تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-05-2017

دس ارب روپے

دیر بالا میں پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام ہونے والے جلسہ عام میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ'' ملکی خزانہ لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے‘‘ اس فقرے نے اتنا محظوظ نہیں کیا جتنا پنجاب کے دانشور وزیر قانون رانا ثنا اﷲ کی میڈیا سے کی جانے والی اس گفتگو نے کیا جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ عمران خان دس ارب کی بات کر رہا ہے اسے تو کوئی دس روپے بھی دینے کو تیار نہیں۔ 27اپریل کو قابل احترام وزیر قانون رانا ثنااﷲ پنجاب اسمبلی کے باہر جب ہر ٹی وی چینل کی سکرین پر چھائے ہوئے یہ فقرہ بار با دہرا رہے تھے تو کچھ عجب سا اتفاق ہے کہ اس سے چند منٹ پہلے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے میڈیا ور سوشل میڈیا پر ایک گراف پیش کیا جا رہا تھا جس کے مطا بق انہیں ہر سال اپنے کینسر ہسپتال کے اخراجات پورے کرنے کیلئے دس ارب روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت یعنی چوبیس اپریل کو انہیں اپنے سالانہ بجٹ کیلئے درکار دس ارب روپے کے ٹارگٹ کا24 فیصد حاصل ہو چکا تھا اب مسلم لیگ نواز کے حساب کتاب کے ماہر دانشور ہی بتا سکتے ہیں دس ارب کا چوبیس فیصد کتنا ہوتا ہے ۔۔۔شوکت ہسپتال ہر سال اپنا مطلوبہ ٹارگٹ بعض حلقوں کی جانب سے سرتوڑ مخالفت اور پراپیگنڈہ کے با وجود حاصل کرتا ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے اس پراپیگنڈہ میں کوئی اور نہیں بلکہ اس ملک کے لوگ ہی پیش پیش ہیں۔ شوکت خانم میموریل ریسرچ اینڈ کینسر ہسپتال کی مخالفت ایسے ہی ہے جیسے تحریک انصاف یا مسلم لیگ نواز کے مخالف لوگ نواز شریف کی بجائے پاکستان کی مخالفت یہ کہتے ہوئے شروع کر دیں کہ یہاں میاں نواز شریف اور اس کے لوگوں کی حکومت کیوں ہے؟۔۔۔ ذاتی یا سیا سی ۔مخالفت کو ملک یا کسی ایسے قومی اور رفاہی اداروں کے خلاف لے جا نا جو ڈوبتی نبضوں کو زندگی فراہم کرتے ہوں ‘ درست نہیں ہونا یہ چاہئے کہ مہلک اور پیچیدہ بیماریوں کے علاج کیلئے انتہائی کم وسائل رکھنے والے ملک میں عوا می بھلائی کے منصوبے چلانے والوں کی مدد کیلئے پیش پیش ہوں ۔ایسے قابل فخر اداروں کو نقصان پہنچانے سے اجتناب کیا جائے۔
اس رفاہی ادارے کی جتنی مخالفت کی جا رہی ہے کاش اس کا نصف بھارت کی ہی کر دی جائے۔۔شوکت خانم کے بارے میں ایک ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹرجنرل پولیس نے اپنا واقعہ سنا کر اس سوچ اور یقین کو مزید پختہ کر دیا کہ شوکت خانم ایسے مایہ ناز اداروں کی قدر نہ کرنا‘ بدقسمتی ہو گی۔ وہ نیک دل پولیس افسر بتاتے ہیں کہ ان کی بیگم علاج کی غرض سے شوکت خانم میں داخل ہو ئیں اور چونکہ وہ اپنے علاج کے ا خراجات خود برداشت کر رہے تھے اس لئے جب انہیں کمرہ الاٹ کیا گیا تو اس میں دو بیڈ تھے اور دونوں کے درمیان ایک بڑا پردہ تھا وہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ ابھی ریٹائر نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے سوچا کیوں نہ یہ پورا کمرہ ہی لے لیا جائے جس پر انہوں نے انتظامیہ سے بات کی تو انہوں نے یہ کہتے وئے معذرت کر لی کہ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہو سکتا یہ کمرہ آپ کو شیئر کرنا پڑے گا۔ اپنے سے سینئر پولیس افسر کی سفارش کرائی گئی لیکن ہسپتال کے لوگوں نے کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا یہاں کاکوئی بھی اصول توڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا ۔اس رات کوئی مریض وہاں نہ آیا اس لئے ان پولیس افسر کی فیملی اکیلئے ہی اس کمرے میں رہے لیکن اگلے دن ایک مریضہ کو اس کمرے میں لایا گیا اس کے ساتھ جو لواحقین تھے انہیں دیکھتے
ہوئے لگتا تھا کہ کوئی بہت ہی غریب لوگ ہیں۔
اب صورت حال یہ تھی کہ اس کمرے میں ایک جانب ایک ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کی بیوی علاج کیلئے داخل تھی تواسی کمرے کے دوسرے حصے کے بیڈ پر ایک ایسی غریب عورت تھی جس کے متعلق بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایک غریب ریڑھی بان کی بیوی ہے اور شوکت خانم ہسپتال کی جانب سے اسے بھی وہی ادویات وہی خوراک وہی علاج کی سہولیات مفت میں بغیر کسی قسم کی ادائیگی کے دی جا تی رہیں جو لاکھوں روپے کی ادائیگی کرنے والے ایک پولیس افسر کے گھر والوں کو دی جا رہی تھیں۔ کیا مخالفین اور دوسرے لوگ غریب ریڑھی بانوں کو اس سہولت سے محروم کرنا چاہتے ہیں کیا پاکستان کے عوام شوکت خانم ، ایدھی ، چھیپا اور اس جیسے دوسرے عوامی اور فلاحی اداروں کو جہاں غریب اور نادار مریضوں اور خاندا نوں کو مفت علاج اور مفت ادویات کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں جہاں انہیں عزت کی چھت مہیا کی جاتی ہے ناکارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں ایسے لوگوں کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے شعور اور درد دل رکھنے والے لوگوں کو میدان عمل میں اترنا ہو گا؟۔
غلطی، غفلت یا کوتاہی انسان کی فطرت میں شامل ہے لیکن کسی ایک بات کو بتنگڑ بنا کر اپنے مخالف کے خلاف سیا سی سکور کرنا کسی طور بھی اچھا نہیں لوگوں کو ہو سکتا ہے کہ یاد نہ رہا ہو چند سال قبل لاہور میں ڈینگی کی زبر دست وبا پھیلی تھی اور ہسپتال تو ایک جانب ان کے برآمدے اور راہداریاں بھی مریضوں سے بھر گئی تھیں ڈینگی کے ٹیسٹ کچھ مہنگے تھے جس پر ایک شام حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا کہ سرکاری اور پرائیویٹ سب ہسپتالوں میں ڈینگی کے ٹیسٹ کرانے کی فیس پچاس روپے مقرر کر دی جائے ۔ حکومت نے کیا کیا کہ جیسے ہی وزیر اعلیٰ ہائوس میں یہ فیصلہ ہو اس حکم کی کاپیاں ابھی جاری بھی نہیں کی تھیں کہ اپنے ایک آدمی کو شوکت خانم کی جگہ جگہ پھیلی ہوئی لیبا رٹریوں میں بھیج کر ان کے معمول کے پرانے چارجز کی رسید لے لی اور پھر ایک گھنٹے بعد ٹی وی چینلز پرشور مچا دیا کہ دیکھو شوکت خانم غریبوں سے کوئی رعائت نہیں کر رہا لوگوں سے ظلم کر رہا ہے جبکہ ریکارڈ موجود ہے کہ اتفاق ہسپتال میں اگلے دن تک وہی پرانے چارجز ہی وصول کئے جاتے رہے؟۔آپ کہتے ہیں کہ ہم گھٹیا اور گالی گلوچ کی سیا ست نہیں کرتے اگر ایسا ہی ہے تو اچھا کرتے ہیں لیکن یہ سب کیا تھا اس سیا ست کو عوام کی فلاح کیلئے کام کرنے والے اداروں تک تو نہ لے کر جائیں؟۔
دانشور وزیر قانون سے عرض ہے کہ جناب والا آپ کہتے ہیں کہ کوئی بھی عمران خان کو دس روپے دینے کو تیار نہیں تو پھر شوکت خانم لاہور، پشاور اور کراچی کیلئے اب تک کھربوں روپے کیا جنات آ کر دے چکے ہیں؟۔ میانوالی میں نمل یونیورسٹی کے نام پر ہر سال جو ایک ارب روپے سے زیا دہ کے اخراجات ہو رہے ہیں وہ کون دے رہا ہے؟پاکستانیوں کو تو فخر ہونا چاہئے کہ ان کے ملک میں ایک ایسا شخص ہے جس کی اپیل پر جس کی آواز پر دنیا بھر سے لاکھوں لوگ آنکھیں بند کرکے عطیات کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔۔۔سوچئے کہ کل کو اگر یہ شخص ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں سے ملک کے قرضے اور معیشت درست کرنے کی اپیل کرتا ہے تو ہمیں تو کسی کی مدد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved