ایک بار پھر وہی گزارش: دوسروں کی خامیوں پر نہیں‘ زندگی اپنی خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں رقم وہی ارشاد: لیس للا نسان الّا ماسعیٰ
قومی زندگی میں بلوغت کی چند نشانیاں تو آخرکار نظر آئی ہیں؛ اگرچہ سیاست دانوں میں کم۔ اس وقت جب ججوں کے بکائو مال ہونے پر‘ افواہوں کا بازار گرم تھا۔ بہت سے دانا و بینا لوگ‘ حتیٰ کہ بعض جنرل اور دانشور بھی بازاری لونڈوں کے قائل ہوتے نظر آئے۔ سپریم کورٹ نے مگر بے مثال تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم کے خلاف احتجاجی تحریک کا تصّور مسترد کرکے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی ایسی ہی بلوغت دکھائی۔ طاقت کے مظاہرے پر تلے رہنے والے وکلائِ کرام سے جس کی امید کم تھی۔
نام لئے بغیر محترم و مکرم جج نے عمران خان کے طرزِ عمل پہ اظہار بیزاری کیا ہے۔ ایسا کرنے میں وہ حق بجانب ہیں۔ ان سے مگر ایک مؤدبانہ التماس ہے۔ عدالتوں کے حوالے سے‘ آج جو فضا کارفرما ہے‘ عدلیہ خود بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران‘ جس طرح عدالت کے باہر‘ عدالت لگانے کی اجازت دی گئی‘ انصاف کی تاریخ میں اس کی مثال نہ ملے گی۔ معاملہ ججوں کو سونپ دینے کے بعد‘ فقط ان سے بات کی جاتی ہے اور وہ بھی دلائل کی زبان میں۔ ایک گائوں بھی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ قابل احترام پنچ‘ تنازعہ نمٹا رہے ہوں تو ان کے حامی‘ برگد کے درخت سے قابلِ سماعت فاصلے پر‘ ننگی طاقت کی نمائش کریں۔ فقط یہ بدذوقی نہیں‘ قوت کے بل پر من مانی کی وحشیانہ کوشش شمار ہو گی۔ ایسے لوگوں کا حقہ پانی بند کر دیا جائے گا۔
ایک معمولی نمبردار بھی جس چیز کی اجازت نہ دے‘ ہماری قابلِ احترام سپریم کورٹ نے خوش دلی سے دی۔ دانیال عزیز‘ خواجہ سعد رفیق‘ مریم اورنگزیب‘ طلال چوہدری‘ نعیم الحق‘ فواد چوہدری اور شیخ رشید‘ ہر طرح کی من مانی تعبیرات کرتے رہے۔ عدالت کے ماتھے پہ شکن تک نہ آئی۔ صبر کا مطلب یہ کب سے ہو گیا کہ کوئی استاد کلاس روم میں بچوں کو چیخ و پکار کی اجازت دے۔
ہمارے سیاستدان‘ غیر ذمہ دار بچوں سے زیادہ کیا ہیں؟
برسوں تک ایم کیو ایم نے کراچی میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے رکھا۔ فاروق ستار اور آفاق احمد اب یہ چاہتے ہیں کہ منہ ہاتھ دھو کر‘ سکول جانے کے لیے تیار بچے کی طرح‘ انہیں اب گود میں اٹھا لیا جائے۔ قائد اعظمؒ کے پاکستان میں ابھی تک قاتلوں کو اگر سیاست کی آزادی ہے تو اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ ہمیشہ یہ آزادی باقی رہے گی؟ آصف علی زرداری‘ جب سے سیاست میں آئے ہیں‘ لوٹ مار ان کا شیوہ ہے۔ ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ بھٹو خاندان کو بھی انہوں نے کرپشن پر آمادہ کیا‘ جو اس کا شعار نہ تھا۔ برسوں تک دبئی سے سندھ کی حکومت وہ چلاتے رہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے کمزور پڑ جانے کے بعد‘ اس امید کے ساتھ پیپلز پارٹی کا ہارا ہوا لشکر میدان میں اترا ہے کہ ایک بار پھر زرداری کو تخت پہ بٹھا دیا جائے۔ چند پراپرٹی ڈیلروں کی مدد سے‘ دوچار سو ارب لٹا کر۔
میاں محمد نواز شریف کا اقتدار طوفانی لہروں پہ لرزتی کشتی ہو گیا تو اہل زر کی امداد سے‘ عام جلسوں کا انہوں نے اہتمام کیا۔ اعلان کیا کہ ان کی جیبیں بھری ہیں۔ سینکڑوں اور ہزاروں ارب کے نوٹ‘ وہ ہر اس شہر کے لیے چھاپ سکتے ہیں‘ جس کے مکین دھوکہ کھانے کے لیے تیار ہوں۔ مشاہد حسین سید کی اصطلاح میں‘ دیگوں کے منہ ذرائع ابلاغ کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔
ایک ممتاز اخبار نویس کو ملک سے بے وفائی کا طعنہ دیاگیا‘ جس نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ میڈیا سیل کی عنایات سے استفادہ کرنے والے‘ ایسے میں جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا ارادہ نہ کریں تو کیا کریں۔ جن کی کردار کشی کے وہ درپے ہیں‘ آج سے نہیں‘ عشروں سے وہ صحافت میں ہیں۔ ان کی سب آرا اور تمام تجزیے درست نہیں ہوتے۔ نقد ان پہ کیا جا سکتا ہے اور ڈٹ کر کیا جا سکتا ہے۔ مگر مذاق اڑانے کی کوشش کے کیا معنی؟
سپریم کورٹ ایسے میں بروئے کار آئی اور اس شان سے آئی ہے‘ جان ہتھیلی پر رکھے جیسے کوئی شہسوار میدان جنگ میں نکلے۔ لے دے ختم ہوئی اور فعال طبقات کو تسلیم کرنا پڑا ہے کہ پانامہ کیس پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ، عدل کے تقاضے ہی پورے نہیں کرتا‘ جرأت و جسارت کا مظہر بھی ہے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کے ہنگام‘ سپریم کورٹ کے تیور‘ کچھ اور بھی واضح ہوئے ہیں۔ ان افسروں کو قبول کرنے سے اس نے انکار کر دیا‘ اس کی دانست میں‘ جن سے زیادہ امید وابستہ نہ کی جا سکتی تھی۔ واضح طور پر یہ پیغام اس نے دیا ہے کہ اپنے دامن میں کوئی داغ اسے گوارا نہیں۔
گرجے ہیں بہت شیخ سرِگوشۂِ منبر
کڑکے ہیں‘ بہت اہل حکم برسر دربار
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے‘ اس دل میں بجز داغِ ندامت
یہ بھی کہ چالاکی کی اور چالبازی کی کوشش‘ معزز جج ہرگز برداشت نہ کریں گے۔ '' عدالت سے انصاف کی کوئی امید نہیں‘‘ پیپلز پارٹی چیخ رہی ہے۔ اس کے باوجود چیختی ہے کہ اس باب میں کسی ناانصافی کا عدالت نے ارتکاب نہیں کیا۔ اعتزاز احسن‘ ندیم چن اور قمر زمان کائرہ ایسے اچھے بھلے لیڈر‘ کیا کر رہے ہیں؟... کیا یہ ان کے شایان شان ہے؟ گلے میں زرداری کی اطاعت کا طوق اور ججوں پہ حرف زنی؟
عمران خان ان پر بھی بازی لے گئے۔ اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نے اپنی قوم کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ اپوزیشن لیڈر آصف علی زرداری کی طرح‘ اربوں روپے‘ ان کا خاندان ملک سے باہر لے گیا۔ اس طرح کاروباری طبقے اور عام آدمی کو اس نے پیغام دیا کہ ملک کا مستقبل مخدوش ہے۔ یہ عجیب سرزمین ہے‘ جہاں ملک سے باہر کاروبار بجائے خود کوئی جرم نہیں۔ قانون کو تاجر حکمرانوں نے‘ موم کی ناک ربع صدی پہلے بنایا تھا۔ اس وقت یہ قوم تاریخ کے چوراہے پر سوئی پڑی رہی۔ اب وہ ہڑبڑا کے جاگی ہے۔ جی نہیں اب فیصلہ جو بھی ہو گا‘ آئین اور قانون کی حدود میں ہو گا۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ کیا وہ ناجائز روپیہ کمانے کے مرتکب ہیں یا نہیں۔ کیا انہوں نے کالا دھن سفید کیا یا نہیں۔ سپریم کورٹ کو اس پہ حکم صادر کرنا ہے۔ مقدمے کی سماعت کے ہنگام‘ تحریک انصاف کے سربراہ کا یہ انکشاف بدذوقی ہے کہ دس ارب روپے کی پیشکش انہیں ہوئی۔ ممکن ہے کہ واقعی ہوئی ہو۔ تاثر انہوں نے یہ دینے کی کوشش کی کہ ممکن ہے جج بھی خریدے گئے ہوں۔ چیخ چیخ کر فیصلہ یہ کہتا ہے جج تو نہیں خریدے جا سکے۔ کسی کا اگر یہ دعویٰ ہے تو ثبوت لے کر آئے‘ ورنہ وہ قابل معافی نہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف کو اگر رخصت ہونا ہے تو قاعدے قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد، عام انتخابات کے ذریعے یا عدالتی فیصلے کے نتیجے میں۔
ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ اپنے فرائض ہم انجام نہیں دیتے۔ ذرائع ابلاغ‘ دانشور‘ وکلا کی انجمنیں اور سیاسی پارٹیاں‘ کوئی بھی نہیں۔ سب کسی نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں۔ ان میں سے ایک عمران خان ہیں۔ فساد پہ آمادہ ‘ریاضت سے گریزاں۔ دو تہائی اکثریت سے کپتان جیت سکتا‘ چار برس تک محض احتجاج کی بجائے‘ اقتدار سنبھالنے کی اگر اس نے تیاری کی ہوتی۔ پارٹی کو منظم کیا ہوتا۔ زراعت‘ صنعت‘ افسر شاہی‘ کاروبار‘ پولیس اور نظام انصاف پہ پسینہ بہایا ہوتا۔ دوسروں کی طرح مگر وہ بھی فقط دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی تفریح میں مگن ہے۔ اندیشہ ہے کہ مالی دیانت کے باوجود‘ مختصر سے اقتدار کے بعد‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی طرح آخرکار وہ بھی عبرت انگیز انجام سے دوچار ہو گا۔ قرآن کریم یہ شرط عائد کرتا ہے کہ سچی کامیابی اس کے لیے ہے‘ سچائی کے علاوہ صبر کا بھی جو دامن تھامے رکھے۔
ایک بار پھر وہی گزارش: دوسروں کی خامیوں پر نہیں‘ زندگی اپنی خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں رقم وہی ارشاد: لیس للا نسان الّا ماسعیٰ