20 اپریل کے فیصلے کے مطابق، ایک ہفتے میں تشکیل پانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے قیام میں دو ہفتے تک لگ گئے۔ عسکری اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے علاوہ سول میں سے نیب، سٹیٹ بینک، ایف آئی اے اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن آف پاکستان کو تین، تین نام ارسال کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ چھ ارکان پر مشتمل جے آئی ٹی کے لیے، ان میں سے ایک ایک نام، خود سپریم کورٹ نے منتخب کرنا تھا۔ کور کمانڈرز میٹنگ نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق شفاف تحقیقات کے لیے نام بھیجنے کا اعلان کر دیا تھا۔ آئین کے مطابق، مسلح افواج سمیت تمام ریاستی ادارے سپریم کورٹ کے ساتھ تعاون (اور اس کے حکم پر عملدرآمد) کے پابند ہیں۔ چاروں سول اداروں نے بھی وقتِ مقررہ کے اندر تین تین نام ارسال کر دیے تھے۔ اس دوران تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا، مثلاً مالی معاملات کے لیے قائم جے آئی ٹی میں فوجی اداروں کا کیا کام؟ یہ بھی کہ انٹیلی جنس ادارے کیا اس نوع کی تحقیقات کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں؟ مسلح افواج کے ''ذرائع‘‘ سے قریبی رابطہ رکھنے والے یہ ''خبر‘‘ لائے کہ عسکری قیادت نے اس قضیے سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس کے لئے آرمی چیف، سپریم کورٹ کے نام معذرت کا خط لکھیں گے۔ سول اداروں نے بھی تین تین نام ارسال کر دیے تھے۔ اس حوالے سے ''افواہ‘‘ یہ تھی کہ انہیں مزید دو، دو نام ارسال کرنے کے لئے کہا گیا ہے اور ان میں ایک، ایک نام تجویز بھی کر دیا گیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو صاف شفاف تحقیقات کے لیے ''ہیروں‘‘ کی تلاش تھی۔ جناب جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 20 اپریل کے اکثریتی فیصلے والے تین ججوں پر مشتمل بنچ نے اب عملدرآمد کے مراحل کو آگے بڑھانا تھا۔ سٹیٹ بینک اور سکیورٹی ایکسچینج کمشن آف پاکستان کے نام مسترد کرتے ہوئے، فاضل بنچ کا، ان دونوں اداروں کے سربراہوں کو حکم تھا کہ گریڈ 18 اور اس سے اوپر کے افسروں کی فہرست کے ساتھ عدالت میں خود پیش ہوں۔ ان میں سے ایک، ایک نام خود فاضل جج صاحبان منتخب کریں گے۔ انہوں نے یہاں یہ ریمارکس بھی ضروری سمجھے، ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلا جائے۔
جمعہ 5 مئی گزشتہ ہفتے کی عدالتی کارروائی کا آخری دن تھا۔ فاضل بنچ نے اٹھنے سے پہلے جے آئی ٹی کے چھ ناموں کا اعلان کر دیا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیاء کی قیادت میںجے آئی ٹی کے سبھی ارکان اپنے اپنے شعبوں میں امانت و دیانت اور قابلیت و صلاحیت کی اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ ان میں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے بلال رسول بھی ہیں۔ میڈیا نے ان کے تعارف میں دیگر کوالیفکیشن کے ساتھ میاں اظہر کے ساتھ تعلق کا ذکر بھی کیا (وہ میاں صاحب کے بھانجے ہیں)۔ وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ میاں اظہر کا برسوں کا یارانہ کیسے ٹوٹا؟ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد میاں اظہر کی جنرل مشرف سے قربت، پھر ان کی قیادت میں قاف لیگ کا قیام اور اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں ان کی شکست کے بعد قاف لیگ کی قیادت کی چودھری برادران کو منتقلی، ایک الگ کہانی ہے، دلچسپی اور الم ناک کہانی... ان دنوں سیاسی گوشہ نشین میاں اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔
سوموار (8 مئی) سے آغاز کرنے والی جے آئی ٹی کو (20 اپریل کے فیصلے کے مطابق) 60 دنوں میں اپنا کام مکمل کرنا ہے۔ اس میں دو ہفتہ وار چھٹیاں شامل نہیں۔ سات دنوں میں قائم ہونے والی جے آئی ٹی اپنے قیام کے لیے پندرہ دن لے گئی، تو کیا وہ سپریم کورٹ کے تیار کردہ 13 سوالات پر مشتمل لمبے چوڑے ''امتحانی پرچے‘‘ کو 60 روز میں حل کر لے گی؟ جے آئی ٹی ہر پندرہ روز بعد اپنی کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرنے کی پابند ہو گی۔ پراگریس اطمینان بخش قرار پائی، تو سپریم کورٹ 60 روز کی مدت میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ موصول ہونے کے بعد کیا جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں یہی بنچ عدالتی کارروائی کو آگے بڑھائے گا؟ اس رپورٹ کی حیثیت تفتیشی رپورٹ سے زیادہ کیا ہو گی؟ جس کے بعد مقدمے کی کارروائی عدالتی قواعد و ضوابط کے مطابق آگے بڑھے گی تو اس کے لیے مجاز عدالت کون سی ہو گی؟
عدالت ایک عرصے سے Restraint کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ وہ دھیمے لہجے میں توجہ دلاتی رہی لیکن ''مردانِ ناداں‘‘ پر کلام نرم و نازک بے اثر رہا۔ پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ایک عدالت، سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 2 میں لگتی تو دوسری ''عدالت‘‘ باہر ٹی وی کیمروں کے سامنے، پھر شام کو ٹی وی چینلز پر شروع ہونے والا میڈیا ٹرائل کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا۔ عدالت میں زیرِ سماعت (Subjudice) معاملے کو عدالت کے باہر زیرِ بحث نہ لانے کی روایت قصّہء پارینہ بن گئی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے ایک سے زائد بار اس پر اظہار ناپسندیدگی کیا۔ ایک جج صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ مقدمے کی سماعت جاری ہے، لیکن گزشتہ شب ایک ٹی وی چینل نے تو فیصلہ بھی سنا دیا۔ عدالت عظمیٰ کے اظہار ناپسندیدگی کے باوجود جوڈیشل ٹرائل کے پہلو بہ پہلو میڈیا ٹرائل کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس کے بعد 20 اپریل کے فیصلے کی من مانی تشریح کا سلسلہ تھا۔ بنی گالہ میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے پٹیشن کی سماعت کے موقع پر جناب چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کیا، دنیا بھر میں عدالتی فیصلوں میں اختلافی نوٹ آتے ہیں، لیکن کہیں بھی انہیں اس طرح نہیں اچھالا جاتا جس طرح یہاں اچھالا جا رہا ہے۔ بدھ تین مئی کو عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے حنیف عباسی کی پٹیشن کی سماعت کے آغاز ہوا تو چیف جسٹس کو ''عدالت سے باہر عدالت‘‘ کی ناپسندیدہ روش کا سختی سے نوٹس لینا پڑا، جس پر خواجہ سعد رفیق کا تبصرہ تھا، کاش! پاناما کیس کی سماعت کے دوران بھی یہ نوٹس لیا جاتا۔
عالی مرتبت چیف جسٹس کے بعد جناب جسٹس اعجاز افضل نے بھی اس کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ پاناما کیس جے آئی ٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، 20 اپریل کے فیصلے میں، میں نے، نہ میرے دو رفقا نے وزیر اعظم کوجھوٹا قراردیا لیکن ''ایک سیاسی لیڈر‘‘ ہمارے فیصلے کی غلط تشریح کر رہا ہے۔ فاضل جسٹس نے صاف صاف الفاظ میں کہا کہ وہ لیڈر جھوٹ بول رہا ہے اور لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ عوام کی قیادت کے دعویدار لیڈر گری ہوئی باتیں نہ کریں۔ ہم وارننگ دے رہے ہیں کہ ججوں سے کوئی غلط بات آئندہ منسوب کی گئی تو ہم ایسا کرنے والے کو کٹہرے میں لائیں گے۔
می لارڈ! بہت اچھا ہوا کہ دیر سے ہی سہی آپ نے اس صورت حال کا نوٹس تو لیا۔ اگرچہ 20 اپریل کے بعد اس لیڈر نے مسلسل یہ گمراہ کن مہم چلائی، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، خود آپ کے الفاظ میں اس نے جھوٹ بولا اور لوگوں کو گمراہ کیا۔ (اللہ جانے، آرٹیکل 62/63 کے تحت یہ فِٹ کیس ہے کہ نہیں؟)
جناب جسٹس اعجاز افضل کا یہ حکم، گمراہ کن پراپیگنڈے کے شکار وزیر اعظم نواز شریف ( اوران کی فیملی) کے لیے ہوا کا ٹھنڈا جھونکا تھا۔ یہ جمعہ ان کے لیے اس لحاظ سے بھی مبارک رہا کہ پاکستان بار کونسل نے ان کے استعفے کے لیے کسی مہم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔