہ پاناما میں متعلقہ کمپنی کے مالکان بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں؛ حتیٰ کہ سپریم کورٹ سے فیصلہ صادر ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ 
حتمی طور پر یہ فیصلہ میاں محمد نواز شریف کے خلاف ہو سکتا ہے۔ نون لیگ کی فصل اس طرح اجڑ سکتی ہے، جس طرح 12 اکتوبر 1999ء کے مارشل لا میں اجڑی تھی۔ نفاذ کی قوت رکھنے والے عدالتِ عظمیٰ کے بنچ نے تفتیش کے لیے نامزد بعض سرکاری افسروں کو مسترد کر دیا‘ اور خود ان کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چھ دن پہلے تک عسکری قیادت متذبذب تھی کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسر نامزد کیے جائیں یا نہ کیے جائیں۔ میں نے یہ خبر اڑائی نہ تھی، جیسا کہ نون لیگ کے ایک اخبار نویس نے تاثر دینے کی کوشش کی۔ مجھے بتائی گئی تھی اور اس نے بتائی تھی، سو فیصد جس پہ اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اب انہوں نے کر ڈالے ہیں۔ رو رعایت کی امید ان سے نہیں کی جا سکتی۔ کوئی دوسرا کر سکے یا نہ کر سکے، افواج کی خفیہ ایجنسیاں ثبوت فراہم کر سکتی ہیں۔ مغرب میں ایسے ادارے بہت ہیں، معاوضہ ادا کرنے پر جو معلومات مہیا کرتے ہیں۔ تین ججوں میں سے ایک اور کو قائل ہونا ہے۔ اگر ثبوت فراہم کر دیے گئے؟ پانچ کے پانچ جج وزیرِ اعظم کے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں۔ وہ بکائو مال نہیں۔ کسی کی جرات نہیں کہ ایسی جسارت ان کے باب میں کرے۔
شریف خاندان میں کیا سیاسی خود کشی کا رجحان ہے؟ بعض اوقات دوسروں کی اس قدر وہ تحقیر کرتے ہیں کہ مقابلے پر اتر آنے کے سوا کوئی چارہ اس کے لیے باقی نہیں رہتا۔ واٹر گیٹ سکینڈل کے ہنگام چرچل نے صدر نکسن سے کہا تھا: بھاگنے کا حریف کو موقع دینا چاہیے‘ وگرنہ بلّی بھی آنکھیں نوچ لیا کرتی ہے۔ 
شریف اسحٰق کشمکش کے آخری ایام میں، صدر کے سب سے قریبی رفیق اجلال حیدر زیدی نے کہا: یہ وہ غلام اسحٰق خان نہیں، عشروں سے جسے ہم جانتے ہیں۔ خود کو انہوں نے دائو پر لگا دیا ہے۔ اب وہ کسی کی سنتے ہی نہیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور دوسروں سے بھی غلام اسحٰق اختلاف کیا کرتے مگر خود کو دائو پر کبھی نہ لگایا تھا۔ اب اس عمر میں ایسا انہوں نے کیوں کیا تھا؟ ان کے ساتھ وہی سلوک ہوا تھا، منگل کی شام جو بعض ذمہ دار اخبار نویسوں سے۔ جنرل، جج اور جرنلسٹ انا پسند ہوتے ہیں۔ ہر کوتاہی، انا پسندی کے باب میں کی جا سکتی ہے، دھتکارنے کی غلطی کبھی کسی کو نہ کرنی چاہیے۔ شریف خاندان نے یہ غلطی اس وقت کی، متعلقہ اشاعتی ادارے کی افواج سے جب مصالحت ہو چکی تھی۔ تفصیل پھر کبھی۔
کیا ہمارے سامنے تاریخ کا ایک اور ورق الٹا جانے والا ہے؟ کون جانتا ہے؟ آنے والے کل کے بارے میں کون جانتا ہے۔ غیب کا علم پروردگار کے سوا کسی کو نہیں۔ اس کی کتاب یہ کہتی ہے: ہر ذی روح کو ہم نے اس کے ماتھے سے تھام رکھا ہے... اور یہ کہتی ہے: و الی اللہ ترجع الامور۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved