تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-05-2017

وطن

محمد عبد الکریم نامی وہ بچّہ میں بھول نہیں سکتا۔ ہمیشہ وہ ضد کرتا رہتا کہ اسے ''اپنے وطن ‘‘ جانا ہے ۔ یہ ذہنی صحت کی بحالی کا مرکز تھا۔ اس کے دادا نے جو تفصیل بتائی ، اس کے مطابق عبد الکریم کا باپ اپنے کاروبارکے سلسلے میں دنیا بھر کے دوروں پر رہتاتھا ۔ ہمیشہ ہر کہیں اپنے فرزند کو وہ ساتھ لے جاتا۔ 2، 3برس کی عمر سے 5سال تک ، دنیا بھر میں بہت سی جگہیں اس نے دیکھ لی تھیں ۔ وہ 5سال کا تھا کہ ایک ایکسیڈنٹ میں اس کے ماں باپ مر گئے۔گاڑی اس طرح سے تباہ ہوئی ، جیسے گوشت کا قیمہ بنتا ہے ۔عبد الکریم شیشے سے باہر جا گرا تھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ بچّہ کس کا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ عارضی طور پر اسے یتیم خانے بھجوا دیا گیا۔ دو برس تک کی جدوجہد کے بعد ، اس کا دادا اسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔ اپنے دادا کو اس نے پہچان لیا۔ اس سے لپٹ گیا اور یہ کہنے گا کہ اسے اپنے وطن جانا ہے ۔ دادا کچھ حیران ہوا۔ پھر اسے یہی سمجھ آئی کہ بچّہ اپنے گھر جانا چاہتا ہے ۔سینے سے لگا کر اسے وہ گھر لے آیا۔ 
یہاں سے اس الجھن کا آغاز ہوا۔ چند ماہ میں محمد عبد الکریم گھر سے اکتا گیا ۔ اس گھر سے ، جہاں دنیا کی تمام آسائشیں موجود تھیں ۔ وہ ضد کرنے لگا کہ اسے اپنے وطن جانا ہے ۔ ایک سات سالہ بچّے کی طرف سے اپنے وطن جانے کی ضد ایک عجیب سی بات تھی ۔ گھر والوں نے یتیم خانے کے مینیجر سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ دو برس تک وہاں کئی بار اس نے یہی ضد کی۔ اس کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ وہ اپنے گھر جانا چاہتا ہے ۔ اس کے سوا اور وہ سوچ بھی کیا سکتے تھے ۔اب صورتِ حال یہ تھی کہ اپنے گھر بیٹھ کر بھی وہ وطن کو یاد کررہا تھا۔
ہر خوبصورت چیز دیکھ کر اپنے وطن کو وہ یاد کرتا تھا۔ شام کو جب ٹھنڈی ہوا چلتی تو وہ بتاتا کہ اس کے وطن میں ہر وقت ایسی ہوا چلتی ہے ۔مزیدار پھل کھاتے ہوئے اسے اپنا وطن یاد آتا۔ اور تو اور خوبصورت لوگوں کو دیکھ کر وہ ٹھٹک جاتا اور کہتا کہ وہ اس کے وطن کے لوگ ہیں ۔
محمد عبد الکریم کا دادا صورتِ حال کو بھانپ گیا۔ ہوا یہ کہ جب اپنے باپ کے ساتھ دنیا بھر کی خوبصورت جگہوں کی اس نے سیر کی تو اس دوران کوئی شہر اسے بھا گیا تھا۔ اسے وہ اپنا وطن سمجھتا تھا ۔ایشیا میں یہ سخت گرمی کا موسم تھا۔ اس نے اپنے پوتے کو ساتھ لیا اور یورپ کا رخ کیا۔ خوبصورت مقامات پر وہ بہل جاتا تھا مگر وقتی طور پر ۔ چند ماہ کے بعد وہ پھر اکتا جاتا۔ پھر اسے یاد آتا کہ یہ تو اس کا وطن نہیں ۔ دنیا بھر کے خوبصورت ترین مقامات کی انہوں نے سیر کی ۔ آخر مایوس وہ کر وہ ایشیا لوٹ آئے ۔ 
محمد بن عبد الکریم اب 13برس کا ہو چکا تھا۔جیسا کہ پہلے عرض کیا، ہر خوبصورت چیز میں اسے وطن دکھائی دیتا تھا؛حتیٰ کہ سنہرے منقش برتن دیکھ کر بھی وہ مچل جاتا تھا۔ ہر بد صورت چیز سے وہ بدکتا تھا۔ جو تفصیلات اس نے بتائی تھیں ، اس کے مطابق اس کا وطن خوبصورتی کا دوسرانام تھا۔ باغات میں پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے درختوں کودیکھ کر وہ اپنے وطن کو یاد کرتا۔بہتا پانی دیکھ کر بھی ۔
دادا کو یاد آیا کہ محمد عبد الکریم کا باپ بے حد وسیع تعلقات رکھتا تھا؛حتیٰ کہ ہالی ووڈ کے ڈائریکٹروں سے بھی اس کی رہ و رسم تھی ۔ کئی ماہ تک اسی جستجو میں لگا رہا اور بالاخر انتظام کرنے میں وہ کامیاب رہا۔ وہ عبد الکریم کو ہالی ووڈ کے ایک سیٹ پر لے گیا۔ یہ ایسی جگہ تھی، جہاں خوبصورتی ہی خوبصورتی تھی ۔ بدصورتی کا داخلہ جیسے روک دیا گیا تھا۔ یہاں پرانے زمانے کے ایک شاہی محل کو از سرِ نو زندہ کیا گیا تھا۔ یہاں عبد الکریم کا خوب دل لگا۔ اس کا دادا مستقبل کا سوچ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ساری زندگی یہاں قیام ممکن نہیں تھا۔ یہ توعارضی طور پر بسائی گئی ایک مصنوعی بستی تھی ۔
پھر وہ ہوا، جو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔صرف چند روز کے بعد ہی عبد الکریم کھٹک گیا۔ ہر شے کو وہ ٹٹول کر دیکھنے لگا۔ پھر اسے وہاں کچھ بری چیزوں سے واسطہ پڑا۔ دو اداکاروں کی آپس میں لڑائی ہو ئی اور خوب انہوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ کچھ برتن گر کے ٹوٹ گئے ۔ ایک جگہ عبد الکریم نے ایک مری ہوئی بلی دیکھی، جس سے سرانڈ اٹھ رہی تھی ۔ یہ سب دیکھ کر اس نے اعلان کر دیا کہ یہ اس کا وطن نہیں ۔ 
دادا اس نتیجے پر پہنچا، جس پر اسے کافی پہلے پہنچ جانا چاہیے تھا۔ خرابی باہر نہیں ، بچّے کے اندر تھی ۔ اسے نفسیاتی علاج کی ضرورت تھی ۔ شاید بچپن میں پیش آنے والے حادثے اور یتیم خانے میں گزرے وقت نے اسے ذہنی صدمے سے دوچار کیا تھا۔ اسے وہ میرے پاس لے کر آئے ۔ ہر قسم کے ٹیسٹ اور ہر طرح کے معائینے سے اسے گزارا گیا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ بچّے کا دماغ، اس کی ذہنی صلاحیت بظاہر بالکل ٹھیک ٹھاک تھی ۔ سوائے اس ایک بات کے کہ ''اپنے وطن ‘‘ کی عظمت میں وہ زمین آسمان کے قلابے ملا تا تھا ۔ جن چیزوں کو اپنے وطن کی نشانیاں وہ کہتا تھا ، مختلف ممالک میں ، وہ موجود تھیں ۔ ایسی کوئی ایک جگہ البتہ نہیں تھی ، جہاں وہ سب اکٹھی موجود ہوں ۔ 
یہ سب بھید ہی رہتااگر وہ بیمار نہ ہوتا۔ بہت تیزی سے اس کے گردے ناکارہ ہوئے ۔ وہ بستر پہ پڑ گیا۔ اب وہ بالکل ہی خاموش رہنے ہلگا؛حتیٰ کہ اپنے وطن کو یاد کرنا بھی اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک لگائو سا مجھے ہو گیا تھا۔ روز میں اسے دیکھنے جایا کرتا۔ بمشکل تین ماہ بھی وہ بیمار نہ رہا ہوگا ، گردوں کے بعد جب اس کا جگر ناکارہ ہو نا شروع ہوا۔ اپنی زندگی کے آخری روز ، ایک بار پھر اپنے وطن کو اس نے یاد کیا۔ حسرت اور غم کے ساتھ نہیں بلکہ حیرت انگیز مسرت کے ساتھ ۔ اس نے کہا کہ اس کے وطن میں بیماری ہے ، نہ بدبو ۔آخر اس نے یہ کہا کہ ہم سب کا وہ وہاں انتظار کرے گا۔
یہ وہ وقت تھا، جب پہلی بار درست طور پر ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ کہنا کیا چاہتا تھا۔ ہائے! جنت سے نکالی گئی ایک روح ، جسے اپنا وطن یا دآتا تھا۔ وہ وطن ، جہاں بیماری تھی ، نہ بدبو۔ دودھ اور شہد کی نہریں ، پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور موتی ۔ محمد عبد الکریم ہی کیا، کمتری کی اس دنیا میں اندر سے سب ہی بے چین ہیں ۔ 
ہر خوبصورت چیز دیکھ کر اپنے وطن کو وہ یاد کرتا تھا۔ شام کو جب ٹھنڈی ہوا چلتی تو وہ بتاتا کہ اس کے وطن میں ہر وقت ایسی ہوا چلتی ہے ۔مزیدار پھل کھاتے ہوئے اسے اپنا وطن یاد آتا۔ اور تو اور خوبصورت لوگوں کو دیکھ کر وہ ٹھٹک جاتا اور کہتا کہ وہ اس کے وطن کے لوگ ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved