تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-05-2017

تحقیق کی دنیا

میرے مطالعے میں سے کچھ اہم نوٹس قارئین کی نذر۔ 
سٹیم سیل نئے پیدا ہونے والے بچّے کے جسم کے وہ خلیات ہوتے ہیں ، جو مختلف اعضا کی صورت اختیار کر سکتے ہیں ۔ سائنسدان حادثات میں ضائع ہو جانے والے اعضا کو دوبارہ تخلیق کرنے کے لیے ایک طویل عرصے سے ان پر تحقیق کر رہے ہیں ۔ اب سٹیم سیل سے اعضا بنانے کی طرف ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے ۔پہلی دفعہ جلد اور بال بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اس سے پیوند کاری کے لیے اصل اعضا لیب میں بنانے کی طرف پیش رفت ہوئی ہے ۔ان اعضا کو جسم مسترد نہیں کرے گا کہ وہ اپنے جسم کے خام مال ہی سے تیار ہوں گے ۔اگر کسی دوسرے شخص سے گردہ، جگر یا اہم اعضا عطیہ لے کر نصب کیے جائیں تو جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام انہیں مسترد کر دیتاہے ۔ 
مردوں میں دماغ کا وزن اوسطاً 1345گرام ہے ، یعنی 1.3کلو۔ عورتوں میں یہ 1.2کلو ہے۔ انسانی جسم میںخون کی روانی سیمو لیشن کر لی گئی ہے ۔ ایک کمپیوٹر ماڈل تیار ہو چکا ہے ، جو کہ ہمارے جسم میں خون کی روانی دکھاتا ہے ۔ 
ماری کہکشاں میں 400ارب ستارے ہیں ۔ ہم ایگل نیبیولا کا حصہ ہیں ۔ایگل نیبیو لا ان اربوں جگہوں میں سے ایک ہے، جہاں ستارے پیدا ہوتے ہیں ۔ 
کہا جاتاہے کہ کیمبرین دھماکہ ڈارون کے نظریہ ء ارتقا سے ایک حد تک متصادم ہے ۔ کیمبرین دھماکہ (cambrian explosion) 54کروڑ سال پہلے کا وہ دور ہے ، جب جانداروں کی رفتار میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا تھا ۔ یہ 2کروڑ سال پہ محیط زمانہ تھا۔ زیادہ تر پیچیدہ جاندار اسی دور میں منظرِ عام پر آئے ۔ 1859ء میں خود ڈارون نے بھی یہی کہا کہ نظریہ ء ارتقا کے خلاف جو بڑے اعتراضات پیش کیے جا سکتے ہیں ، کیمبرین دھماکہ ان میں سے ایک ہے ۔ سورج کا درجہ ء حرارت 15ملین ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ 
پیدائش کے وقت انسانی بچے کا دماغ جسم کا ایک چوتھائی ہوتاہے لیکن جب انسان جوان ہوتا ہے تو جسم اور دماغ کا تناسب ساڑھے سات اور ایک کا ہوتاہے ۔ دماغ پہلے دو سال میں انتہائی تیزی سے بڑھتا ہے ۔ اور یہ ان دو سالوں میں اپنے کل حجم کا 75-80فیصد تک ہو جاتاہے ۔ پیدائش کے وقت انسانی بچے کے دماغ میں نیورونز بہت فاصلے پر ہوتے ہیں لیکن فوراً ہی یہ آپس میں کنکشن بنانے لگتے ہیں ۔ 
جسم کے باقی خلیات مرتے اور نئے پیدا ہوتے ہیں لیکن نرو سیلز یا نیورون مرتے تو ہیں ، نئے پیدا نہیں ہوتے ۔ پیدائش کے وقت وہ کل سو ارب ہوتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ آپس میں کنکشن بنانے لگتے ہیں اور نئے نئے پیٹرن بناتے ہیں ، جب انسان سیکھ رہا ہوتاہے ؛لہٰذا یہ کہا جا سکتاہے کہ انسان کا دماغ مسلسل تبدیل ہو رہا ہوتا ہے ۔ اور جب انسان کچھ سیکھتا ہے تو جسم تو وہی رہتاہے ۔دماغ میں تبدیلی آتی ہے ۔ 
جسم کے باقی اعضا کی طرح، دماغ بھی ایک فرٹیلائزڈ انڈے سے ہی پیدا ہوتاہے ۔ یہ ایک واحد خلیہ ہوتاہے ۔ا سے آلات کے بغیر آنکھ سے بمشکل دیکھا جا سکتاہے ۔ یہ بار آوری کے تیس گھنٹے کے بعد دو خلیات میں بدلتاہے ۔ اور یہ سلسلہ شروع ہو جاتاہے ۔ دو سے چار ، چا ر سے آٹھ ۔ بار آوری کے آٹھویں دن ، خلیات کا یہ ڈھیر خود کو بچہ دانی کی دیوار سے جوڑ لیتا ہے ۔ اب ہر مختلف قسم کے خلیات بنیں گے ۔ کسی نے بازو بنانا ہے اور کسی نے ناخن۔ اور کسی نے دماغ۔ لیکن ہر خلیہ نہ صرف یہ کہ اسے معلوم ہے کہ کس عضو میں ڈھلنا ہے بلکہ اس خاص عضو کی کس جگہ پر اسے فٹ ہونا ہے ، یہ طے ہے ۔ سب سے پہلے ایک ننھا سا سینٹرل نروس سٹم بنتاہے ، جسے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں بدلنا ہوتاہے ۔ اور اس کے گرد پھر باقی جسم بنتاہے ۔
دما غ کے خلیات کو نرو سیل کہا جاتاہے ۔ یہ وہ یونٹ ہیں جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے اور انسان کے علم میں اضافہ کرتے ہیں ۔ یہی چیز زندہ چیزوں کو غیر جاندار چیزوں سے جدا کرتی ہے ۔ اس کا سب سے شاندار مظاہرہ انسانی دماغ میں ہوتاہے ۔ نیورونز کی ورکنگ سمجھانے کے لیے سائنسدان انہیں سوئچ بورڈ یا کمپیوٹرز سے مشابہت دیتے رہے ہیں ۔ دماغ میں کل دو قسم کے خلیات ہوتے ہیں ۔ ایک نیورون اور دوسرے نان نیورونل۔ نیوران وہ خلیات ہیں ، جو کہ سگنل بھیجتے اور وصول کرتے ہیں (اور محفوظ بھی؟) اور جبکہ باقی تمام خلیات نیورون کے کام کو سپورٹ کرتے ہیں ۔یہ دوسری تمام اقسام کے خلیات نان ایکسائٹ ایبل ہیں ۔ ان تمام کومجموعی طور پر neurogliaیا nerve glue کہا جاتاہے ۔ 
نیورونز کا بنیادی کا م کمیونیکیشن ہے ۔ یعنی کہ معلومات کا بھیجنا اور موصول کرنا ۔ ہر نیورون کے دوسرے نیورانز سے سینکڑوں سے ہزاروں تک کنکشن ہوتے ہیں ۔ سیری برم میں کچھ نیورانز اس سے بھی انتہائی زیادہ لنکس رکھتے ہیں ۔ دماغ کے سو بلین سے زیادہ خلیات اکھٹے کام کرتے ہیں ، ان کے ریلیشن شپ مسلسل تبدیل ہورہے ہوتے ہیں ۔ اسی سے وہ مشین بنتی ہے ، جس نے ہمیں اس سیارے پر اس قدر کامیاب بنا ڈالا ہے ۔ 
سیریبرم پہ ایک سلیٹی رنگ کے مادے کی تہہ موجود ہے ۔ اسے سیریبرل کارٹیکس کہتے ہیں ۔ اس میں بلینز نیورانز موجود ہیں ۔اسے ذہانت کے ساتھ نتھی کیا جاتاہے۔ 
کتا اور بلی ہم سے بہتر کیوں سونگھ سکتے ہیں ؟ جانوروں کی ایسی ہر خصوصیت کے پیچھے ان کے دماغ کے کسی خاص حصے کا بڑا یا مخصوص ساخت کاہونا ہے ۔ انسانوں کی خاص بات ان کی سیریبرل کارٹیکس ہے ۔ جسم کے سائز کے حساب سے انسانوں میں سیریبرل کارٹیکس اتنی بڑی ہے ۔ یہ ایک چوتھائی انچ موٹی سلیٹی رنگ کے مادے کی تہہ یا چھلکا ہے ۔ انسانوں میں یہ تہہ در تہہ ہے ۔چھوٹی کھوپڑی میں زیادہ ہے ۔ کتے اور بلیوں میں یہ نسبتاً سیدھی اورسادہ ہے ۔ کم ہے ۔ زیادہ تر سائنسدانوں کا خیال یہ ہے کہ انسانی دماغ کی اعلیٰ صلاحیتیں سیری برل کارٹیکس سے منسلک ہیں ۔ بولنے لکھنے، سوچنے، مشاہدہ کرنے ، تجزیہ ، منصوبہ بندی اور مستقبل کا اندازہ لگانے میں ۔ 
گرے میٹر کے نیچے اور تھرو آوٹ نروس سسٹم وائٹ میٹر موجود ہے ۔وائٹ رنگ آتاہے myelin sheathsسے جو کہ ایکس آف یورانز سے جڑی ہوئی ہیں ۔ گرے اور وائٹ میٹر کے علاوہ ، دماغ میں ارو بھی بہت سے ٹشوز مووجد ہیں ۔ مثلاً ریڈ میٹر جو کہ خون اور خون کی نالیوں پہ مشتمل ہے ۔ 
دماغ میں کسی ڈس آرڈر کا پتہ چلانے کے لیے ct اور mriاور eegسے بڑھ کر اگر دماغ کو کام کرتے ہوئے دیکھنا ہو تو petاہم ہے ۔ positron emission tomography۔ اس میں ریڈیو ایکٹو ایٹمز مریض کے خون میں داخل کر دیے جاتے ہین اور پھر انہیں دماغ سے گزرتے ہوئے دیکھا جاتاہے ۔ اس سے پھر کمپیوٹر پر تصاویر بنا ئی جاتی ہیں ۔ اس سے دماغ کے میٹابولزم، الیکٹرو کیمیکل پراسیسز اوربلڈ فلو کا معلوم ہو جاتا ہے ۔ 
بیس سال کی عمر سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں نیورونز مرنے لگتے ہیں، دوبارہ نہ پیدا ہونے کے لیے ۔ لیکن چونکہ ہم سو بلین سیلز کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور روزانہ اگر پانچ ہزار بھی مرتے رہیں تو 90برس کی عمر تک بمشکل 12,13کروڑ خلیات ہی مر پائیں گے ۔سالانہ ایک اونس کا تیسواں حصہ دماغ کم ہوتاہے یعنی تیس سال میں ایک اونس۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved