تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     06-05-2017

چار چیزیں

ملتان کی چار چیزیں مشہور رہی ہیں: گرد و گرما گداگر و گورستان۔ 
اسی طرح امریکہ چار چیزوں سے پہچاناجاتا تھا: بیس بال‘ ہاٹ ڈاگ‘ ایپل پائی‘ شیورلے۔
وقت گزرنے کے ساتھ شہروں اور ملکوں کی شناخت بدل جاتی ہے۔ امریکہ میں بھی ٹیسلا (TESLA) نے شیورلے (جنرل موٹرز) کی جگہ لے لی ہے۔ شیورلے موٹر سازی میں دوسرے تین جنات میں سب سے آگے تھی۔ اب پٹرول کی بجائے بجلی سے چلنے والی کار ٹیسلا اس مالی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ کم از کم سٹاک ایکس چینج ہمیں یہی بتاتا ہے۔
ٹیسلا ایک بین الاقوامی کمپنی ہے اور اسی نام سے بیٹری سے چلنے والی ایک کار بناتی ہے‘ جو 64 ہزار ڈالر میں یورپ اور شمالی امریکہ میں فروخت ہوتی ہے۔ ہر چند کہ بیٹری کی ایک میعاد ہے مگر اس کی قیمتِ فروخت کے دائرے میں کم لوگ آتے ہیں۔ اگلے روز عاطف اپنی بیگم کے ہمراہ ماں باپ سے ملنے کے لئے میرے گھر آیا تو میں نے ٹیسلا کا ذکر چھیڑا۔ میرے علم میں ہے کہ وہ موٹر گاڑیوں کا عمدہ مذاق رکھتا ہے اور اس کے گیراج اور ڈرائیو وے پر چار کاریں اور وینز کھڑی نظر آتی ہیں۔ میں نے پوچھا: ٹیسلا کب خریدو گے؟ تو اس کا جواب تھا: بہت جلد‘ پیداوار بڑھ رہی ہے اور دام نیچے آ رہے ہیں۔
ٹیسلا کار کمپنی کو ابھی منافع بخش ہونا ہے مگر گزشتہ ہفتے وہ دوسروں سے زیادہ مالیت کی کار ساز فرم بن گئی‘ جب اس نے جنرل موٹرز کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جی ایم نے‘ جس میں بڑا حصہ شیورلے کا تھا‘ پچھلے سال دس ملین گاڑیاں بنا کر دس بلین ڈالر کا کاروبار کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ آج ٹیسلا کی قدر و قیمت51 بلین ڈالر سے زیادہ ہے‘ جو جی ایم سے ایک بلین اوپر ہے۔ ٹیسلا نے فورڈ کمپنی کو چھ بلین ڈالر سے پچھاڑا ہے۔ پچھلے سال ٹیسلا نے صرف 84 ہزار گاڑیاں بنائی تھیں؛ البتہ یہ گاڑیاں ماحولیات کے محکمانہ معیار پر پوری اتری ہیں اور امریکہ پر سے دوسروں کا تیل چھیننے اور جنگیں شروع کرنے کا الزام دھو رہی ہیں۔ شیل کی دریافت سے امریکہ پٹرول اور گیس کے معاملے میں تقریباً خود کفیل ہو چکا ہے۔
لگژری الیکٹرک کار ماڈل تین‘ سیڈان ہو گی۔ پانچ افراد سوار ہو سکیں گے۔ فری مونٹ کیلی فورنیا میں بنے گی۔ دوبارہ بیٹری چارج کرنے تک وہ 215 میل سفر کرے گی۔ چھ سیکنڈ میں صفر سے ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار پکڑ سکے گی۔ عاطف جیسے خریداروں کو 42 ہزار ڈالر میں ملے گی‘ مگر وہ ڈیش بورڈ کی بانجھ ہو گی یعنی خریدار کو بعض اشیا اپنے پلے سے لگوانا ہوں گی۔ جولائی 2017ء میں پیداوار شروع ہو گی۔ 2018ء تک کار کی تعداد پانچ ہزار فی ہفتہ سے بڑھ کر دس ہزار ہو جائے گی۔ تب کمپنی بین الاقوامی منڈی کی جانب بڑھے گی۔ ہندوستان‘ برازیل‘ ساؤتھ افریقہ‘ جنوبی کوریا‘ سنگا پور اور آئرلینڈ میں ڈیلرشپ کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ شخصی سکیورٹی نمبر ایک مسئلہ ہے‘ اس لئے وہاں بیشتر سرکاری اور سیاسی گاڑیاں بلٹ پروف ہیں۔ چار سلنڈر کی ٹیوٹا یا نیسان کا نام بھی کوئی نہیں لیتا۔ کار بھی سٹیٹس سمبل بن گئی ہے۔ جتنا بڑا آدمی اتنی بڑی گاڑی۔
فری مونٹ میں‘ جہاں انڈیا اور پاکستان سے نقلِ وطن کرنے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں‘ بجلی سے چلنے والی کار کے بیٹری پیک بنائے جا رہے ہیں۔ یہ بیٹری کار بیٹری سے پانچ گنا بڑی ہو گی اور ٹیسلا کے اگلے حصے میں سما جائے گی۔ امریکہ میں اس ماڈل کی کار پر سفر کرنے کی لاگت ڈالر 0.663 فی میل ہو گی۔ ٹیسلا ماڈل تین‘ جس کا دوسرا نام بلیو سٹار ہو گا‘ ایک عام کار کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ ماڈل تین کے چار دروازے ہوں گے اور یہ ٹیسلا کے تیرہ ماڈلوں میں سے ایک ہو گا‘ جن میں تفریحی گاڑیوں SUV سے لے کر ٹرک تک شامل ہوں گے۔
پاکستان میں پٹرول کی قلت ہے۔ توانائی پر حکومت کا کنٹرول ہے۔ حکام نے پٹرول کے نرخ کم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پھر بھی لوگ اپنی موٹر سائیکلوں‘ کاروں اور بسوں میں پٹرول بھرواتے ہیں۔ وہ بجلی کی کار خریدنے سے گریز کریں گے کیونکہ بجلی کا بل ادا کرنے میں اور بھی دشواری ہے۔ سرکاری ملازم‘ لینڈ کروزر‘ بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز جیسی سٹیل باڈی گاڑیوں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں پٹرول کی فراہمی میں بھی کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ گزشتہ سال ٹیسلا کو‘ جو فولاد کی چادر سے بن رہی ہے‘ دس بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس سال وہ جنرل موٹرز (شیورلے) سے آگے نکل کر نمبر ایک ہو گئی ہے۔ جنرل موٹرز نے فورڈ اور کرائسلر کو پیچھے چھوڑ کر یہ پوزیشن حاصل کی تھی۔ بجلی سے چلنے والی گاڑی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس سے دھواں نہیں نکلتا جبکہ پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی ہر گاڑی سے دھواں خارج ہوتا ہے کسی سے کم‘ کسی سے زیادہ‘ اور اسی وجہ سے EPA کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
امریکہ میں گو پٹرول کے دام عام آدمی کی رسائی میں ہیں‘ پھر بھی الیکٹرک کار کے خریداروں کی کمی نہیں۔ کمپنی کا بیان ہے کہ اس کا اعلان ہونے پر ایک ہفتے کے اندر ماڈل تین‘ کے گاہکوں کی تعداد 325,000 ہو گئی ہے‘ جو 2015ء میں بکنے والی ٹیسلا سے تین گنا تھی۔ یہ ریزرویشن 14 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ ٹیسلا دوسرے ملکوں مثلاً نیدر لینڈ اور میکسیکو میں بھی بن رہی ہے۔ کمپنی نے گزشتہ سال 84,000 گاڑیاں تیار کیں‘ جن کی قیمت فروخت 51 بلین ڈالر تھی۔ جو گاڑیاں ماحول کے مطابق پائی جاتی ہیں ان کے خریداروں کو حکومت کی جانب سے مالی امداد بھی ملتی ہے۔ اس سال ٹیسلا کا خریدار 7,500 ڈالر وفاقی انکم ٹیکس کریڈٹ لے سکتا تھا۔ بجلی سے چلنے والی کار ہمیشہ قومی سیاست کا شکار رہی ہے۔ امکان ہے کہ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں ریپبلکن اکثریت اور وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد سے یہ ترغیب باقی نہیں رہے گی۔ سرِ دست کمپنی میں سرمایہ لگانے والے اس بات سے خوش ہیں کہ حصص کی قیمتیں اوپر جا رہی ہیں۔ 2013ء میں ٹیسلا کے حصص چالیس ڈالر میں دستیاب تھے‘ آج ان کے دام 300 ڈالر سے زیادہ ہیں۔ کمپنی قدر و قیمت کے اعتبار سے عروج پر نظر آتی ہے۔ پچیس سال بعد ہر گھر اور اپارٹمنٹ بلڈنگ کے باہر بجلی سے چلنے والی کاریں کھڑی دکھائی دیں گی۔
وقت گزرنے کے ساتھ شہروں اور ملکوں کی شناخت بدل جاتی ہے۔ امریکہ میں بھی ٹیسلا (TESLA) نے شیورلے (جنرل موٹرز) کی جگہ لے لی ہے۔ شیورلے موٹر سازی میں دوسرے تین جنات میں سب سے آگے تھی۔ اب پٹرول کی بجائے بجلی سے چلنے والی کار ٹیسلا اس مالی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ کم از کم سٹاک ایکس چینج ہمیں یہی بتاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved