تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     06-05-2017

کاغذی شیروں کی دھاڑ

پاکستان کے دہشت پھیلا دینے والے کاغذی شیر دو شکنجوں میں پھنسے ہوئے ہیں، ڈان لیکس اور پاناما پیپرز۔ جب دیکھا کہ ان سے نکل سکنے کوئی چارہ باقی نہیں تو لگتا ہے کہ اُنھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ حملہ کرنا بہترین دفاع ہے؛ چنانچہ پاکستانی سیاست کا سندر بن ان کے اٹھائے ہوئے شور سے گونج رہا ہے۔ یہی نہیں، کاغذی شیروں نے ایک خاص قسم کی عینکیں بھی لگا رکھی ہیں‘ جن کے معجزانہ اثرات سے اُنہیں اپنے حریفوں، خاص طور پر عمران خان، کے جلسے ''جلسیاں‘‘ لگتی ہیں، جبکہ اپنا چھوٹا سا اجتماع بھی عظیم الشان جلسہ دکھائی دیتا ہے۔ 
بڑے شیر، میاں محمد نواز شریف کو ڈان لیکس پر کوئی جواب نہ بن پڑا تو اُنہیں اپنے منظورِِ نظر افراد میں سے ایک، سابق وزیرِ اطلاعات پرویز رشید، کی قربانی دینا پڑی۔ پرویز رشید صاحب آج بھی وزیرِ اعظم کے قریبی ترین رفقا میں شامل ہیں، لیکن وہ کابینہ سے باہر ہیں۔ جلد یا بدیر، پاکستان کے وزرائے اطلاعات اپنے ہی عشق میں گرفتار ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ خود کو ہمہ وقت ٹی وی سکرین پر دیکھنے سے حاصل ہونے والی وارفتگی سے محرومی پرویز رشید کے لیے گراں ثابت ہو گی۔ بہرحال، قانونِ ضرورت باقی چیزوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ میرے دوست طارق فاطمی نے وفاداری دکھانے میں کمال کر دیا، یہاں تک کہ اُن کی وفاداری کئی بار فرائضِ منصبی سے بھی تجاوز کر جاتی‘ لیکن ڈان لیکس کی آندھی میں اُن کی قسمت کے پتے بھی جھڑ گئے۔ وہ فارن آفس کے نام الوداعی خط میں اپنی بے گناہی کا پُرزور اظہار کر رہے ہیں، لیکن اب اس کا کیا فائدہ؟ سابق پرنسپل انفارمیشن آفیسر، رائو تحسین کو بھی صرف اسی لیے قربانی کا بکرا بنا دیا گیا کہ وہ آسانی سے چھری کے نیچے آ سکتے تھے، حالانکہ خبر کی دنیا سے وابستہ زیادہ تر افراد جانتے ہیںکہ اُن کا ڈان لیکس معاملے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ 
یہ معاملہ واٹر گیٹ اسکینڈل سے مناسبت اختیار کرتا جا رہا رہے، جس میں ہیلڈ مین، ہیرلیکمن، ڈین اور کچھ دیگر کی قربانی دی گئی جبکہ صدر نکسن تمام تر ذمہ داری سے انکار کرتے رہے۔ آخر میں وہ اس اسکینڈل کی زد میں آ گئے لیکن اس سے پہلے بہت سی زندگیاں برباد ہو چکی تھیں۔ اس وقت کاغذی شیر یہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ قوم کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی سرکس کے شیر نہیں بلکہ اصلی شیر ہیں‘ لیکن اخلاقی جرات کا یہ عالم ہے کہ اس واقعے کا الزام اپنی گردن پر لینے کی بجائے اُنھوں نے دوسرے لاچاروں، جیسا کہ طارق فاطمی اور رائو تحسین کو فائرنگ لائن پر لا کھڑا کیا ہے۔ 
اس طرزِ عمل کی ایک وجہ ہے‘ حکمران خاندان کے بھاری مینڈیٹ کی ممکنہ وارث کا ہر قیمت پر تحفظ کرنا۔ میمو گیٹ آپ کو یاد ہو گا۔ وہ سراسر افسانہ طرازی تھی، اس کا نیشنل سکیورٹی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کا ہدف زرداری حکومت کے پر کترنا تھا۔ دوسری طرف ڈان لیکس ایک حقیقی معاملہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت مخالف تحریک کے عین عروج کے وقت اس نے بھارت کی زبان بولتے ہوئے پاک فوج کو ''جہادی پالیسیوں اور اس کے نتیجے میں ملک کی سفارتی تنہائی‘‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اپنی ہی فوج پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کی ساکھ کو مزید کوئی کیا نقصان پہنچائے گا۔ میمو گیٹ کے وقت پی پی پی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے نواز شریف سیاہ کوٹ زیب تن کرکے سپریم کورٹ میں گئے تھے۔ اب جبکہ ڈان لیکس کا معاملہ گمبھیر ہوتا جا رہا ہے، تو معلوم نہیں کہ وہ کس رنگ کا کوٹ پہننا پسند کریں گے؟
حکمران خاندان کس طرح بری الذمہ قرار پاتا ہے؟ کہانی تو یوں بیان کی جا رہی ہے کہ اس معاملے کے اٹھتے ہی وہ صاحب، جو مبینہ طور فیلڈ مارشل بننے کے آرزومند تھے، کی طرف یہ رعایت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک شخص آپ کو رعایت دے رہا ہے اور اس کے بدلے میں آپ کے بارے میں کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔ بہرحال ڈان لیکس اور پاناما پیپرز اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ جتنا کاغذی شیر اپنے آپ کو دبائو میں محسوس کر رہے ہیں، اتنا ہی اونچا دھاڑ رہے ہیں۔ بڑے شیر نے اپنے مخالفین کو ''ایک سو گیدڑ‘‘ قرار دیا ہے، لیکن اگر آپ ان دونوں معاملات، ڈان لیکس اور پاناما پیپرز، میں ان کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ دیکھیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ گیدڑکون ہے اور شیر کون۔ اور جب حکمران صحافیوں پر برستے ہیں، اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاناما انکشافات کا باعث بننے والے تمام صحافی، جن میں عمر چیمہ بھی شامل ہیں، پاکستان کے خلاف سازش کر رہے ہیں، تو گویا اس کا مطلب یہ بنا کہ شریف فیملی اور پاکستان ایک ہی چیز ہیں، اور ایک پر حملے کا مطلب دوسرے پر حملہ ہے۔ کنگ لوئیس چہاردھم کا کہنا تھا کہ وہ ریاست ہیں۔ حکمران بھی یہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ 
بہرحال گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ اگر پاناما جے آئی ٹی کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کا پہلا ایکشن آئندہ پیش آنے والے واقعات کی طرف ایک اشارہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ موسمِ گرما شریف فیملی کے لیے گرم تر ہو گا۔ بنچ نے سٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن سے ٹیم میں شامل کرنے کے لیے فرستادہ ناموں کو مسترد کرتے ہوئے نئے ناموں کی فہرست طلب کی ہے۔ یہ چیز پریشانی میں گھری ہوئی حکمران فیملی کے لیے کسی بھی طور خوش کن نہیں۔ بہرحال ایک بات ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے جو نمائندے جے آئی ٹی کا حصہ بنیں گے‘ وہ کان اور آنکھیں‘ کھلے رکھیں گے۔ وہ دن گئے جب فوج اور آئی ایس آئی نے شریف برادران کے گاڈ فادرز کا کردار ادا کرتے ہوئے اُن کو شہرت اور اقتدار کی بلندیوں پر پہنچایا تھا۔ آج کا مختلف ماحول طرفین کے درمیان پروان چڑھنے والی بداعتمادی اور شکوک و شبہات کی دھند سے گہرا ہو چکا ہے۔ چنانچہ آج شریف فیملی کو اس طرف سے رو رعایت ملنے کا امکان کم ہی ہے۔ 
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کاغذی شیروں کی دھاڑ کا اصل مقصد کیا ہے؟ نواز شریف کی حالیہ تقاریر کے لہجے سے، اور کچھ چھوٹے شیروں، جیسا کہ نثار علی خان کے حالیہ فرمودات سے ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ قیادت کسی ردِ عمل کو دعوت دینا چاہتی ہے۔ ڈان لیکس اور پاناما پیپرز پر کوئی جواب نہ بن پڑتے ہوئے کیا اُن کے ذہن میں یہ سوچ کلبلا رہی ہے کہ ان کے پاس بہترین راستہ سیاسی شہید بننا ہے؟ اگر اُن کی یہ سوچ ہے تو اس میں ان کی مدد کرنا ایک عظیم حماقت ہو گی۔ آصف زرداری جب اپنی مشکلات کے بھنور میں پھنس گئے تو اس کے نتیجے میں پی پی پی تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی۔ اگر اُن پر میمو گیٹ کی تلوار چل جاتی تو وہ بھی سیاسی شہادت کا علم بلند کرتے۔ شریف فیملی بھی اپنی مشکلات کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ یہ مشکلات کسی اور نے نہیں پیدا کیں۔ ڈان لیکس کسی فوجی سازش کا نتیجہ نہیں ہے، پاناما پیپرز آئی ایس آئی کی اختراع نہیں ہے۔ شریف فیملی کی مشکلات کے پیچھے معروضی حقائق کی کارفرمائی ہیں۔ گزرے ہوئے ماہ و سال کی دھمک گزرنے والے لمحات میں سنائی دے رہی ہے۔ 
پاکستان ایک بڑے ڈرامے کی گرفت میں ہے۔ جب اس پیمانے اور اس شدت سے واقعات رونما ہوں اور ایک کے بعد دوسرا قدم غلط پڑنے لگے تو پھر یہ تاثر گہرا ہو جاتا ہے کہ یہ سب واقعات کسی بڑے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved