تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     08-05-2017

کسک

وہ دونوں دیکھنے میں بھائی لگتے تھے۔ ایک جیسا قد و قامت ‘ ایک جیسے نین نقش۔ سورج قیامت برسا رہا تھا لیکن وہ بے نیاز دکھائی دیتے تھے حتیٰ کہ انہوں نے چپل تک نہیں پہنی ہوئی تھی۔ ایک بھائی کے ہاتھ میں پانی کی بڑی بوتل تھی۔وہ سنگ مر مر کی ٹائلوں پر پانی ڈالتا اور دوسرا بھائی کپڑے سے رگڑ رگڑ کر سفید ٹائلوں کو صاف کرنے لگتا۔ وقفے وقفے سے دونوں بھائی ٹائلوں پر ہاتھ پھیر کر دیکھتے کہ صفائی ٹھیک ہو رہی ہے یا نہیں۔ تسلی نہ ہوئی تو ایک بھائی جا کر سرف کا پیکٹ لے آیا اور دونوں مل کر سرف کی جھاگ سے ٹائلوں کو چمکانے لگے۔ پانچ دس منٹ تک وہ یونہی کرتے رہے۔ پھر یکا یک ان میں سے ایک بھائی ٹائلوں کو بے اختیار چومنے لگا اور ٹائلوں پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ دوسرا بھائی اسے دلاسا دیتے دیتے فرط جذبات سے خود پر بھی قابو نہ رکھ سکا اور دونوں ایک دوسرے کو سنبھالتے ہوئے قبرستان سے باہر کی طرف چل پڑے۔
میں ان دونوں بھائیوں سے چند فٹ کے فاصلے پر اپنی والدہ کی آخری آرام گاہ کے سرہانے کھڑا تھا۔ دو برس قبل آٹھ مئی کو آج ہی کے دن انہیں لحد میں اتارا تھا‘ اس کے بعد سے اب تک اس سوچ میں گم ہوں کہ کتنا بڑا سانحہ ہو گیا اور میں اسے کس طرح برداشت کر گیا۔ ان کی زندگی میں ان کی جدائی کا خیال بھی آتا تو آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتیں لیکن وہ میرے سامنے رخصت ہو گئیں اور میں دیکھتا رہ گیا۔ قدرت کا اپنا نظام ہے۔ اس نے ہر انسان پر اتنا ہی بوجھ ڈالا ہے جتنا وہ اٹھا سکتا ہے۔ کسی انسان کو جب آزمانا ہو تو خدا اس کو ذہنی طور پر تیار بھی کر دیتا ہے۔ اس کے دل میں ایسے خیالات ڈال دیتا ہے کہ وہ پیشگی طور پر کسی مشکل کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ والدہ سے قبل بہت سے رشتہ داروں اور دوستوں کو رخصت ہوتے دیکھا۔ اس کے باوجود دل میں ایسے خیالات کو کون جگہ دے سکتا ہے جو کسی عزیز ترین انسان کی جدائی کے بارے میں ہوں۔جب بھی ایسا خیال آتا تو جھٹک دیتا لیکن قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے اور کب تک؟
مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگ والدین کو نوکروں کے سہارے چھوڑ کر بیرون ملک کیسے جا بستے ہیں۔ مجھے یاد ہے آج سے سترہ برس قبل مجھے تعلیم کے لئے برطانیہ جانے کا شوق ہوا۔ میں ماسٹرز کر چکا تھا لیکن برطانیہ کے معیار کے مطابق یہ گریجوایشن کے برابر تھا چنانچہ لندن کی ایک یونیورسٹی میں ماسٹرز پروگرام کے لئے اپلائی کر دیا۔ برٹش کونسل میں داخلہ لیا تاکہ آئیلٹس ٹیسٹ کی تیاری کر سکوں۔ گنگا رام ہسپتال کے عقب میں واقعہ برٹش کونسل کی پرشکوہ عمارت اس وقت عوام کے لئے کھلی تھی۔ نہ اس کی اس قدر بلند فصیلیں تھیں نہ ہی اندر جانا ممنوع تھا۔ نائن الیون کے بعد حملوں کے خوف سے اسے کئی سال کیلئے بند کر دیا گیا ۔ یہاں تین ماہ تیاری کی۔ برطانوی یونیورسٹی کا آفر لیٹر جب ہاتھ میں آیا تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔اگلا مرحلہ ویزہ کے حصول کا تھا۔ اسلام آباد پہنچ کر اگلی صبح پاسپورٹ اٹھایا اور برطانوی سفارت خانے پہنچ گیا۔ دیکھا تو کوئی ڈیڑھ میل لمبی قطار لگی تھی۔ یہ قطار بھارتی سفارت خانے کے باہر سے شروع ہورہی تھی اور برطانوی سفارت خانے کے پیچھے موجود پہاڑی پر بل کھاتی ہوئی اوپرجا پہنچتی تھی۔ قطار میں لگنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا کہ جیسے ہی دو سو انٹرویوز کے لئے لوگ اندر گئے تو مزید داخلہ بند کر دیا گیا۔اگلی صبح فیصلہ کیا کہ علی الصباح پہنچ جائوں گا۔ اگلی صبح بھی وہی معاملہ ہوا۔ کسی نے مشورہ دیا اگر انٹرویو کے لئے اندر جانا ہے تو دو راستے ہیں‘ رات کو آ کر ڈیرہ لگا لیں یا پھر اس مقصد کے لئے کسی کو پیسے دے کر یہ سروس حاصل کر لیں۔ ایسے لوگ ساری رات قطار میں لگتے اور اگلی صبح متعلقہ امیدوار آ کر ان کی جگہ لائن میں لگ جاتا اور یوں وہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا۔ یہ فارمولہ چل گیا۔ انٹرویو کے پانچ منٹ کے اندر ویزہ مل گیا لیکن جیسے ہی ویزہ لگنے کے بعد پاسپورٹ ہاتھ میں آیا تو ساری خوشی ہوا ہو گئی اور دل بجھ گیا۔ بس ایک ہی خیال دل میں آ رہا تھا کہ والدہ سے دور کیسے رہ پائوں گا اور خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو پھر...برطانیہ سے پاکستان کا سفر آٹھ گھنٹے کا ہے لیکن ٹکٹ بک کرواتے اور دیگر معاملات سمیٹتے بہت سا وقت لگ جاتا ہے۔
میرا دل بہت چھوٹا نکلا۔ میں واپس لوٹا ‘پاسپورٹ الماری میں پھینکا اور والدہ کے پائوں دبانے لگ گیا۔ 
یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ کچھ بچوں کے دل ماں باپ کے لئے سخت اور کچھ کے بہت نرم کیوں ہوتے ہیں۔ خاص طور پر سب سے چھوٹا بچہ والدین کا لاڈلا ہوتا ہے۔ بڑے بچے اکثر گھروں میں چھوٹے بچوں سے حسد کر تے ہیں کہ والدین چھوٹے سے زیادہ پیار کیوں کرتے ہیں۔ بڑے بچے شاید یہ نہیں جانتے کہ والدین چھوٹے سے زیادہ پیار اس لئے کرتے ہیں کہ یہی چھوٹا بچہ اس وقت سب سے زیادہ کرب اور جدائی محسوس کرے گا جب اُن کا سایہ اس پر نہ رہے گا اور یہی چھوٹا بچہ جہاں بھی جائے گا ‘یادوں کے نشتر اسے تمام عمر دیگر بچوں سے زیادہ تڑپاتے رہیں گے۔وہ یونہی گھائل ہوتا رہے گا اور ماں باپ کو یاد کرنے اور چند آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گا۔
چند روز بعد مائوں کا عالمی دن ہے۔ یہ دن ہربرس مئی کی دوسری اتوار کو منایا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہمارے بڑے بھائی اداکار سہیل احمد کی بھابھی اور گوجرانوالہ ''دنیا‘‘کے ایڈیٹر ڈاکٹر جاوید اکرم کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو احساس ہو رہا ہے ڈاکٹر صاحب کے بچے مائوں کے عالمی دن پر کس کرب سے گزریں گے۔ اتوار کو تو سکولوں میں چھٹی ہوتی ہے اس لئے جمعہ کے روز ہی سکولوں میں اس حوالے سے دن منانے کے لئے چھوٹی موٹی تقریب منعقد ہوتی ہے اور ماں کو یاد کیا جاتا ہے۔ میری والدہ کا انتقال جمعہ کے روز ہوا۔ ایک روز بعد مائوں کا عالمی دن تھا لیکن یہ دن جمعہ کو ہی منایا گیا۔ اس دن سکولوں میں تقریبات جاری تھیں۔میرے بیٹے نے پورے سکول کے سامنے نظم پیاری ماں مجھ کو تیری دُعا چاہیے پڑھی تو حاضرین میں موجود کئی چھوٹے بچے بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے ۔ سب کو اپنی اپنی ماں یاد آ گئی۔ شام کو یہ نظم دوستوں کے ساتھ ساتھ سہیل احمد صاحب کو بھی واٹس ایپ کر دی۔ انہوں نے کہا وہ اسے حسب حال میں چلائیں گے۔ قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ جمعہ کی شب میری والدہ پردہ فرما گئیں اور اگلے روز سہیل احمد حسب حال میں میری والدہ کے انتقال پر اظہار افسوس کر رہے تھے۔
ہم بھی بڑے بدقسمت لوگ ہیں۔ زندگی میں جنہیں پانی کا ایک گلاس دیتے ہماری جان جاتی ہے ‘ جو ہمارے سامنے روزانہ بوسیدہ اور ٹوٹے پھوٹے پلنگ پر سوتے ہیں اور جن کی چارپائی کی چادر ہم کئی کئی روز بدلنے یا جھاڑنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے ‘ ان کے جانے کے بعد ہم ان کی آخری آرام گاہ پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں ‘ اسے قیمتی سنگ مرمر سے آراستہ کرتے ہیں‘ اس پر پھولوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں‘عرق گلاب کا لیپ کرتے ہیں‘ اگر بتیوں سے فضا کو مہکاتے ہیں‘اس کے کنارے چھائوں کی خاطر پودا لگاتے ہیں‘ اسے باقاعدگی سے پانی دیتے ہیں‘ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں‘ پانی سے بھرا کٹورا قریب رکھ دیتے ہیں کہ پرندے پیاس بجھا سکیں‘آس پاس پڑے کاغذ ‘تنکے اور سوکھے پھول چن کر جگہ کو صاف کرنے لگتے ہیں کہ ماں کو صفائی بہت پسند تھی لیکن اسی انسان‘ جی ہاں اسی شخص‘ اسی ماں اور اسی باپ کی زندگی میں اس کی اس طرح خدمت کرنے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا اور خدمت کرنا تو درکنار‘ ہم انہیں جھڑکتے اور ٹوکتے ہیں اور اس پر ملال بھی محسوس نہیں کرتے۔ ان کی زندگی میں ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ دنیا کی قیمتی ترین متاع ہمارے پاس موجود ہے اور ان کے جانے کے بعد یہ خیال ہمیں تڑپانے لگتا ہے کہ اگر ماں باپ زندہ ہو کر دوبارہ سے مل جائیں تو باقی ساری زندگی ان کے قدموں میں گزار دیں گے۔ وہ سب جو ہم ان کے بعد کرتے ہیں‘ ان کی زندگی میں کریں تو انہیں کچھ فائدہ پہنچ جائے ‘ ہماری بھی دنیا اور آخرت سنور جائے اور ہمارے دل میں کوئی کسک بھی باقی نہ رہے لیکن نہ جانے کیوں ایسی باتیں والدین کے بعد ہی سمجھ آتی ہیں اور تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved