اس دنیا میں جھوٹ کا پروپیگنڈہ کرنے والی قوتیں ہمیشہ سرگرمِ عمل رہی ہیں۔ شیطان نے تخلیقِ آدم کے وقت ہی دربارِ ربّانی میں کہہ دیا تھا ''اچھا جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے، میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا‘‘۔ (القرآن، سورۃ الاعراف ۷:۱۶،۱۷) اس کے جواب میں اللہ نے ارشاد فرمایا ''نکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھکرایا ہوا۔ یقین رکھ کہ اُن میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا‘‘۔ (ایضاً :۱۸)
اس وقت طاغوتی قوتیں جہاں کہیں اسلام کی روشنی دیکھتی ہیں اسے بجھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہیں۔ اخوان المسلمون عالمِ عرب کی ایک ایسی تحریک ہے جو خالص جمہوری انداز میں عوام الناس تک اپنی دعوت پہنچاتی اور ان کی تربیت کے ذریعے اپنے معاشرے میں اصلاح کی کوشش کرتی ہے۔ مسلمان معاشرے میں ہتھیار اٹھانا ان کے لٹریچر میں کہیں نظر نہیں آتا۔ آج کل کے بعض نام نہاد مسلمان دانشور مستشرقین کی دیکھا دیکھی اخوان کے فکری رہنما سید قطب شہید ؒ کی بعض تحریروں کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے من مانے مفہوم اخذ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اخوان کی دعوت بالکل واضح ہے، انہوں نے ہر دور میں ظلم و ستم برداشت کیے مگر جواب میں ہتھیار نہیں اٹھائے۔ آج بھی وہ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں مگر ان کا واضح مؤقف پوری دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ جمہوری اور آئینی طریقے سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ اور سید قطب کے درمیان کبھی ملاقات یا تبادلۂ خیالات حتیٰ کہ باہمی خط و کتابت بھی نہ ہوئی تھی۔ یار لوگوں نے کئی مرتبہ جھوٹ کے طومار باندھے مگر حقائق کا انکار کیسے ممکن ہے۔ اب پھر ان ''مہربانوں‘‘ نے یہ تبصرے شروع کر دیے ہیں کہ اخوان اور جماعت اسلامی یا بالفاظ دیگر سید مودودیؒ اور سید قطب پُرتشدد انقلاب کے حامی تھے۔ سید قطب پر من گھڑت الزامات لگے اور انھیں فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا دی تو اس وقت بھی اسی ریت کی دیوار پر عمارت بنائی گئی تھی۔ پوری دنیا میں یہ صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ سید قطب کو بغیر کسی جرم کے پھانسی گھاٹ اتار کر کرنل ناصر نے انسانیت کا قتل کیا اور اخلاق کا جنازہ نکال دیا ہے۔ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے اگرچہ اس کی پشت پر کتنا ہی پروپیگنڈا اور شیطانی قوت کھڑی ہو جائے۔ جماعت اسلامی اور اخوان نے اپنے معاشروں میں بدترین حکومتی مظالم برداشت کرنے کے باوجود مسلح جدوجہد کا عندیہ نہیں دیا۔ جماعت اسلامی کے دستور میں یہ بات اس قدر واضح ہے کہ کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ کم و بیش انہی الفاظ میں اخوان کا منشور بھی پُرامن جدوجہد کا اعلان کرتا ہے۔
جماعت اسلامی کا دستور اس کا طریقہ کار یوں بیان کرتا ہے:
''1۔ وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولؐ کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجائش ہو گی۔‘‘
''2۔ اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔‘‘
''3۔ جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعہ سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور رائے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔‘‘
''4۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔‘‘
(دستور جماعت اسلامی دفعہ۵)
سید مودودیؒ، سید حسن البناؒ شہید اور بدیع الزماں سعید نورسیؒ برصغیر، عالم عرب اور ترک علاقوں میں جدید اسلامی تحریک کے بانی شمار ہوتے ہیں۔ ان سب کے افکار و ملفوظات مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ان شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی تحریکوں کی بنیادیں رکھیں۔ جغرافیائی اور لسانی تفاوت کے باوجود چونکہ سب کا منبع قرآن و سنت تھا اس لیے سب کی دعوت ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کیے بغیر بھی یکساں ہے۔
سعید نورسی کی برپا کردہ تحریک مختلف انداز میں کام کرتی رہی ہے۔ ترکی میں موجودہ حکومت اپنے مخصوص ملکی و سیاسی حالات میں اسی فکر کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان لوگوں کو ماضی میں بارہا مارشل لا حکومتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر پابندیاں لگیں، ان کی سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا گیا اور انھیں پابند سلاسل کرکے ہر طرح کی آزادی چھینی گئی۔ انھوں نے ہر بدلتے موسم میں نئے نام سے میدان میں قدم رکھا اور سیاسی و جمہوری جدوجہد کو جاری رکھا۔ مظالم کے خلاف کبھی بھی ان لوگوں نے جمہوریت کا راستہ چھوڑ کر تشدد اور مسلح جدوجہد کی راہ نہیں اپنائی۔ اخوان کی دعوت مصر سے شروع ہو کر دیگر تمام عرب ممالک میں پھیلتی چلی گئی۔ شام، اردن، لبنان، سوڈان، تیونس، مراکش، الجزائر اور دیگر عرب ممالک میں اس تحریک نے اپنی جڑیں مضبوطی کے ساتھ عوام میں گاڑ دیں۔ آج تیونس کی تحریک نہضہ ہو یا مراکش کی الاصلاح، مصر کی اخوان ہو یا کسی دوسرے عرب ملک کی اسلامی تحریک، کوئی ایک بھی مسلح جدوجہد کے ذریعے تبدیلی کی حامی اور موید نہیں ہے۔ یہ اہل حق ظلم برداشت کرتے ہیں مگر قانون کی حدود میں جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فلسطین کا معاملہ البتہ مختلف ہے کیونکہ وہاں فلسطینیوں کی سرزمین پر غیرملکی قبضہ اور ناجائز ریاست کا قیام فلسطینیوں کے لیے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑتا‘ سوائے اس کے کہ وہ غاصب قوت کے خلاف مسلح جدوجہد کریں۔
برصغیر میں جماعت اسلامی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور کشمیر میں کام کر رہی ہے۔ ان میں سے کسی بھی خطے میں جماعت اسلامی نے کبھی ہتھیاروں کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ ظلم و ستم برداشت کیے، جماعت پر پابندیاں لگیں، قیادت کو جیلوںمیں ڈالا گیا اور ہر طرح کے مظالم روا رکھے گئے مگر جماعت نے کبھی اپنے معاشروں میں اسلحہ نہیں اٹھایا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی جماعت اسلامی مسلح جدوجہد کے بجائے دعوت و تبلیغ کا کام کرتی ہے؛ البتہ مقامی کشمیری آبادی مختلف حریت پسند تحریکوں کی صورت میں بھارتی مظالم اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔ ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا کہ وہ اپنی عزت و آبرو، گھر اور دکان، کھیت اور کھلیان بچا سکیں۔ یوں دیکھا جائے تو اسلامی تحریکیں پوری دنیا میں جمہوری و آئینی طریقوں سے اپنے معاشروں کو بدلنے اور اصلاح کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر علاقوں میں کوئی بھی اسلامی تحریک سیاسی و جمہوری راستے سے ہٹ کر پالیسی نہیں بناتی۔ ان تحریکوں پر تشدد کا الزام لگانا مناسب نہیں۔
حسن البناؒ شہید اور ان کی تحریک و فکر ہمارے موضوع کا مرکزی مضمون ہے اس لیے ہم شہید کے بارے میں کچھ ایسے واقعات نذر قارئین کرنا چاہتے ہیں جو ان کی شخصیت اور فکر کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے تمام سوانح نگاروں نے ان کی زندگی کے جو واقعات محفوظ کیے ہیں وہ اس بات پر گواہ ہیں کہ ان کی تحریک کی اٹھان ہی پُرامن اور جمہوری ہے۔ کسی تحریک کو سمجھنے کے لیے اس کی قیادت کے حالات اور افکار بنیادی لوازمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں اخوان المسلمون کے بانی، سید حسن البناؒ شہید کی زندگی سے کچھ واقعات اس نقطۂ نظر سے پیش کر رہے ہیں کہ غیرجانبدار اور منصف مزاج قارئین خود فیصلہ کریں کہ یہ شخصیت کسی قسم کی انتہا پسندی، تشدد یا غیر قانونی راستے پر جا سکتی ہے۔ جب یہ شخصیات خود گواہی دے رہی ہیں کہ ان کے وجود سے انسانیت کے کسی حصے کو کبھی شر نہیں پہنچ سکتا، وہ منبع خیر ہیں جن سے ہر شخص کو خیر و بھلائی ہی ملتی ہے تو من گھڑت اور بے بنیاد الزامات کو کیا نام دیا جائے۔
تاریخِ انسانی کی بعض شخصیات اتنی اعلیٰ اور ہمہ گیر ہوتی ہیں کہ اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ ان کی معطر یادیں صدیوں تک ابنائے آدم کے دل و دماغ کو معطر کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ یہ شخصیات قدرت حق کی طرف سے انسانیت کے نام ایک انمول ہدیہ ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت نے مصر کے ایک علمی و دینی گھرانے میں 1906ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام حسن رکھا گیا، جو خاندانی نسبت سے حسن البنا کہلائے اور دنیا میں ایک انمٹ اسلامی فکر کی ترویج کرکے بہت تھوڑی سی عمر میں خلعت شہادت پہن کر عازمِ بہشتِ بریں ہو گئے۔ وہ خود بھی کہا کرتے تھے اور ان کے سیرت نگار بھی اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا بہترین تعارف ان کی قائم کردہ تنظیم الاخوان المسلمون ہے۔ اخوان نے مصر اور عالم عرب میں ہر سو قربانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کی ہیں۔ ہم شہید کی ذاتی شخصیت کا تعارف و تذکرہ بھی ان سطور میں پیش کریں گے مگر ان کے اپنے ذوق اور پسند کے مطابق زیادہ ذکر ان کی تحریک اور فکر ہی پر مرتکز رہے گا۔ اخوان کوئی عام سی تنظیم یا متداول معانی میں سیاسی جماعت نہ تھی، نہ ہے۔ یہ ایک جامع اسلامی تحریک ہے جس نے پوری دنیا پر اپنی فکر سلیم اور انقلابی سوچ کے اثرات مرتب کیے ہیں۔ (جاری)