افضال نوید میرے پسندیدہ شاعر ہیں اور جو پانچ سات غزل گو میں نے شارٹ لسٹ کر رکھے ہیں ان میں وہ بدستور موجود ہیں۔ تاہم ان کی حالیہ تمثالیت زدہ شاعری میری سمجھ سے باہر ہے۔ غزل کا اساسی موضوع عشق ہے اور اگر آپ اس موضوع سے باہر نکلتے ہیں تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں لیکن اگر قاری کے پلے ہی کچھ نہ پڑے تو یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ ابہام ایک الگ چیز ہے بلکہ ابہام ہی اکثر اوقات شعر کو شعر بناتا ہے لیکن ابہام الفاظ کے گورکھ دھندے سے بالکل الگ چیز ہے۔ اس لیے اگر آپ اپنے تخلیقی وفور کو شاعری کی بجائے معمہ سازی میں تبدیل کر دیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔ کچھ نقاد حضرات نے اس شاعری کی تعریف ضرور کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ صرف تنقید نگاروں کے لیے لکھتے ہیں؟ آپ کی شاعری کو عام قاری نے زندہ رکھنا ہے‘ نقادوں نے نہیں کیونکہ نقاد تو عام چھوڑ‘ خاص قاری سے بھی آگے کی چیز ہے۔ اُن سے میرا تقاضا یہی ہے کہ آپ کا شعر کم ازکم میری سمجھ میں تو آنا چاہیے۔میں اس بات کو مانتا ہوں کہ شعر سراسر سمجھنے کی چیز ہوتا بھی نہیں‘ اس سے لطف اندوز ہونا ہی اصل مقصد ہے۔ تاہم‘ شعر اگر سمجھ میں نہ بھی آئے تو اُس میں کوئی خوبی تو ہونی چاہیے‘ مثلاً الفاظ کا دروبست ہی ایسا ہو کہ بھلا لگے‘ یعنی شعر کا کوئی جواز تو ہو‘ غالبؔ نے بھی یہی کہہ رکھا ہے ؎
گر بہ معنی نہ رسی جلوۂ صورت چہ کم است
خمِ زلف و شکنِ طرفِ کلُا ہے دریاب
''گلافتاب‘‘ کے کچھ شعر اگر عام قاری کی سمجھ میں نہیں آتے تو اُن میں الفاظ کا صوتی حسن ضرور موجود ہے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ آپ ''آب رواں‘‘ جیسی شاعری کیوں نہیں کرتے تو مجھے بُرا لگتا ہے۔ اسی طرح افضال نوید کو بھی اگر کہا جائے کہ آپ ''تیرے شہر وصال میں‘‘ جیسی شاعری کیوں نہیں کرتے تو اُنہیں بھی ضرور برا لگتا ہو گا۔ تاہم‘ قاری کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ آپ کی ذہنی اور فکری کیفیات کیا اور کس قدر پیچیدہ ہیں۔ قاری کو اگر پہلی کوشش پر شعر سمجھ نہیں پڑتا تو وہ آگے نکل جاتا ہے۔
غالبؔ کی مشکل پسندی بھی بہت مشہور ہے جو اُس نے بیدل سے لی تھی۔ لیکن اوّل تو وہ مشکل پسندی ایسی نہیں تھی کہ کوشش کے باوجود شعر سمجھ میں نہ آئے اور دوسرے یہ کہ غالبؔ کے وہی اشعار مقبول ہوئے اور جن کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے جو فوراً سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ تاریخ میں یہ بھی موجود ہے کہ غالبؔ نے آخری عمر میں اپنی بعض مشکل غزلوں کو آسان فہم بھی بنانے کی کوشش کی‘ حتیٰ کہ بیدل کے مشکل اشعار کو بھی گورکھ دھندا نہیں کہہ سکتے۔
سو‘ شعر تو وہ ہے جو پڑھتے یا سنتے ہی ٹھاہ کر کے سینے میں لگے‘ جو آپ آگے بھی کسی کو سُنا سکیں اور جو ایک دو بار پڑھنے سے حافظے میں محفوظ بھی رہ جائے۔ قاری شاعری کی کتاب کوئی سائنسی مسئلہ حل کرنے کے لیے شروع نہیں کرتا۔ میں اعجاز بٹالوی کا یہ جملہ اکثر کوٹ کیا کرتا ہوں کہ غزل کے شعر کو خوش مزہ ہونا چاہیے اور جہاں تک میرا تعلق ہے‘ میں تو اُوٹ پٹانگ اور بے معنی شعر کے بھی خلاف نہیں ہوں بشرطیکہ اُسے کوشش کر کے اس قدر بے معنی نہ بنا دیا گیا ہو کہ سہیلی بوجھ پہیلی کی سی صورتحال پیدا ہو جائے۔ شعر میں اور نہیں تو کوئی شرارت‘ کوئی پنگے بازی تو ہو نہ کہ وہ پیچیدگی ہی کا مرقع ہو۔ شعر اگر سمجھ میں نہ بھی آئے تو آپ کو کم از کم حیرت میں تو مبتلا کر دے‘ وہ حیرت جو خوشگوار بھی ہو‘ مایوس کرنے والی نہیں۔ شاعری کی کتاب کوچہ می گوئیوں کا مجموعہ نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ شاعر محض اپنے لیے نہیں لکھتا‘ اگر دوسروں کو اس میں شریک کرنا چاہتا ہے تو شاعری میں اس کا سامان بھی ہونا چاہیے۔
سوال شاعری کے اچھی یا بری ہونے کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ مثلاً جو شاعری اچھی ہو سکتی تھی یا جسے قابل قبول بنانے کی شاعر استطاعت بھی رکھتا ہو لیکن اسے عملاً ایک بھمبل بُھوسے میں ڈال دے تو وہ شاعری نہیں‘ کچھ اور کر رہا ہوتا ہے۔ میں گمراہی کو بھی مسترد نہیں کرتا کیونکہ گمراہی سے ہی کوئی صحیح راستہ نکلنے کا امکان بھی ہوتا ہے اور گمراہی کو مستقل طور پر لطف حاصل کرنے کا ذریعہ بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ آپ نیا راستہ ضرور بنائیں لیکن وہ کم از کم ایسا تو ہو جس پر چلا جا سکے اور اگر آپ گمراہ بھی ہیں تو کم از کم ایسے گمراہ تو ہوں کہ دوسروں کو بھی گمراہ کر سکیں۔
پچھلے دنوں موصوف کا فون آیا کہ میں نے آپ کے کہنے پر اپنی اصلاح کر لی ہے اور اس سلسلے میں تازہ غزل بھی بھیج رہا ہوں‘ لیکن اس میں یہ ایک ہی شعر ایسا تھا کہ جسے شعر کہا جا سکے یعنی جو سمجھ میں آتا ہو ؎
مگر پرندے ہمارے ہوا میں اُڑتے رہے
نہ میں ہی نکلا تری سمت اور نہ تُو نکلا
باقی اشعار ماشاء اللہ اس قبیل کے تھے ؎
نہ ہونے کی کسی صورت سے کچھ نہ ہونے تلک
کوئی نہ حصہ تشکیل فالتو نکلا
جھلک ٹھہرنے نہ دیتی تھی سینے میں دل کو
صدا لگائی تو خمیازہ گلو نکلا
افضال نوید واقعی میرا پسندیدہ شاعر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ میرا پسندیدہ ہی رہے‘ تاہم اگر وہ ایسا نہیں چاہتا تو الگ بات ہے اور میرا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ بقول علامہ اقبالؔ ...
نغمہ کُجا و من کجا‘ ساز سخن بہانہ ایست
سُوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
آج کا مقطع
اُن کا برتائو ہی برا ہے‘ ظفر
ویسے وہ آدمی تو اچھے ہیں