سول ملٹری تعلقات پر آج کل بہت کچھ لکھا اور اپنے اپنے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ سول ملٹری تنائو نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ تنائو کی صورت تب ہو اگر دونوں میں کوئی مقابلہ چل رہا ہو جبکہ ایسی کوئی صورت نہیں ہے۔ اختیارات کا بھی کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ کم و بیش سب کے سب اسٹیبلشمنٹ کو زیب دے رہے ہیں۔ حکومت اپنی مرضی سے صرف اُنہی اختیارات پر اکتفا کر رہی ہے جن کے تحت وہ میگا پراجیکٹس پر کام کر سکے اور ان میں سے جو فائدہ وہ اٹھا سکتی ہے اٹھا لے‘ یا زیادہ سے زیادہ افسران کی تعیناتیوں‘ ترقیوں اور تبادلوں کی حد تک۔ حکومت یا اتھارٹی حکمرانوں کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ڈان لیکس والا معاملہ جس حدتک جا چکا ہے وہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ موجودہ صورتحال کی وضاحت بھی کرتی ہے کیونکہ حکمرانوں نے اس ٹویٹ پر کوئی واضح ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس پر خاموشی اختیار کرلی گئی۔ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی ہے‘ اس کی وجہ بھی اظہرمن الشمس ہے یعنی حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن‘
کرپشن بھی اس انداز اور پیمانے کی، جس کا اظہار خود وزیراعظم نے اپنے تازہ بیان میں کیا ہے۔ چنانچہ حکمرانی کے یہ اختیارات چھینے نہیں گئے بلکہ حکومت رفتہ رفتہ ان سے خود ہی دستبردار ہوتی چلی گئی ہے اور حال ہی میں جس کی کئی مزید مثالیں بھی موجود ہیں جن میں سے ایک واضح مثال حکومت سے اجازت اوراطلاع کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز تھا جسے حکومت نے تسلیم کر لیا۔ اس آپریشن کی وجہ بھی یہی تھی کہ افواج پاکستان اپنے آپ کو ملکی سلامتی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں بلکہ ہیں بھی۔ طالبان سے چشم پوشی حکومت کا ایک قومی سطح کا جرم تھا۔ اس کے ساتھ جُڑا ہوا معاملہ بھارت جیسے دشمن ملک کے حوالے سے وزیراعظم کا نرم گوشہ بھی جو ان کے دل میں موجود بھی ہے اور یہ سمندر ٹھاٹھیں بھی مار رہا ہے۔ مستقل تنائو کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ بھی ہے۔ مودی کی یہاں پراسرار طریقے سے وزیراعظم کے ہاں شادی کی تقریب میں شرکت اور تحائف کی ریل پیل ایک الگ داستان رقم کرتی ہے اور اب جس طرح مبینہ طور پر بغیر ویزے کے بھارتی صنعتکار سجن جندال نے مری میں وزیراعظم
سے ملاقات کی‘ معاملات کی گرما گرمی کی ایک وجہ یہ بھی رہی۔ یہ بات بھی اب ہر طرف سے کہی جانے لگی ہے کہ وزیراعظم کا بھارت میں باقاعدہ کاروبار چل رہا ہے اورمیرے خیال میں یہ ساری باتیں اسٹیبلشمنٹ کو بدگمان کرنے کے لیے کافی ہیں۔
چنانچہ اس ماحول کے باوجود ملک مخالف خبر کا جاری ہونا مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف تھا۔ تاہم اس سلسلے میں ایک تازہ پیشرفت ہوئی ہے کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کی اس موضوع پر ملاقات ہو گئی ہے جس میں بقول شخصے وزیراعظم نے اس معاملے پر آرمی چیف کو ''بریف‘‘ کیا اور جس کے نتیجے میں شور اشوری کم ہوتی نظر آتی ہے اور شاید ان سطور کی اشاعت تک متنازعہ رپورٹ شائع بھی ہو چکی ہو اور شاید فوج کے لیے قابل قبول بھی ہو۔ واضح رہے کہ فوج کی طرف سے ڈان لیکس کی تحقیقات خود کرنے کا معاملہ بھی پس منظر میں چلا گیا ہے۔
منقول ہے کہ پروفیسر دلاور جن دنوں ایم اے او کالج کے کے پرنسپل تھے تو اپنی کرکٹ ٹیم کو اکثر و بیشتر بھارت لے جایا کرتے تھے۔ سفر ٹرین کے ذریعے ہوتا تھا اور یہ ان کا ریکارڈ تھا کہ وہ ہمیشہ بغیرٹکٹ سفر کیا کرتے اور کبھی پکڑے نہیں گئے تھے۔ تاہم ایک بار ایسا ہوا کہ وہ دھر لیے گئے اور پچاس روپے جرمانہ ادا کر کے ان کی خلاصی ہوئی۔ واپسی پر جب یہ بات پھیلی تو ایک دن سٹاف میٹنگ میں کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ خواہ مخواہ اتنی بڑی رقم بھر آئے ہیں (پچاس روپے اس زمانے میں واقعی ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی) ایک کولیگ نے ان سے کہا کہ آپ دس پندرہ روپے سے شروع ہوتے اور بالآخر بیس پچیس پر معاملہ طے ہو جاتا۔ دلاور صاحب بولے تم دس پندرہ روپے کہہ رہے ہو‘ میں تو معافی سے شروع ہوا تھا ایسا لگتا ہے کہ یہی ہتھیار حکمرانوں نے بھی کامیابی سے آزما لیا ہے اور اگر اس طرح یہ معاملہ طے ہو جاتا ہے تو یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہو گی جس پر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم بھی سکھ کا سانس لے گی۔ تاہم توقع یہ تھی کہ حکمرانوں کی طرف سے اس خلیج کو پاٹنے کے لیے اقدامات کئے جائیں گے لیکن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ یہ خلیج اور بھی وسیع ہو جاتی ہے۔
سو‘ معاملات کی درستی کے لیے حکومت کو بعض مثبت اقدامات کا راستہ اختیار کرنا ہو گا پوری قوم اس صورتحال پر افسردہ اور پریشان ہے۔ ہر ذی ہوش یہ چاہتا ہے کہ صحیح معنوں میں حکومت کی رٹ قائم ہونی چاہیے یعنی ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے اس کے لیے اقدامات کرنا صرف اور صرف حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ رکاوٹیں دور کرنے سے ہی ملک پر حکومتی رٹ قائم ہو سکتی جو ایک عرصے سے افسوسناک حد تک غائب نظر آتی ہے۔ع
اور درویش کی صدا کیا ہے
آج کا مطلع
اگر منہ نہ موڑو ہماری طرف
تو دیکھیں گے ہم کیا تمہاری طرف