تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-05-2017

خواہش کی زنجیر

ہم ایک ایسے دور کا حصہ ہیں جس میں ہر طرف آسانیاں اور سہولتیں ہیں۔ اگر آپ کسی بھی کام کو نہایت آسانی سے کرنا چاہتے ہیں تو کئی طریقوں سے آسان بنا سکتے ہیں۔ یہ تو بہت مزے کی بات ہوئی۔ مگر معاملہ کچھ اور بھی ہے۔ آسانیوں نے مشکلات کو جنم دیا ہے۔ آسائشات کی بھرمار نے ہماری زندگی کو آسان بنانے کے بجائے مزید الجھادیا ہے۔ بات سیدھی سی ہے۔ وسائل کے مطابق کچھ کرنے کے اور اپنی مالی حیثیت کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے بجائے ہم بہت کچھ نہیں، بلکہ سب کچھ پانا چاہتے ہیں۔ زندگی کو آسان بنانے والی جو بھی چیز دکھائی دیتی ہے اُسے حاصل کرنے اور اپنانے کے لیے ہم بے تاب ہو جاتے ہیں۔ اور حق تو یہ ہے کہ بے تاب کے بجائے ''بے صبرے‘‘ زیادہ زیادہ موزوں ہوگا۔ 
کراچی سمیت ملک بھر میں اسٹریٹ کرائمز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ راہزنی یا چھینا جھپٹی کے بڑھتے ہوئے واقعات اِس امر کے مظہر ہیں کہ اِس معاشرے میں ہر شخص راتوں رات بہت کچھ، بلکہ سب کچھ حاصل کرلینا چاہتا ہے۔ عواقب کی پروا کیے بغیر کچھ بھی کر گزرنے کی ذہنیت ایسی پروان چڑھی ہے کہ اب لوگ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے جیسی باتوں کو دقیانوسی سوچ کا شاخسانہ قرار دے کر مسترد کر رہے ہیں اور بے ذہنی کے عالم میں وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو زندگی کو زیادہ سے زیادہ دشوار بناسکتا ہے اور بنا رہا ہے۔ 
کراچی سمیت بڑے اور درمیانے حجم کے تمام شہروں میں جرائم کا بازار گرم ہے۔ نئی نسل میں بہت سوں نے طے کرلیا ہے کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانا ہے، خواہ اِس کے لیے مشکلات ہی کو لگے کیوں نہ لگانا پڑے! اچھی خاصی پُرسکون زندگی کو پلک جھپکتے میں کسی بڑے بحران کے گڑھے میں دھکیلنے کی ذہنیت خطرناک، بلکہ ہلاکت خیز تیزی سے پنپ رہی ہے۔ کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں چھوٹے موٹے جرائم قابو میں نہیں آرہے تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بہت سے نوجوان ہاتھ پیر ہلائے بغیر راتوں رات بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 
اسٹریٹ کرائمز لوٹ مار کرنے والے نوجوانوں کو گرفتار کرنے یا ''ٹپکانے‘‘ سے ختم نہیں ہوسکتے۔ سوال جرائم کی بیخ کنی سے زیادہ جرم پسند ذہنیت کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔ کنویں میں کتا گر جائے تو اُسے نکال کر ایک مخصوص مقدار میں پانی نکالنے سے کنواں پاک ہو پاتا ہے۔ ہم کنویں سے کتا نکالنے کا سوچ بھی نہیں رہے اور پانی نکال کر پھینکے جارہے ہیں۔ اِس طرح تو کنواں پاک ہونے سے رہا۔ 
اسٹریٹ کرائمز کی ''مقبولیت‘‘ اس لیے بڑھی ہے کہ اِس میں بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے نہ بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ چند نوجوان مل کر ایک گروپ تشکیل دیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مکمل رابطے میں رہتے ہیں۔ ''شکار‘‘ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو باخبر رکھا جاتا ہے اور پھر موقع دیکھتے ہی کسی بھی شخص کو کسی سنسان سڑک پر کسی کونے میں گھیر کر محض پندرہ بیس سیکنڈ میں واردات کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ اس پندرہ بیس سیکنڈ کے کھیل میں دس پندرہ دن کا خرچ نکل آئے تو؟ یہ تو خاصا ''نفع ‘‘کا سودا ہوا! 
اسٹریٹ کرائمز جرم پسند ذہنیت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ اس ذہنیت کی بیخ کنی میں یا یو کہیے کہ اِسے پیدا ہونے سے روکنے میں کلیدی کردار والدین کو ادا کرنا ہے۔ اولاد میں بہتر زندگی کا شعور پولیس، بچوں کی جیل کے حکام یا ماہرین نفسیات پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ تو والدین کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر وہ اس حوالے سے محنت کریں گے تو پھل بھی اُنہی کو ملے گا۔ ریاستی ادارے ایک خاص حد تک ہی کچھ کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی اُن کا کردار اصلاحی سے کہیں زیادہ تادیبی نوعیت کا ہے۔ 
کراچی میں کم و بیش ایک عشرے کے دوران اسٹریٹ کرائمز نے یوں سَر اٹھایا ہے کہ اہلِ شہر کے سَر جھک جھک گئے ہیں۔ بہترین لوکیشن کا شہر، دنیا بھر کی سہولتوں اور آسائشات سے مزیّن۔ باصلاحیت اور محنتی لوگوں کی کمی نہیں۔ کاروباری اعتبار سے انتہائی سازگار ماحول۔ سرمایہ کاروں کے لیے بھی پنپنے کے بہترین مواقع۔ صنعت کار بھی امکانات سے مایوس نہیں۔ اتنا بہت کچھ ہے مگر ساتھ ہی ساتھ جرم پسند ذہنیت کی پخ بھی لگی ہوئی ہے۔ تین چار سال پہلے تک بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ اس قدر تھی کہ عشروں سے یہاں بسے ہوئے لوگوں نے بھی بوریا بستر لپیٹ کر کہیں اور آباد ہونے کا سوچنا شروع کردیا تھا۔ ایک مرحلے پر کیفیت یہ تھی کہ لوگ اپنے گھر کے دروازے پر لُٹ جاتے تھے۔ بینک سے رقم نکلواکر نکلنے والوں کو بہت دیکھ بھال کر چلنا پڑتا تھا۔ ''جاں باز شِکرے‘‘ اُن کی محنت کی کمائی جھپٹ کر اُڑ جانے کو بے قرار رہا کرتے تھے۔ جرائم پیشہ نوجوانوں کے منظم گروہ شہر بھر میں دندناتے پھر رہے تھے اور اُنہیں لگام ڈالنے والا کوئی نہ تھا۔ متعلقہ ریاستی مشینری نے بے حِسی کی چادر تان کر نیند پوری کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ 
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا رخ بدلا تو ''خانہ ساز‘‘ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے بھی دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2013 میں آپریشن کلین اپ شروع ہوا تو اہلِ کراچی نے کچھ سکون کا سانس لیا۔ رینجرز کو اختیارات ملنے سے معاملات کے درست کیے جانے کی راہ ہموار ہوئی۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی بیخ کنی ممکن ہوئی تو شہریوں کی آنکھوں کے سامنے چھایا ہوا اندھیرا ختم ہوا، امیدیں کی کرنیں جگمگانے لگیں۔ نئی زندگی شروع ہوگئی۔ لوگ پرانے معمولات کی طرف لَوٹے۔ 
دو ڈھائی سال تک معاملات کچھ ڈھنگ کے رہے ... اور اب پھر چھوٹے موٹے جرائم ہی اور اہلِ کراچی ہیں۔ پولیس کی گرفت پھر ڈھیلی پڑگئی ہے۔ اُس کا شکوہ ہے کہ اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کارروائی پر عدالت سے حوصلہ افزا ریسپانس نہیں ملتا۔ قانون میں بھی سقم موجود ہے۔ ایسے میں مورال کا گرنا حیرت انگیز نہیں۔ رنگے ہاتھوں گرفتار کیے جانے والے اسٹریٹ کرمنلز ایک دو پیشیوں ہی میں ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور مزید دو پیشیوں میں بری بھی ہو جاتے ہیں۔ پولیس کے پاس نفری بھی کم ہے اور اُس کی حوصلہ افزائی کا بھی خاطر خواہ اہتمام نہیں۔ ایسے میں پولیس جرائم پیشہ عناصر اور بالخصوص اسٹریٹ کرمنلز کا قلع قمع کرنے میں کیوں دلچسپی لے گی؟
کراچی جیسے شہر میں جرائم کی بیخ کنی مقصود ہے تو والدین کو کچھ سوچنا پڑے گا۔ بچوں کو اعلیٰ اقدار کے بارے میں بتانا ہوگا تاکہ وہ بہتر، پرسکون اور باعزت زندگی کا ایک واضح تصور اپنے ذہنوں میں پروان چڑھاسکیں۔
خواہشات کا اسیر ہو رہنا کوئی بہت بُری بات نہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اُنہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے صلاحیت اور کام کرنے کی لگن کو پروان چڑھانا بھی تو لازم ہے۔ بازار میں دنیا بھر کے جدید ترین، زندگی کو آسان بنانے والے آلات موجود ہیں۔ یہ ہمارے ہی لیے ہیں مگر اِن کے حصول کے لیے ہمیں جائز طریقوں سے کمانا ہے۔ کسی نہ کسی طرح بہت کچھ پانے کی کوشش جرم پسند ذہنیت کو بڑھاوا دیتی رہے گی اور ہماری نئی نسل چھوٹے بڑے جرائم کے ذریعے زندگی کو آسان بنانے کی مشکل راہ پر گامزن رہے گی۔ یہی وقت ہے کہ والدین بیدار مغزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اولاد کو جرائم کی طرف جانے سے روکیں۔ ایک بڑے شہر میں ڈھنگ سے رہنے کے لیے دیگر بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی خیال تو رکھنا ہی پڑے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved