ابھی ابھی ایک درد مند پاکستانی کا پیغام ملا ہے: پوری قوم ڈان لیکس پر پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ میں بھی کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ بس مجھے کوئی بتا دے کہ فوج کہاں کھڑی ہے۔
میں دہراتا ہوں، الصلح خیر۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی مصالحت ہوئی اور باقی رہے گی؟ افسوس کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
فوجی قیادت کو چکمہ دیا گیا۔ امتحان میں اسے ڈال دیا گیا۔ اسے لگا کہ تصادم کی وہ ذمہ دار ٹھہرے گی۔ سیاسی پارٹی سیاپا کرے گی۔ سیاسی شہادت اور فوج کی رسوائی کے لیے۔ عسکری قیادت کا فیصلہ گھیرے میں آئے ہوئے آدمی کا فیصلہ ہے، تعجیل اور اندیشے میں۔
شواہد ہمارے سامنے ہیں۔ ایک ہی میڈیا گروپ سے وابستہ تین اخبار نویسوں کو ایک ہی اطلاع دی گئی۔ نوٹیفکیشن جاری نہ کیا جائے گا اور مشاورت کا دائرہ وزیرِ اعظم وسیع کر دیں گے۔ دھمکی یہ تھی کہ اقتدار دائو پر لگا کر وزیرِ اعظم میدان میں اتریں گے۔ 4 سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد شہادت سے سرفراز ہوں گے۔
کارندوں میں سے ایک نے آگ بھڑکائی اور یہ کہا کہ وزیرِ اعظم کی توہین کی گئی ہے۔ اس کی کوشش تھی کہ فتنہ برپا ہو جائے۔ اس کا کام ہی یہ ہے۔ اسی کا وہ معاوضہ پاتا ہے۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر بھی۔ اخبار نویس ہے مگر سبحان اللہ، ایک سرکاری عہدیدار بھی۔ اربوں روپے اس کی دسترس میں رہتے ہیں۔ وزیرِ اعظم اور ان کے خفیہ حلیف آصف علی زرداری کے ایما پر پنجاب کا نگران وزیرِ اعلیٰ اسے بنایا گیا۔ بلوچستان کی سرزمین پر علیحدگی پسندوں سے مل کر وہ لڑتا رہا۔ اب بھی اس کا کہنا یہ ہے کہ ''را‘‘ بیرونِ ملک کبھی کوئی کارروائی نہیں کرتی، آئی ایس آئی کیا کرتی ہے۔
چند روز قبل، عسکری قیادت نے اس میڈیا گروپ کو معاف کر دیا تھا۔ پہلا موقع ملتے ہی عساکر کی پیٹھ میں خنجر اتار دیا گیا۔
یہ ایک اور ڈان لیکس ہے۔ ایک منصوبہ، کم از کم وقتی طور پر جو کامیاب رہا؛ اگرچہ ایک عظیم تر ناکامی کی بنیاد بن سکتا ہے، اگر یہ قوم اندھی اور بے بس نہیں۔ اگر اپنی سلامتی کی رتّی برابر بھی اسے فکر ہے۔
زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا تنازعہ عدالت میں لے جایا گیا۔ الزام عمر فاروقِ اعظمؓ پہ تھا اور کیا الزام؟ یہ کہ قطعہء اراضی کے مالک وہ نہیں مگر اس پہ قابض ہیں۔ جیت جانے کے بعد اسی شخص کو انہوں نے عطیہ کر دیا۔ پوچھا گیا کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو دعویٰ منوانے پر آپ کیوں تلے رہے۔ فرمایا: الزام سے بچنے کے لیے، اپنا حق ثابت کرنے کے لیے! عسکری قیادت نے اپنا مقدمہ لڑا ہی نہیں۔
ایک کے بعد دوسری سازش ہے مگر افسوس کہ فوجی قیادت ادراک نہ کر سکی۔ ایرانی سپہ سالار کے بیان کو الگ تھلگ کرکے نہ دیکھا جائے۔ دہشت گردوں کی پیہم پسپائی کے بعد پاکستان توڑنے کا اب ایک اور منصوبہ ہے۔ ایک عالمی سازش، جس کی تفصیلات جلد بہم ہوں گی۔ ایرانی فوج کے سربراہ کو استعمال کیا گیا۔ میرا نہیں خیال کہ ایرانی قیادت اس پر خوش ہو گی۔ پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست واضح طور پر پریشان نظر آتے ہیں۔ طالبان جیسے تو نہیں، ایران میں انتہا پسندوں کی مگر کوئی کمی نہیں۔ ایرانی فوج کبھی پاکستان کے اندر داخل نہ ہو گی مگر ہمیشہ کی طرح ایران کے ذرائع ابلاغ میں کبھی ایک لفظ پاکستان کی حمایت میں لکھا اور بولا نہ جائے گا۔ اپنے وطن پہ طعن توڑنے والے معلوم کریں کہ ایرانی ذرائع ابلاغ کے اردو بولنے اور لکھنے والے کہاں سے آتے ہیں۔ ایران سے مخاصمت نہیں، مصالحت چاہیے اور مکمل مصالحت۔ پاکستانی فوج اور سول قیادت میں بھی مکمل مصالحت۔ حقائق کو نظر انداز کرکے مگر کیسی مفاہمت؟ پتھر پہ پانی۔
تخریب کاری مکمل طور پہ ختم ہو سکتی ہے۔ سری لنکا کی طرح، جہاں جی ایچ کیو اور ایوانِ صدر کے مرکزی دروازے مسافر نے کھلے دیکھے، چوپٹ کھلے۔ بھارت کو یہ گوارا نہیں۔ اس کے کارندوں کو بھی نہیں، جو ایران، افغانستان اور پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ ایک خاص ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ مسلح جارحیت اب ممکن نہیں اور سب جانتے ہیں کہ کیوں نہیں۔ جیسا کہ اجیت دوول نے کہا تھا، حملہ نہیں، داخلی انتشار کے بل پر بلوچستان کو کاٹ ڈالنے اور طالبان کی مدد سے مسلسل خون ریزی۔
دانشوروں کی فہرست بنائیے، امریکہ کی گود میں بیٹھنے کے باوجود جو ترقی پسند کہلاتے ہیں۔ سوویت یونین، بھارت کا حلیف تھا تو اس سائے میں تشریف فرما تھے۔ امریکہ تزویراتی سرپرست ہوا تو نان نفقہ اس کے ذمہ ہوا۔ مصالحت کے باوجود افواج کے خلاف ان کی زبانیں دراز کیوں ہیں؟
انہیں کوئی خرابی بھارت میں نظر نہیں آتی، سب پاکستان میں۔ ان میں سے کتنے ہیں، بھارت میں جن کا سواگت دامادوں کی طرح ہوتا ہے۔ ہمیشہ ہر حال میں جو فوج کو گالی دیتے اور موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ کچھ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ 76.5 فیصد ووٹروں کی رائے سے وجود میں آنے والی یہ ریاست ایک جائز ریاست ہے۔ کیا ان میں سے بعض سرکار کے محبوب نہیں؟
تین بار فوجی قیادت نے پہاڑ سی غلطی کا ارتکاب کیا۔ اوّل ڈان لیکس منظرِ عام پر آنے کے بعد شاہی خاندان کو تفتیش سے الگ رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ فیصلہ بھی اسی کے نتیجے میں ہوا کہ جسٹس عامر رضا خان کی قیادت میں قائم ہونے والا کمیشن فیصلہ اتفاقِ رائے سے کرے گا۔ عدل اور اتفاقِ رائے؟ چوہدری نثار علی خان صاحب، اتفاقِ رائے؟
آغازِ کار میں وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے کہا تھا: ڈان لیکس کے ذمہ دار انجام کو پہنچیں گے۔ وسطِ اکتوبر 2016ء میں چوہدری صاحب نے ارشاد کیا تھا، دو تین دن کے اندر۔ پھر یہ وظیفہ جاری رہا ''دو تین دن کے اندر‘‘ حتیٰ کہ سات ماہ بیت گئے اور یہ تماشا ہوا۔ خبر روکنے میں ناکام افسر، مشیر یا وزیر کی بجائے، اس شخص کا سراغ لگانے کی کیوں کوشش نہ کی گئی، خبر دینے کی جس نے سازش کی۔ بتایا گیا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے ابتدا ہی میں معافی دینے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ انہوں نے کیوں کیا تھا، اس کی وضاحت ان کے ذمے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
دوسری غلطی کی ذمہ دارموجودہ قیادت ہے۔ نرمی بجا مگر انہیں یہ حق کس نے دیا تھا کہ اس وعدے کی پاسداری کریں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا یہ فرمان سناتے زبانیں تھک گئیں: کمزوروں کو اگر سزا دی جائے گی، طاقتوروں کو اگر معاف کر دیا جائے تو وہ قوم برباد ہو جائے گی۔ ڈان لیکس کیا ایک کلاسیکل کیس نہیں، کمزور جس میں مارے گئے، خبر نہ رکوانے والے اور طاقتور بچ گئے، سازش کرنے والے۔
تیسری غلطی لفظ ''Rejected‘‘ کا استعمال تھا۔ برہمی اور اپنی قوت پر ناز کا مظہر۔ مشکل میں استقامت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اشتعال کا نہیں، اپنی قوت پر ناز کا نہیں۔ فقط ایک لفظ کے استعمال سے بے پناہ مشکلات انہوں نے خرید لیں۔ کیا یہ جملہ کافی نہ ہوتا ''افسوس کہ وعدے کی پاسداری نہ ہوئی‘‘۔
اس خدا کی قسم، جس کے قبضہء قدرت میں انسانوں کی جان اور آبرو ہے، مملکتِ خدادادِ پاکستان کے محافظوں اور حکمرانوں میں ہم صلح کے آرزومند ہیں، مکمل صلح کے، مگر اس طرح نہیں حضور، اس طرح بالکل نہیں۔
ابھی ابھی ایک دردمند پاکستانی کا پیغام ملا ہے: پوری قوم ڈان لیکس پر پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ میں بھی کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ بس مجھے کوئی بتا دے کہ فوج کہاں کھڑی ہے۔