تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     07-05-2017

بھٹو کو قتل کس نے کیا ؟

بھٹو کو پھانسی سے قبل پتہ چلا ان پر جنرل ضیاء کے وائٹ پیپر میں سنگین الزامات لگائے ہیں۔ دھاندلی سے بھی بڑا الزام یہ تھا بھٹو کرپٹ تھا۔
بھٹو نے کاغذ قلم ڈھونڈ کر ان الزامات کا جواب لکھنا شروع کیا تاکہ تاریخ میں ان کا مؤقف زندہ رہے اور پیپلز پارٹی اور عوام ان کا دفاع کرنے میں شرمندگی محسوس نہ کریں کہ ان کا لیڈر کرپٹ تھا ۔ یوں جیل کی ان طویل اور تاریک راتوں میں لکھے گئے وہ نوٹس بعد میں If I am assassinated کتاب کی شکل میں سامنے آئے۔ بھٹو نے کاغذ اپنے گھٹنے پر رکھ کر لکھنا شروع کیا:
میں 1958ء میں وفاقی وزیر بنا ۔ پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن میں کمی کی وجہ سے وزارت تجارت نفع بخش وزارت سمجھی جاتی رہی ہے۔ وہ جنرل ایوب کا سنہری دور تھا جب میں وزیر بنا تھا ۔ یہ ایک طرح سے کان تھی۔ ایوب خان کے برخوردار اگر راتوں رات کروڑپتی بن سکتے تھے تو میرا بڑا بیٹا تو ایوب خان کے مارشل لاء کے ایک سال بعد پیدا ہوا تھا ۔ یہ لیٹروں کا دور تھا۔ ایک ایسا دور جس میں وزیروں کے پاس ایک نہیں دو دو عہدے ہوتے تھے۔ ایک اسلام آباد میں وزیرخزانہ اور دوسرا امریکہ میں ورلڈ بنک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا ۔ منظم اور بڑے پیمانے پر کرپشن نے اس دور میں عروج پایا ۔ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں میں ایوب خان حکومت کے چند ان لیڈروں میں سے تھا جس کے ہاتھ صاف تھے۔ 
مارشل لاء کے اعلان کے بعد کراچی ایک تقریب میں چھوٹے قد کے ایک بزنس مین نے کہا مارشل لاء بھی کرپشن کو نہیں روک سکتا۔ میں نے پوچھا آپ چور بازاری کرتے ہیں ۔ اس نے جواب دیا ہاں! ورنہ کام بند ہوجائے۔ یہ سن کر میں نے وہیں موقع پر اس بزنس مین کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ۔ یہ خبر نیویارک ٹائمز میں چھپی لیکن پاکستان میں روک لی گئی۔ اس بزنس مین کو ایک گھنٹے کے اندر چھوڑ دیا گیا۔ نوجوان وفاقی وزیر تجارت کی اس کارروائی سے تاجر برادری خوفزدہ ہوجائے گی اور نقصان ہوگا۔ 
وہ وزارت لے کر ایندھن بجلی اور قدرتی وسائل کی وزارت دی گئی۔ وہ ایک اور کان تھی ۔ میں نے ملک میں مغربی تیل کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کی۔ طاقتور فارن تیل کمپنیوں کے دو اہلکاروں کو پاکستان سے باہر نکال دیا۔ وہ کرپشن میں ملوث تھے اور وزارت خزانہ کے افسروں کو رشوت دیتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد میری وہاں سے چھٹی کرا کے وزارت صنعت دے دی گئی جو اس سے بھی بڑی کان تھی ۔ کچھ عرصے بعد بائیس خاندانوں اور ان کے سرپرست وزیرخزانہ نے اس تیسری وزارت سے بھی میری چھٹی کرادی کیونکہ میں انکوائری کرارہا تھا جس میں ان کی بدعنوانیاں بھی سامنے آنے والی تھیں۔ 
ان وزارتوں میں جو مال تھا اور جو ترغیبات میں نے ٹھکرائیں، وہ اس الزام کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کہ میں نے کسی غیرملکی سربراہ سے بیس تیس کروڑ روپے لیے تھے۔ میں قومی اتحاد کا سیاستدان نہیں تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی پر مصالحت کرلیتا ۔
1968 ء میں اپنی بیگم کے ساتھ پیرس میں ایک دعوت میں مدعو تھے۔ وہاں ایک امیر مسلمان ملک کی شہزادی بھی مدعو تھیں۔ ان کے گھر سے اکٹھے دعوت کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں پاکستانی سیاست پر گفتگو شروع ہوئی۔ شہزادی نے گلے میں ایک قیمتی ہیرا پہن رکھا تھا۔تقریب میں پہنچ کر ہم میاں بیوی شہزادی کے ساتھ صوفے پر بیٹھے تھے۔جب گفتگو ختم ہوئی تو لگا وہ سوچ بچار میں غرق ہے۔ وہ اپنے قیمتی ہیرے سے کھیل رہی تھی۔اچانک سر اٹھا کر بولی‘ دیکھو ذوالفقار اگر آپ پاکستان کے صدر بن گئے تو یہ قیمتی ہیرا آپ کا ہوا۔ 
ہم سب ہنس پڑے۔ 
کئی سال بعد میں بحیثیت صدر پاکستان اس شہزادی کے ملک گیا تو شہزادی نے ہم میاں بیوی کو اپنے محل بلایا۔ ہم بیٹھ گئے تو لفافے میں بند پیکٹ مجھے دیا ۔ کھولا تو قیمتی ہیرا موجود تھا۔ میں نے انہیں بتایا اسے قبول کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ شہزادی بولی ہم اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ بڑی مشکل سے شہزادی کو سمجھایا وہ ہیرا اپنے پاس رکھیں۔ آپ کا اعلیٰ اخلاق تحفہ سے زیادہ قیمتی ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے دوران فلیٹز ہوٹل لاہور میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک غیرملکی ملنے آیا ۔ تعارف کے بعد بولا اسے ان کے صدر نے بھیجا ہے تاکہ مالی امداد کی پیشکش کروں ۔ میں نے کیسے جواب دیا؟
چار دن بعد میں نے اس ملک کے صدر پر سخت تنقید کی کہ انہوں نے مڈل ایسٹ میں راجرز پلان کو کیوں منظور کیا تھا؟ اس تقریر کے بعد اس ملک کے سفیر کراچی میں میری رہائش گاہ پر ملنے آئے اور بولے ان کے صدر کا دل میری تقریر سے دکھا تھا ۔ میں نے جواب دیا اپنے صدر سے کہیں انہوں نے بھی پیسوں کی پیشکشں کر کے میرا دل دکھایا تھا ۔ 1976ء میں سعودی عرب کے شاہ خالد پاکستان آئے اور ایک رولس رائس کار کی پیشکش کر کے اصرار کیا یہ ذاتی تحفہ میرے لیے ہے۔ میں نے احترام سے شکریہ ادا کیا اور کار حکومت پاکستان کے حوالے کر دی۔ گھر نہیں لے گیا۔ اگر گورنر جنرل غلام محمد‘ شاہ ابن سعود کی دی ہوئی کیڈلک کار ہتھیا سکتے تھے تو میں بھی رولس رائس رکھ سکتا تھا ۔ میں کوئی نیک انسان نہیں نہ ہی اتنا گناہگار جتنا فوجی حکومت مجھے ظاہر کررہی ہے۔ میں اپنی تعریفیں نہ کرتا لیکن کیا کروں مجھے اپنا دفاع کرنا ہے۔ مجھ میں بہت ساری کمزوریاں ہیں۔ میں نے جلسوں میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔ میری خطا کچھ بھی ہو ، میں بدعنوان نہیں ہوں۔ یہ تکلیف دہ بات ہے کسی کو ایسے ناپسندیدہ طریقے سے سزا دی جائے۔ یہ بدلہ ضرور ملے گا ۔ مجھے رسوا کرنے والوں نے پاکستان کے نام پر دھبہ لگایا ہے۔ میں نے تیس پینتیس سال عوام کی خدمت کی۔ وقت خود بتائے گا میرا نام مجرموں کے زمرہ میں شمار ہوگا یا ہیروز کے ساتھ لیا جائے گا ۔ میرا نام اور میری شہرت عوام کے پاس محفوظ اور تاریخ کے سینے میں محفوظ ہوچکی"۔یہ تھا بھٹو جو جیل کی کوٹھری میں اپنی جان سے زیادہ اس فکر میں تھا کہ اس پر یہ الزام لگا تھا کہ اس نے کسی غیرملکی صدر سے تیس کروڑ روپے عطیہ لیا تھا ۔ بھٹو کی یہ آخری کتاب If I am assassinated پڑھتے سوچ رہا ہوں بھٹو کو کس نے قتل کیا ؟
جنرل ضیاء یا سپریم کورٹ کے چار ججوں نے یا بھٹو کے بعد کی پیپلز پارٹی اور اس کے لیڈروں نے؟ کیا بینظیر بھٹو نے بھی اپنے باپ کی یہ آخری کتاب نہیں پڑھی تھی اور وہ بھی زرداری کے چکر میں پھنس گئیں اور سوئس عدالتوں میں پیشیاں بھگتتی رہیں؟ کیا انہوں نے باپ کی کتاب میں شہزادی کے ہیرے کی کہانی نہیں پڑھی تھی لہٰذا نیکلس سکینڈل میں پھنس گئیں جسے ان کی موت کے بعد وصول کرنے کے لیے پچھلے برس تک زرداری سوئس حکومت سے خط و کتابت کررہے تھے؟ کیا بی بی کو پتہ نہیں تھا ان کے باپ نے عربی شہزادی سے شرط جیتنے کے بعد بھی ہیروں کا ہار نہیں لیا تھا تو پھر انہوں نے نیکلس کیسے لے لیا ؟ کیا زرداری نے یہ کتاب نہیں پڑھی کہ اسے پتہ چلتا کہ اس کے سسر نے پیسوں کے مقابلے میں عزت کو ترجیح دی تھی؟ کیا اعتزاز احسن، فاروق نائیک، لطیف کھوسہ تک نے بھی یہ کتاب نہیں پڑھی وہ سب ڈاکٹر عاصم حسین ، ایان علی، شرجیل میمن، انور مجید جیسوں کی وکالت پر اتر آئے ہیں؟ ویسے ایک ادھ کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں کون ہے جو بھٹو کی طرح یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے ایک ٹکے کی کرپشن نہیں کی؟ 
پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے، جنہوں نے بھٹو کی سیاسی وراثت سے فائدے اٹھائے ہیں اگر بھٹو کی یہ کتاب پڑھی ہوتی تو علم ہوتا کہ انسانوں نے ایک دن سکندر کی طرح خالی ہاتھ اس دنیا سے چلے ہی جانا ہوتا ہے۔ جسم نے ایک دن مر ہی جانا ہوتا ہے۔ لیڈروں کے کردار اور کارنامے زندہ رہتے ہیں ۔ بھٹو کو ایک دن مرنا ہی تھا ، وہ جنرل ضیاء کے ہاتھوں پھانسی لگ کر مرتا یا آرام دہ بستر پر۔ لیکن آج کی پیپلز پارٹی نے بھٹو کو خود اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ کر قتل کیا ہے۔آج نوجوان نسل بھٹو کا مذاق اڑاتی ہے جب وہ یہ نعرہ سنتی ہے "آج بھی بھٹو زندہ ہے" ہے کوئی آج پیپلز پارٹی میں جو بھٹو کی طرح دعویٰ کر سکے کہ میں بدعنوان نہیں اور ہم سب اسے مان لیں جیسے بھٹو کے چالیس برس قبل کیے گئے دعویٰ کو مان رہے ہیں ؟ اب یہ زرداری ، ایان علی، انور مجید، شرجیل میمن، عاصم حسین کی پارٹی جانی جاتی ہے۔ یہ کال کوٹھری میں پھانسی سے زیادہ اپنے اوپر کرپشن کے الزامات لگنے سے پریشان حال بھٹو کی پارٹی نہیں رہی۔۔ وہ بھٹو جو رات گئے اپنے گھٹنے پر کاغذ رکھ کر تاریخ کے پنوں میں اپنے دفاع کومحفوظ کرنے کے لیے ٹوٹی پھوٹی لکیریں کھیچنے میں مصروف تھا کہ مجھ پر دنیا بھر کے سب گناہوں کا بوجھ ڈال دو لیکن میں مالی طور پر بدعنوان نہیں ۔۔ ! 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved