''چودھری نثار علی خان میں جرأت ہے تو مریم نواز کی ٹویٹس بند کر کے دکھائیں‘‘ لیکن بیرسٹر کو غلط فہمی ہوئی۔ چودھری صاحب نے ٹویٹس کے خلاف کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا تھا۔ واٹس ایپ‘ فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ آج کے عہد میں ابلاغ کے تیز ترین ذرائع ہیں۔ جن کے فوائد اور مفاسد کا انحصار ان کے استعمال پر ہے۔ (ویسے چودھری صاحب کے بارے میں شنید ہے کہ وہ تو اپنا موبائل بھی ساتھ نہیں رکھتے...ہمیں جب بھی ان سے رابطے کی ضرورت محسوس ہوئی‘ برادرم نواز رضا کی خدمات حاصل کیں۔
بیرسٹر نے چودھری صاحب کو مریم نواز کی ٹویٹس بند کرانے کا جو چیلنج دیا تو لگتا ہے کہ انہوں نے چودھری صاحب کا پورا بیان سنا (یا پڑھا)نہیں۔ پوری بات یوں تھی کہ ریاستی اداروں کو ٹویٹس کے ذریعے باہم مخاطب نہیں ہونا چاہیے (کوئی شکایت ہو‘ کوئی تجویز یا مشورہ ہو تو اس کے لیے پراپر فورم اور قواعد و ضوابط میں متعین طریقہ ہی استعمال کرنا چاہیے۔)
وضاحت ہو چکی کہ 29 اپریل کو ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کے حوالے سے سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر فواد حسن فواد نے جو لکھا‘ وہ ''انٹرنل نوٹ‘‘ تھا‘ جس میں رپورٹ کے پیرا نمبر 18 کے مطابق عملدرآمد کے لیے متعلقہ ''محکموں‘‘ کو کہا گیا تھا۔ یہ پریس ریلیز یا معروف معنوں میں نوٹیفکیشن نہ تھا۔ اس پر 19 الفاظ کی ایک ٹویٹ منظر عام پر آئی۔ پہلے 16 الفاظ کو تبصرہ کہہ لیں۔
"Notification on Dawn Leaks is incomplete and not in line with recommendations by the enquiry board"
اگلے تین الفاظ تھے جنہوں نے طوفان اٹھا دیا۔
"Notification is rejected"
چودھری نثار علی خاں کی تشویش یا تبصرہ اسی حوالے سے تھا‘ ریاستی اداروں کے یوں ٹویٹس کے ذریعے باہم مخاطب ہونے کو ہی وہ سیاسی استحکام اور آئینی و جمہوری نظام کے لیے سم قاتل قرار دے رہے تھے۔
مملکت خداداد‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سول‘ ملٹری تعلقات کا معاملہ بہت نازک اور حساس رہا ہے۔ تب نوابزادہ صاحب زندہ تھے‘ اخبارات میں صدر‘ وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کی خبر ''تین بڑوں کی ملاقات‘‘ کی سرخی کے ساتھ شائع ہوتی‘ تو بابائے جمہوریت سخت کبیدہ خاطر ہوتے۔ فرماتے‘ پارلیمانی جمہوریت میں‘ ایک ہی بڑا ہوتا ہے‘ ملک کا وزیراعظم‘ جسے آئین چیف ایگزیکٹو قرار دیتا ہے۔ لیکن اپنے ہاں کے ٹھوس زمینی حقائق مختلف رہے ہیں‘ جب بھی اور جس نے بھی روگردانی کی‘ گردن زدنی قرار پایا۔
6 اکتوبر 2016ء کے ''ڈان‘‘ میں شائع ہونے والی خبر قومی سلامتی کے لیے سنگین مسئلہ بن گئی تھی۔ بعض ستم ظریف اس کے ڈانڈے ''ایکسٹینشن‘‘ سے بھی ملاتے‘ اگرچہ ریٹائرمنٹ سے کوئی سات ماہ قبل ہی آفیشل ترجمان کی طرف سے واضح اعلان آ گیا تھا کہ ایکسٹینشن ملی بھی تو نہیں لیں گے۔ لیکن وسیع تر قومی مفاد میں اس کے لیے پس پردہ کوششیں جاری رہیں۔ 29 نومبر ریٹائرمنٹ کی تاریخ تھی اور بعض بدگمانوں نے 2 نومبر کے اسلام آباد لاک ڈائون کے اعلان کو بھی ایکسٹینشن ہی کا شاخسانہ قرار دیدیا تھا۔
اسی دوران 6 اکتوبر کی ڈان لیکس بھی آ گئیں جس پر ''ادارے‘‘ کا ردعمل بہت شدید تھا۔ کورکمانڈرز میٹنگ کے جذبات و احساسات سے آگاہ کرنے کے لیے خود آرمی چیف پرائم منسٹر ہائوس پہنچے۔ جوں جوں 29 نومبر قریب آ رہی تھی‘ پاناما کا ہنگامہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ کہا جاتا ہے‘ جناب وزیراعظم کے قریب ترین سیاسی رفقا بھی انہیں ''ایکسٹینشن‘‘ کے ثمرات و برکات کی طرف توجہ دلاتے لیکن ادھر ''ایک ناں تھی سب کے جواب میں‘‘ (میاں صاحب نے زرداری/ گیلانی دور میں جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کی بھی مخالفت کی تھی)
29 نومبر کو پاک آرمی کی کمان جنرل قمر باجوہ کو سونپ دی گئی۔ وزیراعظم نے سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کو‘ ایک شاندار الوداعیہ کے ساتھ رخصت کیا۔ ایوان صدر میں ان کے لیے الگ رخصتی کا اہتمام کیا گیا تھا۔
نئے آرمی چیف کی قربت اور قرابت کے دعویدار انہیں مزاجاً ایک مختلف شخصیت قرار دیتے ہیں۔ آرمی ڈسپلن کے تقاضوں کے ساتھ بے جا کروفر سے بیزار‘ ایک ملنسار اور منکسر المزاج شخصیت...مشرف دور میں بھی اپنے دوستوں سے نجی گفتگو اور بے تکلف ملاقاتوں میں وہ آئین کی پابندی پر زور دیتے۔ ان کے خیال میں پاکستان کے بیشتر مسائل آئین سے انحراف کا نتیجہ ہیں‘ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود کا سختی سے خیال رکھنا چاہیے جس سے انحراف فساد کا باعث بنتا ہے۔
نئے آرمی چیف کو ''ڈان لیکس‘‘ کا پرانا مسئلہ ورثے میں ملا تھا۔ مختلف چھائونیوں میں خطاب کے دوران ان سے اس مسئلے پر بھی سوال کیا جاتا۔ (لیکن یہ ''خبر‘‘ کون ''لیک‘‘ کرتا تھا؟...) بالآخر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پرائم منسٹر ہائوس کو موصول ہو گئی۔ اب اس پر عملدرآمد (اور اسکے نوٹیفکیشن) کا مرحلہ تھا۔ کہ 29 کو ٹویٹ آ گئی۔ جیسا کہ ہم ابتدا میں عرض کر چکے‘ یہ نوٹیفکیشن نہیں تھا‘ اور وزیراعظم نے پیرا 18 کی سفارشات پر عملدرآمد کی منظوری بھی دیدی تھی۔ پھر یہ بدنما اور بدمزہ منظر کیوں ابھرا؟ جناب باجوہ کے پیشرو اپنے ادارے کے نقطہ منظر سے آگاہی کے لیے وزیراعظم سے ملاقات کو ذریعہ بناتے...اب کوئی شکایت (یا غلط فہمی) ہو گئی تھی‘ تو اس کے اظہار کے لیے بھی ملاقات کی جا سکتی تھی۔
29 اپریل کی ٹویٹ سے ملک کا اعلیٰ ترین آئینی منصب ہی انڈر مائن نہیں ہوا‘ خود پاک فوج کے مخالفین کو بھی اس کے خلاف پروپیگنڈے کا نیا موقع مل گیا۔ مغرب کے علاوہ ہمارے ''پڑوس‘‘ میں میڈیا نے اس پر کیا کیا تبصرے نہیں کئے۔ جناب باجوہ نے گزشتہ دنوں اپنے دورۂ انگلستان کے دوران ایک بار پھر جمہوریت سے وابستگی اور برطانوی پارلیمانی نظام سے عشق کا دعویٰ کیا تھا ہمیں یقین ہے کہ وہ اس پر سو فیصد ایمان رکھتے ہیں۔ پرائم منسٹر اپنے منصب وقار کے لیے کیا کرتے ہیں‘ یہ ان کا مسئلہ ہے۔ جناب باجوہ کو اپنے ادارے کے وقار کو پہنچنے والی ٹھیس کے ازالے کے لیے اقدام کرنا چاہیے۔ گذشتہ دنوں انہوں نے فرمایا‘ اور بجا فرمایا کہ ریاست کی عملداری قائم کر دی گئی ہے۔ اس سے کیسے انکار ہو گا کہ آئین کی عملداری ہی ریاست کی عملداری ہے۔
نئے آرمی چیف کی قربت اور قرابت کے دعویدار انہیں مزاجاً ایک مختلف شخصیت قرار دیتے ہیں۔ آرمی ڈسپلن کے تقاضوں کے ساتھ بے جا کروفر سے بیزار‘ ایک ملنسار اور منکسر المزاج شخصیت...مشرف دور میں بھی اپنے دوستوں سے نجی گفتگو اور بے تکلف ملاقاتوں میں وہ آئین کی پابندی پر زور دیتے۔ ان کے خیال میں پاکستان کے بیشتر مسائل آئین سے انحراف کا نتیجہ ہیں‘ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود کا سختی سے خیال رکھنا چاہیے جس سے انحراف فساد کا باعث بنتا ہے۔