تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     09-05-2017

تذکرہ تین کتابوں کا …(قسط دوئم)

پہلی کتاب نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی نے اس سال کے شروع میں شائع کی اور دُھوم اسکی دُنیا بھر میں مچی۔ ماسوائے بھارت اور پاکستان کے۔ ان دونوں ملکوں کو ایک نام نہاد جاسوس (کل بھوشن) کے تنازعہ سے فرصت ملے تو وُہ عالمی شہرت کی اچھی کتابوں کی طرف توجہ دیں۔ وُہی اہل امریکہ جنہوں نے ٹرمپ کو اپنا صدر چنا تو چار دانگ عالم میں امریکہ کی جگ ہنسائی ہوئی۔ مگر جب وُہی لوگ کتابیں خریدتے ہیں۔ تو (یقین جانیئے) مولانا روم کی مثنوی کا ترجمہ سب سے زیادہ۔ ہے ناکمال کی بات؟ میں اب آپ کا جس کتاب سے تعارف کرانے لگا ہوں وہ مجھے دن کو بھی سُلاتی رہی۔ اتنی ثقیل ہے اور ذہن پر اتنا زیادہ بوجھ ڈالتی ہے کہ ذہن بے چارہ تھک کر سو جاتاہے۔ میرے جو قارئین بدخوابی کے مریض ہوں اُنہیں یہ کتاب بطور دوائی کے خریدنی چاہئے۔ وہ دیکھیں گے کہ یہ کتنی موثر ( خواب آور) ثابت ہوتی ہے؟ 287 صفحات کی مقابلتاً مختصر کتاب Walter Hakals نے لکھی اورنام غیر معمولی طور پر طویل پسند فرمایا: Negotiating Language: Urdu, Hindi and The Definitions of Modern South Asia ہمارے ہاں ڈاکٹر طارق رحمان جیسے عالم فاضل ماہرلِسانیات ہیں۔ اُنہیں یہ کتاب پڑھ کر ہمیں اس کا مفہوم سمجھانا چاہئے۔ کالم نگار کی رائے میں فاضل مصنف نے قومی شعور کے ارتقاء میں زبان کی نشوونما کے کردار کو (اُردو اور ہندی کے حوالہ سے) مثالیں دے کر واضح کیا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ فرانسیسی اور جرمن زبان کی لغات کی تیاری میں کئی عشرے لگ گئے مگر سیموئیل جانسن نے بہت کم (مقابلتاً صرف دس فیصد ) وقت صرف کر کے انگریزی کی پہلی لغات تیار کرلی۔ اُردو کی پہلی لُغت کی تیاری میں John Gilchrist (جو شروع میں ڈاکٹر تھے) کے دستِ راست عبدالواسع ہانسوی تھے۔ ان کے بعد یہ کتاب ہمیں میرزا جان تپش (دہلی کے رہنے والے جو بنگال جا کر کام کرنے لگے) سے متعارف کراتی ہے جنہوں نے ایک کلاسیکی کتاب شام البیان لکھی۔ پھر ذکر آتا ہے۔ سید احمد دہلوی (1846-1918 ) کا جنہوں نے فرہنگ آصفیہ کے نام سے اُردو لغات مرتب کرنے کا زبردست کارنامہ سرانجام دیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ سید احمد صاحب کا ایک معاون کشمیری تھا۔ (یعنی کشمیر سے آبائی تعلق رکھتا تھا) بدقسمتی سے اُس نے اپنے سرپرست کی کثیر رقم چرُالی۔ رقم تو واپس نہ ملی مگر سیّد صاحب نے اپنی لُغت میں لفظ کشمیری کی بڑی کھردری اور دل دکھانے والی تشریح لکھ کر اپنا غصہ اُتارا۔ ہم سب کے لئے یہ مقام عبرت ہے۔ اگر پیسے چرانے ضروری ہو جائیں تو ہمیں یہ پہلے تسلی کر لینی چاہئے کہ رقم کا مالک کوئی لغت تو ترتیب نہیں دے رہا اور اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا وہ ہمارے حسب و نسب اور حدود اربعہ سے واقف تو نہیں؟ سید احمد دہلوی کی طرح منشی چراغ نے بھی (انیسویں صدی کے آخر میں) انگریز ماہر لسانیاتS.W.Fallow سے کئی رُموز سیکھے۔ اُن کی تصنیف کا نام ہے۔ مخزن المحاورات (یعنی اُردو محاوروں کا ذخیرہ)۔ اُردو زبان کی تاریخ کے بارے میں اس کالم نگار کا علم بڑا سطحی اور واجبی ہے۔ ڈرتے ڈرتے لکھتا ہوں کہ انیسویں صدی میں میرزا ہادی رُسوا اور میرا من دہلوی جیسے کمال کے لوگ ہمارے ادبی اُفق پر اُبھرے۔ اس دور میں اُمرائو جان ادا (اُردو زبان کا پہلا ناول) اور باغ و بہار جیسی کلاسیکی کتابیں لکھی گئیں۔ اسی کام کو سرسیّد کے سارے دبستان اور رُفقا (خصوصاً الطاف حسین حالی )۔ ڈپٹی نذیر احمد (توبتہ النصوح اور مراۃٔ العروس کے لکھنے والے) عبدالحلیم شرر۔ سجاد حیدر یلدرم (قرۃ العین حیدر کے والد) مولانا شبلی ۔ مولاناسلیمان ندوی اور اُن کے ہم عصروں نے دو صدیوں کی کاوش کے بعد آواز دوست لکھنے والے مختار مسعود تک پہنچایا جو وسط اپریل میں ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مختارمسعود (مرحوم) جتنے اچھے انشاء پرداز تھے۔ اُس سے بڑھ کر اچھے خطیب و مقرر تھے۔ افسوس کہ اب نہ ہمارے کان اُن کی میٹھی آواز سنیں گے اور نہ ہماری آنکھیں ان کی نئی تحریریں پڑھ سکیں گی۔ اُردو ادب میں ان کی لکھی ہوئی کتاب کا وہی بلند مقام ہے جو لاہور کی عمارتوں میں (اُن کے بنائے ہوئے) مینار پاکستان کا۔ 
میرے قارئین یہ پڑھ کر خوش ہو جائیں گے کہ اگلی دونوں کتابوں کا موضوع پاکستان ہے۔ 595 صفحات کی کتاب سلطان رُوم نے لکھی۔ جو سوات کے ایک کالج میں پڑھاتے ہیں۔ مجھے ان کا نام اتنا اچھا لگا کہ جب میں اسلام آباد میں ہر دسمبر میں ہونے والی SDPI کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے جاتا ہوں تو تینوں دن ناشتہ اُن کی میز پر اُن کے ساتھ کرتا ہوں۔ اُن کی کتاب کا نام تو میں نے آپ کو ابھی تک بتایا ہی نہیں۔ وہ ہے: Land and Forest Governance in Swat ایک ذیلی عنوان بھی ہے۔Translation from Tribal Systems to State of Pakistan آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (برطانیہ) نے شائع کی اور اشاعت کا حق ادا کر دیا۔ 1961 ء میں ملکہ برطانیہ سوات گئیں تو اُنہوں نے اسے مشرق کا سوئٹزرلینڈ کہا اور بجا طور پر کہا۔ سوات کے پہاڑوں کو چار قسم کے درختوں کے گھنے جنگلات نے ڈھانپ رکھا تھا۔ اگلی نصف صدی میں ان درختوں کو جس بے دردی سے اور جس بڑے پیمانہ پر کاٹ دیا گیا اُس کی سخت سزا ہمیں 2010 کے طوفانی سیلاب کی صورت میں ملی۔ سولہویں صدی میں پختون قبائل نے سوات کی وادی کو آباد کیا۔ اُنہوں نے آپس میں زمین کے مالکانہ حقوق جس نظام کے تحت تقسیم کئے اُسے مقامی زبان میں Wech کہتے ہیں۔ یہ ایک دقیانوسی‘ فرسودہ اور رواجی نظام ہے جس کے تحت زمین کی ملکیت کسی کے پاس مستقل نہیں ہوتی۔ اس مستقبل تبادلہ کی وجہ سے کوئی شخص بھی نہ زمین کو بہتر بناتا ہے اور نہ اس کی اچھی طرح حفاظت کرتا ہے۔ جنگلات ہر گائوں کے کاشتکاروں کی مشترکہ ملکیت (شاملات) میں دے دیئے گئے۔ جب نہ کوئی والی اور نہ کوئی وارث ہو تو پھر ان بے چارے جنگلات کا جو برُا حشر ہونا تھا‘ وہ ہو کر رہا۔ 1849ء میں سوات کا معاشرہ بالکل قبائلی تھا۔ پنجاب پر برطانوی راج کا قبضہ ہوا تو سوات کے لوگوں نے خوفزدہ ہو کر جرگہ منعقد کیا اور اپنا ایک بادشاہ چن لیا۔ نصف صدی تک کوئی نہ کوئی خانہ جنگی جاری رہی۔ 1917 ء میں میاں گل عبدالودود سارے سوات پر اپنی حکمرانی قائم کرانے میں کامیاب رہے۔ اُنہوں نے دیو دار کے تمام درختوں کو سرکاری ملکیت میں لے لیا۔ مگر مقامی کاشتکاروں کو قیمت فروخت کا دس فی صد (بطور رائلٹی) دینے کی شرط قبول کرلی۔ 1925 ء میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کے ممکنہ جنگلات کا ایک بڑا افسر ملک اللہ یار خان سوات بلایا گیا۔ وہ یہاں کافی سال رہا اور اُس نے سوات کے جنگلات کی حفاظت کے لئے اپنی جان لڑا دی اور اتنی جانفشانی سے منصوبہ بندی کی کہ سلطان روم کی لکھی ہوئی کتاب کا ہیرو بن گیا۔ سوات جتنی معاشی ، انتظامی، سماجی اور سیاسی تبدیلیوں‘ آزمائشوںاور بحرانوں سے گزرا اُن سب کا نزلہ سوات کے جنگلات پر گرا۔ اقبال نے شکوہ کیا کہ بجلی گرے تو اُس کا نشانہ بے چارے مسلمان بنتے ہیں۔ سوات پر بجلی گری (اور وہ بھی ہر قسم کی) تو اُس نے وہاں کے جنگلات کا صفایا کر دیا۔2007 سے لے کر 2009 تک سوات پر طالبان کا قبضہ اُونٹ کی کمر توڑنے والا آخری تنکا ثابت ہوا۔ لینڈ مافیا‘ فوجی کارروائیوں‘توپوں اور ہوائی جہازوں سے بمباری ۔ ان سب نے مل کر رہی سہی کر نکال دی۔ آخر میں سُلطان روم نے ہمیں یہ اچھی خبر سنائی کہ Asian Development Bank کے تعاون اور راہنمائی سے سوات کے جنگلوں کی حفاظت اور شجر کاری کے لئے کمیشن بنا دیا گیاہے۔یہ کمیشن کام کیا کرتا ہے؟ اپنے نیک مقاصد کو کس حد تک پورا کرتا ہے؟ سوات کے پہاڑوں کو لاکھوں خوبصورت درختوں سے پھر ڈھانپ دینے میں کب کامیاب ہوتا ہے؟بدعنوان اور رشوت خور سرکاری افسروں کی لوٹ کھسوٹ (اور لینڈ مافیا کے ساتھ حصہ داری) کے سیل گراں کے آگے کیسے اور کب بند باندھتا ہے؟ یہ ہیں وہ بڑے بڑے سوالیہ نشان ہمیں گھُور گھُور کر دیکھ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ اُن سے آنکھیں چرانے کی مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
آخر میں پاکستان پر جس دُوسری کتاب کا ذکر کیا جائے گا آپ اُس کا نام پڑھ کر ہی چونک جائیں گے۔ 544 صفحات کی اور 45 پائونڈ قیمت کی کتاب کا عنوان ہے۔ The Shias of Pakistan: An Assertive And Beleagured Minority کتاب لکھنے والے (Andress T. Rieck) یقینا پاکستانی نہیں۔ مصنف کی رائے میں پاکستان میں شیعہ فرقہ کی آبادی عراق، شام اور لبنان کی مجموعی شیعہ آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ فاضل مصنف کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں شیعہ زیادہ تر برطانوی راج کے وفادار تھے اور اُنہیں سرکاری ملازمتوں میں اپنی آبادی سے کہیں زیادہ حصہ دیا گیا۔ قائداعظم ایک اسماعیلی گھرانہ میں پیدا ہوئے مگر وہ بعد میں اپنا مسلک تبدیل کر Twelver (اثناعشری) بن گئے۔ یہ کتاب لکھنے میں26 اخبارات (جن میں اُردو میں شائع ہونے والے اخبارات بھی شامل ہیں ) سے استفادہ کیا گیا۔ مجھے مان لینا چاہئے کہ اتنی ضخیم کتاب پر اتنی تھوڑی جگہ میں تبصرہ کرنا ممکن نہیں۔ مجھے ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے جو نظر آیا۔ وہ آپ کے آگے رکھ دیا۔ کیا میرے قارئین اس کالم نگار کے ساتھ مل کر یہ خواب دیکھ سکتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن شیعہ ، سنی فرقوں کے درمیان مخالفت اور دُشمنی کی غیر اسلامی دیوار گر جائے گی اور (بقول اقبال)اک نیا شوالہ بنایا جائے گا۔اگر برہمن برُا نہ مانیں تو (اقبال کے الفاظ میں) اُنہیں مان لینا چاہئے کہ ان کے صنم کدوں کے بت پرُانے ہو گئے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved