2018ء میں شیر آئے گا اور بند آنکھوں
والے کبوتر کو اٹھا لے جائے گا: نواز شریف
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''2018‘‘ میں شیر آئے گا اور بند آنکھوں والے کبوتر کو اٹھا لے جائے گا اور کھلی آنکھوں والے کبوتر کو کچھ نہیں ملے گا، کیا پتہ کم بخت آنکھوں میں پنجہ ہی ماردے، اس کے لیے اسے پیغام رسانی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ مودی صاحب کے ساتھ رابطہ رہے کیونکہ فون کالز تو ایجنسیوں والے بگ کرلیتے ہیں اور خفیہ ملاقات کا بھی کھوج لگا لیتے ہیں جیسا کہ برادرم جندال والے معاملے میں ہوا کہ چھوٹی سی ملاقات پر اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے، آخر یہ ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پچھلے ادوار میں قوم کی دولت لوگوں کی جیبوں میں گئی‘‘ جبکہ ہم نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا کیونکہ جیب تراشی بھی ہوسکتی ہے چنانچہ باہر جا کر اسے ٹھکانے لگانا زیادہ مستحسن ہے، اگرچہ جاسوس اور چغل خور عناصر اس کا بھی کھوج لگا لیتے ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دور میں ہر روز نیا سکینڈل سامنے آتا تھا، لیکن اب ایک دن چھوڑ کر سامنے آتا ہے اوراس کا مطلب یہ ہوا کہ پچاس فیصد تک سکینڈلز میں کمی آ چکی ہے، قوم کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب منفی سیاست ختم ہو جانی چاہیے۔ کیونکہ پانامہ کیس کا فیصلہ بھی آنے والا ہے اور منفی سیاست کا کیس پر پہلے ہی کافی برا اثر پڑ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم اندھیروں کے خاتمے کے لیے آئے ہیں‘‘ اگرچہ اندھیروں میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس لیے بھی ہمارا اقتدار میں رہنا ضروری ہے تاکہ ان کا خاتمہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہت سنجیدگی کے ساتھ تمام منصوبوں پر کام کر رہے ہیں؛ چنانچہ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ منصوبے میں خدمت کی اوسط کتنی ہے اور ماشاء اللہ ہم خدمت ہی کو اولیت دے رہے ہیں جو کہ ہماری ترجیحات ہے اول میں سے ایک ہے اور اندر اور باہر اس خدمت ہی کی لہر پر نظر آ رہی ہے۔ آپ اگلے روز مظفرآباد میں خطاب کر رہے تھے۔
بھارت کے مواصلاتی نظام سے پڑوسی
ممالک بھی فائدہ اٹھائیں گے: مودی
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ''بھارت کے مواصلاتی نظام سے پڑوسی ممالک بھی فائدہ اٹھائیں گے جن میں پاکستان بھی شامل ہے کیونکہ ہم وہاں اپنے ہم منصب کے ساتھ کھل کر بات ہی نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہاں ان کے کارخانوں اور دیگر اثاثوں کے بارے میں تسلی سے کوئی رپورٹ دے سکتے ہیں جو کہ باہمی قریبی تعلقات کے لیے بہت ضروری ہے اور جس کے لیے جندال جیسے حضرات کو وہاں جانے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اگرچہ بظاہر ہمارا احسان اٹھانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم خود اپنا نظام تیار کر رہے ہیں، جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جو ہمارے ہاں ہے وہ پاکستان کا ہے اور جو کچھ پاکستان میں ہے وہ ہمارا ہے، کم از کم ہم دونوں وزرائے اعظم کا خیال یہی ہے، بیشک ہمارے محترم ہم منصب سے پوچھ لیا جائے۔ آپ اگلے روز نئی دہلی میں سیٹلائٹ خلا میں چھوڑنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شیراور بلبلہ
آپ ہی کے اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے پیراڈائز وائلڈ لائف پارک کی طرف سے جاری کی گئی فیس بک ویڈیو کے مطابق ایک شیر بلبلے کے پھٹنے پر ڈر کر پیچھے ہٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس ویڈیو کو اب تک 33 ہزار مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں اور اسے اپنے محبوب وزیراعظم کے خلاف ایک سازش سمجھتے ہیں تاکہ ان کے شیر ہونے کو مشکوک قراردیا جائے جبکہ ہمارا شیر اگر بند آنکھوں والے کبوتر کو اُٹھا سکتا ہے تو ایک بلبلے سے کیسے ڈر کر پیچھے ہٹ سکتا ہے بلکہ اسے تو بلبلے کو دیکھ کر آگے بڑھنا چاہے اورکبوتر کی طرح اس کو بھی الٹا لینا چاہیے۔ ادھر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اس شیر کو کاغذی قرار دیا ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے کیونکہ شیر اگر کاغذی ہو تو وہ بند آنکھوں والے کبوتر کو کیسے اٹھا سکتا ہے، چنانچہ اپوزیشن کو ایسی بے پرکی اڑانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اور، اب حسب وعدہ اس ہفتے کی تازہ غزل:
کس جنگل میں کھوئے
اوئے ہوئے ہوئے
ہنسے آٹھ آٹھ آنسو
کھلکھلا کے ہم روئے
کاٹ رہے ہیں اب تک
ہم اوروں کے بوئے
کچھ پتا نہیں چلتا
کب جاگے، کب سوئے
بادل تو نہیں برسا
چھت کا ہے کو چوئے
نکلے گھر سے کام کو
باہر آن کھلوئے
سانپ ہیں اپنے نقلی
اور، اصلی ہیں گڈوئے
پہنے کپڑے میلے
صاف جوتھے وہ دھوئے
لاعلاج ہیں دونوں
کیا مُکرے، کیا موئے
آج کا مطلع
ایک بیوی ہے‘ چار بچے ہیں
عشق جھوٹا ہے‘ لوگ سچے ہیں