تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     10-05-2017

طوائف کا مزار

تقریباً سبھی نے یہ مشورہ دیا تھا کہ' الاگیر ‘جانا ہو تو انتونیا کے مزار پر ضرور جانا۔انتونیا ایک طوائف تھی ، ایک صدی پہلے سویت ریاست الاگیر میں جس کا حسن بہت ہنگامہ خیز ثابت ہوا تھا۔ اس داستان کا نقطہ ء عروج وہ تھا، جب الاگیر کا امیر ایغور پاشا اس کے عشق میں مبتلا ہوا۔ طوائف کی اہمیت اس کے حسن ، اس کے ناز و ادا سے ہوتی ہے ۔ عمومی طور پر ان کا بڑھاپا بہت دردناک ہوتاہے ، حسن کے دولت مند خریدار جب منہ موڑ لیتے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ سو سال پہلے مر جانے والی ایک طوائف کی میرے ذہن میں کیا اہمیت ہوگی ۔ ہاں ، البتہ میرا خیال یہ تھا کہ امیرِ شہر نے فنِ تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ اس کے مزار کی صورت میں تعمیر کیا ہوگا۔
جب میں وہاں پہنچا تومیں نے دیکھا کہ وہ تو ایک کچی قبر تھی ۔ دعا کے ہاتھ اٹھائے لوگ وہاں کھڑے تھے ۔ ایک طرف نیاز تقسیم ہو رہی تھی ۔ حیرت کی شدت سے جیسے میں بت بن کے رہ گیا۔ ساتھ آنے والی گائیڈ یہ دیکھ کر ہنس پڑی ۔ پھر اس نے مجھے انتونیا اور ایغور پاشا کی کہانی سنائی ۔ ایک صدی پہلے جس وقت کا یہ قصہ ہے ، انتونیا کی ماں کے سوا شہر میں ایک بھی خدا پرست نہیں تھا۔جنوب سے آنے والے کسی استاد کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اس کی ماں ایمان لے آئی تھی ۔ اس کا باپ ایک چھوٹا سا کاروباری تھا۔ اس کی ماں بمشکل چالیس برس کی عمر میں ٹی بی کا شکار ہوئی ۔ مرنے سے پہلے اس نے انتونیا کو اپنے خواب کے بارے میں بتایا تھا ۔ اس نے کہا تھا کہ امیرِ شہر اس سے شادی کی درخواست کرے گا۔ اس کے سر پہ کچھ بال سفید ہوں گے ۔ اس نے بتایا تھا کہ پاشا کا دل تڑخا ہوا ہوگا۔اس کی ا ٓنکھیں نم ہوں گی ۔ اس نے انتونیا سے کہا تھا کہ جب آزمائش کا وقت آن پہنچے تو دل مضبوط کر نا، خود کو رحمتِ پروردگارِ عالم کے سپرد کر دینا ۔ 
انتونیا کی عمر اس وقت بمشکل 17برس تھی۔ اپنی سہیلیوں کے ساتھ وہ درسگاہ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ، جب ایغور پاشا نے اسے دیکھا۔ وہ نوجوان تھا۔ اقتدار سے بھرپور طورپہ وہ لطف اندوز ہو رہا تھا۔ جو عورت اسے پسند آتی، اسے کچھ عرصے کے لیے اپنے ساتھ رہنے کا وہ حکم دیتا تھا۔الاگیر کی حدود میں یہ حکم ٹھکرانے کی ہمت کسی میں نہ تھی ۔ایسی عورتوں کو اس قدر وہ نواز دیا کرتا کہ ان کی زندگی بدل جاتی ۔ پاشا نے اپنی زندگی میں انتونیا جیسی حسین لڑکی کبھی نہ دیکھی تھی ۔ رعبِ حسن میں اسے ساتھ رہنے کا حکم دینے کی بجائے پاشا نے اس سے شادی کی درخواست کی ۔ فوری طور پر جواب دینے کی بجائے انتونیا نے اس کے سر کی طرف دیکھا۔۔۔اور اس کا دل ڈوب گیا۔ پاشا کا ایک بال بھی سفید نہ تھا۔ اس کی آنکھیں نم نہ تھیں بلکہ وہ تو انتونیا کی طرف سے جواب دینے میں تاخیر پر غصے سے سرخ ہو رہی تھیں ۔ آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے صاف ظاہر تھا کہ اس کا دل تڑخا ہوا نہیں بلکہ وہ تو تکبر سے بھرپور ہے ۔ انتونیا کی آزمائش کا وقت آن پہنچا تھا اور اسے اس بات کا بخوبی علم تھا۔ 
پاشا سے اس نے کہا'' ابھی اس شادی کا وقت نہیں آیا۔‘‘ غیظ و غضب کی شدت میں پاشا نے حکم دیا کہ انتونیا کے باپ کو قتل کر کے اس کی جائیداد ضبط کر لی جائے ۔ اس نے انتونیا کو بازارِ حسن میں بطور طوائف فروخت کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ۔ یہی وہ حالات تھے، جن میں انتونیا کو طوائف بننا پڑا۔ پاشا کے لیے صدمے کی بات یہ تھی کہ نہ تو وہ روئی اور اس نے ہاتھ جوڑے ۔ ایک شہزادی کی تمکنت سے محافظوں کے ساتھ چلی گئی ۔ 
پاشا اسے بھولنا چاہتا تھا، بھول نہیں پا رہا تھا۔ اس کے غیر معمولی حسن سے زیادہ اس کے رکھ رکھائو نے اسے متاثر کیا تھا۔ خیر اب تو وہ ایک طوائف تھی ۔ اسے خیال آیا کہ اس لڑکی نے پاشاکو نیچا دکھانے کے لیے چیخ و پکار نہیں کی۔ یقینا بازارِ حسن کی مکروہ پگڈنڈیوں پر اس کا حوصلہ ٹوٹ گیا ہوگا۔اپنے باپ ، اپنی عزت دار زندگی کو یاد کر کے وہ روتی ہوگی ۔ اس نے جاسوس بھجوائے ۔ ان سب کی اطلاع یہی تھی کہ انتونیا مکمل سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہے ۔ کبھی اسے روتے پیٹتے دیکھا نہیں گیا۔ 
اپنے جاہ و جلال کی یہ توہین کسی طرح سے پاشا کو ہضم نہ ہو رہی تھی ۔ اپنے خاص لوگوں کو اس نے بطور خریدار اس نے انتونیا کے پاس بھجوایا۔ ان میں سے ہر ایک کی اطلاع بھی یہی تھی کہ وہ مکمل سکون و قرار کی زندگی گزار رہی ہے ۔ پاشا نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انتونیا کو گناہ کی زندگی پسند آئی ہے ۔ اس نے شہر کے سب سے حسین نوجوان کو اس ہدایت کے ساتھ انتونیا کے پاس بھجوایا کہ انتونیا کی طرف ہاتھ نہ بڑھانا، حتیٰ کہ وہ خود تیری طرف متوجہ ہو۔ اس نوجوان نے واپس آکر بتایا کہ ساری رات وہ خاموشی سے انتظار کرتا رہا ۔ انتونیا نے آنکھ اٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھا۔ 
یہ وہ وقت تھا، جب بازارِ حسن سے نکل کر انتونیا کی شہرت الاگیر کے گلی کوچوں میں پھیل رہی تھی ۔اپنے پیسے وہ بانٹ دیا کرتی تھی ۔ اس کے علم و دانائی کا چرچا ہونے لگا تھا۔انتونیا کو بازارِ حسن گئے پندرہ برس گزر چکے تھے ۔ پاشا اسے سسکتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھالیکن اب وہ خود سسک رہا تھا۔ انتونیا کا غیر معمولی حسن اسے یاد آتا تھالیکن اب ایک طوائف کے در پہ جھکنا کسی صورت اسے قبول نہ تھا۔ ایک رات اسے بخار نے آلیا۔ بیماری کی شدت میں ا س نے سوچا کہ خود انتونیا کی خبر لے ۔ وہ کھڑکی سے اندر جھانکنا چاہتا تھا لیکن بخار کی شدت سے غش کھا کر گر پڑا۔
آواز سن کر انتونیا باہر نکلی۔ اسے اٹھا کر اندر لے گئی ۔ کہیں سے دوا لے کر آئی ۔ قطرہ قطرہ اس کے منہ میں ٹپکانے لگی ۔ پاشا نے جب خود کو ایک طوائف کی گود میں دیکھا تو خود کو چھڑانے لگا۔ اسے وہ برا بھلا کہتا رہا۔ وہ خفیہ طور پر یہاں آیا تھا اور اس کے محافظ شہر بھر میں اسے ڈھونڈتے پھر رہے تھے ۔ پندرہ برس میں انتونیا کے حسن و جمال میں انتہائی اضافہ ہوا تھا۔پاشا نے اس سے پوچھا کہ اتنے بڑے حادثات میں ٹوٹ کے بکھر کیوں نہ گئی ۔انتونیا نے کہا کہ خدا نے جو آزمائش اس کے لیے لکھی ہے ، اس پر وہ واویلا نہیں کرنا چاہتی ۔ تیسرے روز پاشا کے جسم میں کچھ طاقت آئی۔ وہ اٹھ کر باہر نکلا لیکن کچھ دیر میں وہ لوٹ کر آیا ۔ایک بار پھر اس نے انتونیا سے شادی کی درخواست کی ۔ انتونیا نے دیکھا کہ پاشا کے کچھ بال سفید تھے۔ اس کی آنکھیں نم ، دل تڑخا ہوا تھا۔
انتونیا نے ہاں کر دی ۔ اس کے بعد ایک مہربان ماں کی طرح اس نے الاگیر کی سیاست اور حکومت کا رخ عوام کی طرف موڑا۔ ایغور پاشا درویش ہو چکا تھا۔ ایک عام آدمی کی زندگی بدل کے رہ گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ نسل درنسل وہ انتونیا کے شکر گزار تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک صدی بعد آج اس کی قبر پہ وہ دعا کے ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved