ڈان لیکس پر معاملات کو بانس پر چڑھانے کے بعد اچانک کمپرومائز کے بعد جس طرح کی تنقید ہو رہی ہے‘ یقینا اس کی توقع اسٹیبلشمنٹ کو نہیں ہو گی۔
عوام کے اس غصے، ناامیدی اور فرسٹریشن سے مجھے عامر متین کے گھر پارٹی میں بیٹھے فوجی افسر سے پوچھا گیا سوال یاد آیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس پر ڈیل ہو چکی تھی۔ ڈائریکٹر سی آئی اے لیون پنیٹا نے ڈی جی آئی ایس آئی کو ورجینیا ہیڈکوارٹرز بلا کر کہا تھاکہ کافی ہو گیا‘ اب ہمارا بندہ واپس بھیج دو۔ کچھ دن بعد وہی ڈی جی صاحب امریکی سفیر کیمرون منٹر کو عدالت کے احاطے سے موبائل فون پر ٹیکسٹ کر رہے تھے: جناب مشن پورا ہو گیا‘ پیکیج قندھار بھیج دیا گیا ہے۔
میں نے اس سرونگ جنرل سے پوچھا تھا: اگر آپ نے ریمنڈ ڈیوس کو واپس ہی بھیجنا تھا تو عوام کو خود مختاری کے بانس پر چڑھانا اور ہمارے ملتانی پیر شاہ محمود قریشی کی وزارتِ خارجہ سے قربانی دلوانا ضروری تھی؟ آپ لوگوں سے متاثر ہو کر ہمارا ملتانی پیر جذباتی ہو کر بھٹو بننے کے چکر میں پڑ گیا تھا۔ فوجی افسر نے بڑی اچھی بات کی۔ بولا: سائیں ایوان صدر میں ریمنڈ ڈیوس پر اجلاس ہو رہا ہو اور جنرل پاشا سے رائے پوچھی جائے اور وہ کہیں امریکی ایجنٹ واپس نہیں کرنا چاہیے‘ اور جب ملتانی پیر کی باری آئے تو وہ وہی لائن لے لے، تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ میں نے ہنس کر کہا: بات تو درست ہے لیکن آپ نے ہمارے ملتانی پیر کو مروا دیا جو سمجھ بیٹھے تھے وہی لائن لینے سے ان کے بھٹو بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ دکھ یہ ہے کہ ہم ایک اور بھٹو سے محروم ہو گئے۔
یہ جملہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ اگر ڈان لیکس پر اس طرح کا سٹینڈ لیا گیا‘ اور کچھ دن بعد کمپرومائزکر لیا گیا‘ تو اس میں کسی کا کیا قصور؟ یعنی پہلے ڈان لیکسں پر سٹینڈ لینا فائدے میں تھا تو اب اس پر کمپرومائز کرنا۔ شاہ محمود قریشی کی طرح عوام نے خود ہی امیدیں باندھ لی تھیں تو اس میں غیرجمہوری حلقوں کا کیا قصور؟
تو کیا یہ کام جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ پہلے ایک بحران پیدا کرو۔ میڈیا کے دوستوں، اینکرز اور کالم نگاروں کو بلا کر ملک کی خود مختاری، سلامتی اور نیشنل سکیورٹی پر لیکچر دے کر‘ ماحول پیدا کرو‘ سیاسی حکومتوں کو جھکنے پر مجبور کرکے ایک موقع پر مرضی کی ڈیل کر لو؟
تو کیا ڈرون حملوں پر بھی یہی فارمولہ اپلائی کیا گیا تھا؟ ایک طرف امریکہ کو اجازت دی گئی بلکہ ٹارگٹ تک دیے گئے کہ فلاں جگہوں پر ڈرون حملے کرو۔ جب ڈرون حملے ہوئے تو کالم نگاروں، ٹی وی اینکرز کے ذریعے شوز بھی کرائے گئے کہ پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہو گیا ہے۔ مقصد شاید امریکہ کو یہ جتلانا تھا کہ دیکھو پاکستان میں ڈرون حملوں پر کتنا ردعمل آ رہا ہے‘ لیکن ہمیں داد دو کہ پھر بھی آپ کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اس تعاون کے بدلے ان سب نے کیا کچھ لیا‘ وہ سب جانتے ہیں۔ جنرل مشرف مزید کئی برس اقتدار میں رہے‘ تو جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے مدتِ ملازمت میں توسیع لی۔ ریمنڈ ڈیوس کے بدلے جنرل پاشا کی امریکی عدالت میں پیشی نہ لگی‘ جن کے ممبئی حملوں کے بعد سمن جاری ہونے والے تھے۔ پاکستانی قوم سڑکوں پر ٹائر جلا کر خود کو جلاتی رہی، خود مختاری کا نعرہ بیچنے والوں نے ورجینیا میں سی آئی اے ہیڈکوارٹرز میں ڈیل کر لی۔
میمو گیٹ پر بھی شاید یہی نیشنل سکیورٹی والا نعرہ بیچا گیا۔ ایسے لگا جیسے آسمان گرنے والا ہو۔ نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف، ٹی وی چینلز، میرے جیسے اینکرز نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ شہباز شریف اور نواز شریف تو سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے کہ جج صاحب پیپلز پارٹی کو غدار قرار دیں۔ کوئی ایک دستاویز یا کاغذ کا ٹکڑا عدالت کے سامنے پیش نہ کیا گیا۔ پھر بھی جنرل کیانی اور جنرل پاشا‘ جنہوں نے پیپلز پارٹی حکومت سے مدتِ ملازمت میں توسیع لی تھی‘ نے ہی حکومت کے خلاف بیان حلفی جمع کرائے۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ شاید مشن مکمل ہو گیا تھا۔
مزے کی بات ملاحظہ فرمائیں۔ جب ایبٹ آباد کمشن میں جنرل پاشا پیش ہوئے اور ان سے پوچھا گیا: کیسے امریکیوں نے اتنا بڑا آپریشن کر لیا؟ تو ان کا جواب تھا: جناب پاکستانی صحافی امریکی ڈالرز، شراب اور لڑکیوں کے عوض بک جاتے ہیں۔ ذرا جواب ملاحظہ فرمائیں۔ گفتگو کا موضوع تھا اسامہ بن لادن والا آپریشن‘ پاکستان کی خود مختاری اور ایجنسیوں کی ناکامی اور جواب؟ ایک کسان کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔ ایک آدمی اس کے قریب سے گزرا تو کسان کو دیکھ کر کہا: اللہ کے بندے کھیت میں ہل سیدھا چلائو۔ کسان بولا: تم وہی نہیں جس کی ایک خاتون رشتہ دار گائوں سے فلاںکے ساتھ بھاگ گئی تھی۔
تو کیا نالائق اور کرپٹ سیاسی حکومتوں کو بلیک میل اور چیک میں رکھنے کے لیے اس طرح کے ایشوز کھڑے کرنا ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے؟ اس کام کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے‘ جسے قومی سلامتی کا شربت پلایا جاتا ہے۔ ہر دفعہ اس طرح کے ایشوز کی ضرورت پڑتی ہے اور میڈیا کو ساتھ ملا کر یہ شغل ہوتا ہے۔ ورنہ دیکھا جائے تو ڈان لیکس ایسی خبر نہ تھی جس کا ہمیں یا دنیا کو پتہ نہ ہو۔ اس سے بڑی خبر تو اس وقت رائٹرز نے چھاپی تھی‘ جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے اور فوجی ذرائع سے خبر چھپی تھی کہ کور کمانڈرز اجلاس میں پانچ کور کمانڈر مارشل لا کے حق میں تھے لیکن جنرل راحیل نہیں مانے۔ اس خبر سے یقینا جنرل راحیل نے نواز شریف کیمپ میں اپنا قد بڑا کر لیا تھا کہ دیکھو میرے اوپر دبائو ہے لیکن میں مارشل لا نہیں لگنے دے رہا۔ نواز شریف صاحب نے آرمی چیف بنا کر احسان کیا تھا تو اس خبر سے وہ احسان اتر گیا تھا۔ یقینا اس کورکمانڈرز اجلاس میں پرویز رشید، فاطمی یا رائو تحسین جیسے سویلین افسران تو نہیں بیٹھے تھے‘ جنہوں نے وہ خبر لیک کی ہو گی۔ اس خبر پر رولا نہیں پڑا‘ نہ کوئی کمشن بنا‘ نہ کوئی انکوائری ہوئی اور نہ ہی کسی کا تاوان مانگا گیا۔
غالباً اس دفعہ بھی ڈان لیکس پر وہی پرانا فارمولہ آزمایا گیا ملکی سلامتی خطرے میں ہے۔ اسامہ بن لادن پاکستان سے برآمد ہو، ملا منصور پاکستان میں مارا جائے تو ہماری ملکی سلامتی خطرے میں نہیں پڑتی۔ پڑتی ہے تو ایک خبر لگنے پر۔ وہی پرانا سکرپٹ، پرانی کہانی، پرانے مقاصد اور وہی ملکی سلامتی؛ تاہم اس دفعہ کچھ الٹا ہو گیا ہے کیونکہ عوام کا ردعمل پرانا نہیں رہا۔ یہ بات سب مانتے ہیں کہ جب فوج براہ راست ملک پر حکومت کرتی ہے تو عوام کچھ عرصے بعد تنگ پڑ جاتے ہیں لیکن کرپٹ سیاسی حکومتوں کے دور میں ان کی مقبولیت عروج پر ہوتی ہے۔ عوام فوج پر اب بھی سیاستدانوں سے زیادہ بھروسہ کرتے آئے ہیں۔ اس لیے جب ڈان لیکس پر سٹینڈ لیا گیا تو عوام بھی یہی سمجھے تھے شاید انہونی ہو گئی ہے۔
جب بھی ملک میں مارشل لا لگتے تو ہر جنرل یہی کہتا تھا کہ ملک کی خاموش اکثریت مارشل لا کے ساتھ ہے۔ خاموش اکثریت سے ان کا مطلب دیہاتی، ان پڑھ، نوجوان اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہوتے تھے۔ شہروں میں کچھ لوگوں کی چیخ پکار پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا کیونکہ ملک کی اکژیت کو دلچسپی نہیں ہوتی تھی کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ خدا غرق کرے سوشل میڈیا، ٹویٹر اور فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر جدید آلات کو جنہوں نے اس خاموش اکثریت کو زبان دے دی ہے۔ پہلے ٹی وی چینلز نے شعور ابھارا تو اب یہی کام سوشل میڈیا کر رہا ہے۔ اب وہ خاموش اکثریت ماضی کے برعکس سوال پوچھنے پر اتر آئی ہے اور سوال بھی تلخ‘ جن کا جواب دینا مشکل ہے۔ لگتا ہے خاموش اکثریت بغاوت پر اتر آئی ہے۔
موجودہ صورتحال پر اس پر ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا۔ گوش گزار کرتا ہوں: ایک بچہ کنوئیں میں گر گیا۔ گائوں کے سیانے سے کہا گیا: کوئی ترکیب بتائو۔ وہ بولا: ایک بندہ کنوئیں میں اتر کر بچے کی کمر سے رسہ باندھے اور تم لوگ اوپر اٹھا لو۔ بچہ سلامت باہر آ گیا۔ سب نے گائوں کے سیانے کو شاباش دی۔ چند دن وہی بچہ درخت پر چڑھ گیا، اتنا اوپر چلا گیا کہ نیچے نہ اتر سکتا تھا۔ پھر سیانے کو بلایا گیا۔ اس نے کہا: ایک بندہ رسہ لے کر درخت پر چڑھ جائے اور بچے کی کمر سے باندھ دے۔ جب یہ سب کام ہو گیا تو سیانے نے درخت کے نیچے کھڑے لوگوں سے کہا: اب رسہ کھینچ لو۔ جونہی رسہ کھینچا؛ بچہ زمیں پر آ گرا اور مر گیا۔ سب نے سیانے سے کہا: سیانے تو نے کیا کیا؟ سیانا بولا: میرا کیا قصور؟ اس بے چارے کی اللہ کی طرفوں آئی ہوئی تھی‘ ورنہ اسی فارمولے کے تحت میں نے اسے کنوئیں سے نکال لیا تھا۔
یہی کچھ ڈان لیکس کے ساتھ ہوا ہے۔ ڈان لیکس کی اللہ ولوں آئی ہوئی تھی ورنہ اسی فارمولے سے ماضی میں ڈرون، میمو گیٹ اور ریمنڈ ڈیوس پر میڈیا اور عوام کو بانس پر چڑھا کر کامیاب نتائج حاصل کیے گئے تھے۔