اقبالؔ نے یہ استعمار سے کہا تھا، صادق سبھی پہ آتا ہے۔ خدا کی بستی دکاں نہیں ہے/ کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ زرِ کم عیار ہو گا۔
دیر آید درست آید۔ حکومت نے غلطی کی تھی اور فوج نے بھی۔ دونوں نے ادراک کیا اور صلح کر لی۔ سرکارؐ کا فرمان ہے، الصلح خیر، بھلائی صلح میں ہوتی ہے۔ فرمایا: نرمی ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے۔ فرمایا: جس میں نرمی نہیں، اس میں کوئی خیر نہیں۔
المناک یہ ہے کہ مکمل صلح نہیں، محض یہ وقتی مفاہمت ہے، جنگ بندی۔ وزیرِ اعظم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے نخچیر میڈیا گروپوں کی مدد سے دبائو ڈال کر اپنی شرائط منوا لیں۔ وزیرِ اعظم اس پہ شاد ہیں۔ عسکری ذرائع کا کہنا یہ ہے: سیاسی شہید بننے کے وہ آرزومند تھے۔ ہم ان کی مدد کیوں کرتے۔ پاکستانی سیاست میں فوج اب فریق بننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
اخبار کا مسئلہ ابھی باقی ہے۔ تلوار تانے اخباری تنظیمیں اس کی پشت پر کھڑی ہیں۔ یہ ایک ظالمانہ طرزِ عمل ہے۔ صرف ایک واقعے کی بات نہیں، مستقل طور پر اس اخبار کا روّیہ یہ ہے کہ مغرب اور بھارت کو پاکستان کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی بجائے، پاکستان کو وہ مغرب کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔
دوسرے بھی ہیں اور اپنا شعار ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ منگل کی شام سرکاری وقائع نگار نے ایک ٹی وی چینل سے بھاشن دینے کے علاوہ، جو ایک اہم سرکاری منصب پر فائز ہے، سرکار کی پیٹھ تھپکی۔ ''اس کی پوری کوشش تھی کہ آگ بھڑک اٹھے‘‘۔ ایک فوجی افسر نے کہا ''لیکن سیزفائر کا ہم تہیہ کر چکے تھے‘‘۔
یہی وہ اندازِ صحافت ہے، خرابی جس سے جنم لیتی اور بچے جنتی رہتی ہے۔ سات برس ہوتے ہیں، جب اس کالم میں لکھا کہ قمر زمان کائرہ کی وزارتِ اطلاعات کو دو ارب کا خفیہ فنڈ فراہم ہوا ہے۔ اخبار نویسوں نے حیرت سے کہا: تم یہ بات کیونکر کہتے ہو اور وہ بھی ایسے یقین کے ساتھ۔ عرض کیا، یہ بجٹ کی دستاویزات میں لکھا ہے۔ علی الاعلان زرداری حکومت یہ فرماتی ہے کہ میڈیا پر دو ارب وہ خرچ کرے گی۔ اتفاق سے بعض اخبار نویسوں کے نام مجھے معلوم تھے، بھاری رقوم جنہیں دی گئی تھیں۔ ایک ڈپٹی سیکرٹری اس وزارتِ اطلاعات میں ہوتا ہے، نظم و نسق کا نگراں۔ حلف اس سے لیا جاتا ہے کہ نام وہ نہیں بتائے گا۔ ایک دن رنج کے عالم میں اپنے حلف سے اس نجیب آدمی نے روگردانی کی اور اس یقین کے ساتھ کہ میں لکھوں گا نہیں۔ اتفاق سے اس کے ذاتی دوست بھی اس فہرست میں شامل تھے۔ الحمدللہ اس کے اعتماد کو میں نے برقرا ر رکھا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ موت پر زندگی ختم نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرے۔ ملازمت کے ابتدائی ایام میں جرائد کے لیے تراجم کرکے اپنا پیٹ وہ پالتا رہا۔ مگر کبھی کسی وزیر کی پروا کی اور نہ کسی افسر کی۔ ایسے ہی لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں۔ چنگے بھلے تھے۔ آخری برسوں میں اکثر مگر کہا کرتے: آخری سٹیشن آنے والا ہے۔ سامان سمیٹنا ہم نے شروع کر دیا ہے۔ وہ اندازِ فکر جو مسلمان کو مومن بناتا ہے۔ آخر آخر کو عالم یہ تھا کہ ان کی مجلس میں کوئی غیبت کا ارتکاب کرتا تو وہ نگاہ پھیر لیتے۔
ایسا ہر سرکاری افسر، ایسا ہر پاکستانی ایک کے بعد دوسری حکومت کے طرزِ عمل پہ رنجیدہ رہا اور اللہ جانے، کب تک رہے گا۔
سرکاری اخبار نویس سب کے سب ایسے نہیں۔ ان میں سے بعض یومِ سبت والوں کی طرح جمعے کے دن مچھلیاں جمع ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ خفیہ طور پہ رقوم وصول نہیں کرتے بلکہ ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان سے کیا شکوہ کہ اپنی ہی حکومت کے غلام ہیں۔ بس یہ کہ رزق کے باب میں اس پروردگار پہ بھروسہ نہیں، جس کا فرمان یہ ہے: زمین پر ہر ذی روح کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔
اب تو ایسے بھی ہیں جو کابل، دبئی، لندن اور واشنگٹن میں وصولیاں فرماتے ہیں۔ ان کی فہرست معلوم کی جا سکتی ہے۔ دبئی، لندن اور واشنگٹن میں ان کی جائیداد کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک کا تو لگا بھی لیا تھا۔ لندن اور واشنگٹن میں اس کی جائیداد ہے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کا ٹیکس ہضم کیے بیٹھا ہے۔ میاں صاحب جب تک حکومت میں ہیں، کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔
پچھلی صدی کے آخری عشرے تک پاکستان کے بعض انگریزی اخبارات کا کام تمام ہو چکا تھا۔ پھر اردو پریس کو رام کرنے کا آغاز ہوا۔ ظاہر ہے کہ سیاستدانوں کو ہموار کرنے کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری تھا۔ نوبت اب یہاں تک آ پہنچی کہ سینکڑوں کاروباری خاندانوں کے ساتھ بھارتیوں کے مراسم ہیں۔ ملک کی فضا ایسی بنا دی گئی کہ بھارت کا مقدمہ کھلے عام لڑا جاتا ہے۔ اردو اخبارات میں تو یہ مشکل ہے کہ قاری ہنگامہ اٹھا دے۔ انگریزی اخبارات میں این جی اوز کے کارندے ڈٹ کر پاکستانی فوج کے خلاف لکھتے ہیں۔ اعتراض کیا جائے تو تبرّیٰ کرتے اور گالی بکتے ہیں۔
اس شخص پر خدا کی لعنت ہو، کارندہ بن کر جو فوج اور سول قیادت میں تصادم کی راہ ہموار کرے۔ پاکستانی اخبار نویس کی دو حیثیتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ قلم کار کے طور پر غیر جانبدار ہی اسے رہنا چاہیے مگر ایک شہری قومی سلامتی کے تقاضوں سے بے نیاز کیسے ہو سکتا ہے۔ میڈیا گروپ ہیں، بیرونی امداد جو پاتے ہیں۔ اخبار نویس ہیں، سرپرستی جن کی فرمائی جاتی ہے۔ کوئی اس پر خاموش کیسے رہے؟ اپنا گریباں چاک کیوں نہ کرے۔ جس چیز سے آدمی محبت کرتا ہے، حالات کے رحم و کرم پر کیونکر اسے چھوڑ سکتا ہے۔ اپنا خاندان، اپنے عقائد اور اپنا گھر۔ رتی برابر بھی جس میں حیا ہو، اس کا ملک بھی اس کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کسی اور سے تمغہ وصول کرنے کی حماقت کر ہی بیٹھے تو ایک دن اس کے منہ پر دے مارتا ہے۔ ہماری آرا غلط ہو سکتی ہیں۔ تجزیے ادھورے اور ناقص۔ ترکِ محبت مگر کفر کا ارتکاب ہے۔
تمام دنیا میں افواج کی مقبولیت سیاستدانوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسباب اس کے آشکار ہیں۔ پاکستان میں اور بھی زیادہ ہیں۔ اسباب اس کے بھی آشکار ہیں۔ سیاستدانوں کی اکثریت قومی دفاع کے تقاضوں سے بے نیاز ہے۔ الطاف حسین دشمن کے ایجنٹ ہیں۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی خان اور محمود اچکزئی پاکستان اور اس کے دشمنوں کے درمیان غیر جانبدار ہیں۔ کچھ بھی ہو جائے، کشمیر کے لیے وہ کبھی کچھ نہ کریں گے۔ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کو پاکستان کے دفاع سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ ان کے نزدیک یہ فوج کا دردِ سر ہے؛ حتیٰ کہ دہشت گردی کا مقابلہ بھی۔ کشمیریوںکے قتلِ عام پہ عمران خان کا دل بھی زیادہ نہیں دکھتا۔ اتنا بھی نہیں جتنا اپنی اور جہانگیر ترین کی مذمت پر۔ وزیرِ اعظم کابل تک ریلوے لائن بچھانے پر مصر ہیں کہ افغانستان کا کوئلہ بھارت پہنچ سکے۔
اللہ غفورالرحیم ہے مگر عادل بھی۔ اس کے آخری پیمبرؐ کا فرمان یہ ہے کہ کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں، جب تک اس کا باطن بے نقاب نہ ہو جائے۔ کوئی نہ بچ سکے گا۔ ہر کوئی اپنے انجام کو پہنچے گا، جس کا وہ مستحق ہے۔ اے پی این ایس، ناانصافی سے اگر اخبار کو بچانے کی کوشش کرے گی تو ایک دن قیمت اسے چکانا ہو گی۔ عمران خان نے ٹھیک کہا: ڈان لیکس فوج نہیں، قوم کا مسئلہ ہے۔
اقبالؔ نے یہ استعمار سے کہا تھا، صادق سبھی پہ آتا ہے۔ خدا کی بستی دکاں نہیں ہے/ کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ زرِ کم عیار ہو گا۔