تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     12-05-2017

کرپشن فری… گورننس

سب کو یاد ہے کچھ عرصہ پہلے وزیرِ اعظم کے ہونہار بھتیجے نے سکول کے بچوںکو مستقبل کا معمار بنانے کے لیے چکنے چکنے پات والا یہ سبق یاد کرایا تھا ''بچو! کرپشن، کرپشن ہے جو ہوتی رہتی ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ احتساب کرے۔ احتساب صرف ''عوام‘‘ کر سکتے ہیں‘‘۔
اب ہونہار بھتیجے کے اتالیق تایا جی نے بڑوں کی رہنمائی کے لیے بھتیجے سے بھی بڑا فارمولا پیش کیا ہے۔ فرمایا ''ملک میں اس قدر کرپشن ہے جس کی نہ کوئی حد ہے نہ حساب‘ لیکن گھپلے اور کرپشن کی تحقیقات شروع ہو گئیں تو ہم ترقی کیسے کریں گے؟‘‘۔ کرپشن کی مزید ترقی کے لیے حکمران تایا بھتیجے کے ان اقوالِ زریں پر شہرِ اقتدار کے ایک عالی دماغ نے دو لطیفے بھجوائے‘ جو آپ سے شیئر کرنے کے قابل ہیں۔
پہلا لطیفہ: 2 آدمی بھاگ کر مسجد میں داخل ہوئے۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ فارغ ہو کر چھوٹا بولا: شکر ہے باجماعت نماز ادا ہو گئی۔ 
بڑے نے کہا: بالکل، اگر وضو کے چکر میں پڑ جاتے تو نماز رہ جاتی۔ 
دوسرا لطیفہ: ملک میں اتنے گھپلے اور سکینڈلز ہیں، جتنا کہا جائے کم ہے۔ اگر تحقیقات میں لگ گئے تو ہم ترقی کیسے کریں گے؟ چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار وزیرِ اعظم نواز شریف‘‘۔ 
کرپشن پر درمیانے خادم کے مطبوعہ اقوالِ زریں اس طرح کے ہیں۔ 
ایک دھیلے اور ایک ٹیڈی پیسے کی کرپشن ثابت کر دو، میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ اگر میرا اندازہ درست ہے تو دھیلے کا سکّہ پاکستان قائم ہونے سے پہلے ختم ہو چکا تھا۔ ٹیڈی پیسہ ضیاالحق کے مارشل لا کی نذر ہو گیا۔ ان حالات میں پوری دنیا اگر سستی روٹی، آشیانہ سکیم، قرض اتارو ملک سنوارو، جنگلہ بس، سریہ ٹرین، بجلی بنانے والے شکر کے کارخانوں، لیپ ٹاپ، ہیلتھ کارڈ، پنجاب پولیس کی مالیوں جیسی وردی، میگا کک بیکس، میگا پروجیکٹس اور سُپر کرپشن کے گلی گلی بکھرے ہوئے ثبوت جمع کرکے ان کے ذریعے کے ٹو کے پہاڑ پر چڑھ جائے‘ تب بھی نہ ٹیڈی پیسہ ڈھونڈا جا سکتا ہے نہ دھیلا۔ پاکستان کی سیاست میں جیٹ سپیڈ سے کرپشن، اقربا پروری اور ترقی کرنے والی جیٹ سپیڈ جوڑی کے اقوالِ زریں کو ملا کر پڑھا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ صرف ایک نکل سکتا ہے۔ یہی کہ محترم وڈے بھاء جی کے قول کے مطابق درمیانے خادم صاحب کی کرپشن فری... گورننس دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے رول ماڈل ہے۔
قومی اداروں کے سامنے اہم ترین سوال یہ ہے کرپشن پر کنٹرول کیسے کیا جائے؟ اس سے جُڑتا ہوا دوسرا سوال ہے‘ حتمی طور پر کرپشن کے سدِباب کے لیے کون سا راستہ اپنایا جائے؟ تیسرا، کبھی پاکستان میں کرپشن فری حکمرانی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گا؟ ان سنجیدہ سوالوں کا جواب آسانی سے مشرق و مغرب میں کئی ملکوں سے مل سکتا ہے‘۔ جہاں طرزِ حکمرانی میں تھوڑی تبدیلی لا کر کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری‘ تینوں لعنتوں پر قابو پایا گیا۔ اس ماڈل کو سمجھنا آسان ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ میں وزیرِ اعظم ترقیاتی پروجیکٹ کا اعلان نہیں کر سکتا۔ کوئی وزیر کسی پروجیکٹ پر اپنے نام کی تختی نہیں لگا سکتا۔ ممبر پارلیمنٹ کے پاس نہ تھانے دار تبدیل کرنے کا اختیار ہے، نہ ہی سڑک پر آپ کو ایسا نوٹس بورڈ مل سکتا ہے جہاں لکھا ہو ''وزیرِ اعظم نتھو خاں کی ترقیاتی سکیم کے تحت وزیرِ اعلیٰ پھتو خاں کی خصوصی مہربانی سے وزیرِ بلدیات پھجا خان کی ہدایت پر ممبر پارلیمنٹ گاما خان کی زیرِِ نگرانی محلہ ڈاکو پورہ سے چوک چور پورہ تک پختہ گلی کی تعمیر یو سی چیئرمین کن ٹُٹا کی زیرِ نگرانی مبلغ اسی ہزار روپے کی رقم سے مکمل ہوئی۔ اہالیانِ علاقہ کی طرف سے قائدین کی عظمت کو سلام‘‘۔
وزیرِ اعظم کوئی بھی ہو، وزیرِ اعلیٰ کیسا بھی‘ وہ نہ ہائوسنگ کا ماہر ہوتا ہے نہ فزیکل پلاننگ کا۔ نہ شعبہ تعلیم یا صحت‘ نہ ہی آئی ٹی یا روڈ اِنجینئرنگ اس کے علم میں ہے۔ میں اُس وقت حیران ہو جاتا ہوں بلکہ پریشان بھی‘ جب یہ منتخب لوگ‘ جن کی آئینی ڈیوٹی صرف عوام کے لیے قانون سازی کرنا ہے‘ اور آئین کے کسی آرٹیکل یا لا کی کسی دفعہ میں جن کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عوام کو کمی کمین، منگتے اور بھکاری سمجھ کر سرکاری خرچ پر اپنے سیاسی ٹھیلے کو میلے میں تبدیل کریں‘ اور پوچھیں: اوئے گجرانوالیو، اوئے لاہوریو، اوئے پشاوریو، بتائو تم کیا مانگتے ہو۔ جو مانگو گے دوں گا۔ آئین کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چلانے کے لیے رولز آف بِزنس بنائے گئے۔ ان کی روشنی میں سول سروس، جوڈیشل سروس اور لازمی سروس آف پاکستان جیسے اداروں کو اختیارات مِلے۔ ہر وزارت کو ڈویژن کا درجہ دیا گیا۔ رولز کے مطابق وزارت کا سیکرٹری وزارت کا ''چیف اکائونٹنگ آفیسر‘‘ ہے۔ قومی خزانے کو خرچ کرنے پر آڈیٹر جنرل کے سامنے پوری طرح جواب دہ بھی۔ المیہ نما لطیفہ یہ ہے کہ سیکرٹری اپنے دفتر میں بیٹھا ہوتا ہے، وزیر اپنے پسندیدہ گلوئوں کو جمع کرکے پروجیکٹ کا اعلان کر دیتا ہے۔ بغیر کسی پلاننگ بغیر پروجیکٹ فزیبلٹی کے‘ بغیر اس کی ضرورت کو مدِنظر رکھے۔ تازہ ترین مثال اگلے روز اس وقت سامنے آئی جب نیشنل پارک سوُوموٹو کیس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے وکیل کی حیثیت سے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب کے بینچ میں گھنٹے سے زائد معاونت کرنے کا موقع ملا۔ 
راول ڈیم کے کناروں پر سی ڈی اے کو معلوم ہی نہیں سرکاری زمین کتنی ہے۔ 20 سال کے عرصے میں یہ زمین شیرِ مادر سمجھ کر منظورِ نظر، کاسہ لیس، ضمیر فروش اور چمچہ گیر آپس میں بانٹتے رہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے پہلی مرتبہ قومی اثاثے کو بچانے کے لیے تحریری جواب مانگا ، کہ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ بتائے کہ راول ڈیم کی زمین‘ جو قوم کی ملکیت ہے‘ کس قانون کے تحت کس ریٹ پر کس کس کے نام پہ الاٹ کی گئی؟ کرپشن کنٹرول کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے آئینی ترمیم کے ذریعے 6 کے 6ملکی پارلیمان کے ارکان کو نہ کوئی سکیم دی جائے نہ فنڈ۔ وزیرِ اعظم، وزرائے اعلیٰ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر عوام دوست قانون سازی کریں۔ ترقیاتی کام مستقل ریاستی اداروں کے سَپُرد کر دیئے جائیں‘ جن کا آڈٹ ہوتا ہے۔ وہ بھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہوں۔ اگر آج یہ فیصلہ کر لیا جائے تو کرپشن فوراً کنٹرول میں آ جائے گی۔ جب رکنِ پارلیمنٹ، وزیر، وزیرِ اعلیٰ یا وزیرِ اعظم ٹھیکہ دینے یا ٹرانسفر کرنے کے حق سے محروم ہو گا، منظورِ نظر ٹھیکے دار اور کک بیکس دینے والی کمپنیاں سُکڑ کر آدھی ہو جائیں گی اور ساتھ کرپشن بھی۔ دوسرا سوال ہے حتمی طور پر کرپشن کے خاتمے کا۔ اس کے لیے سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد، ایگزیکٹو اتھارٹی کے دائرہ کار سے ماورا تیز رفتار احتساب عدالتیں بنائیں‘ جو 7 دن میں فیصلے کی پابند ہوں۔ مُک مکا، سودے بازی، کرپشن والے تفتیش کار ہوں یا منصف وہ بھی ہتھکڑی کی زد میں ہوں۔ پنجاب کے موجودہ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے کئی اضلاع میں ماڈل عدالتوں کے ذریعے قتل کے مقدمات کا 3 روز میں فیصلہ کر دکھایا۔ قانون کا احترام تب ہو گا جب قانون کا خوف ہو گا۔
قوم کے سامنے ملین ڈالر سوال کرپشن فری حکمرانی کے خواب کی تعبیر ہے۔ اس کے لیے آئین کے آرٹیکل 62, 63 میں مکمل ضابطہ موجود ہے۔ کرپشن کنگز کا راستہ روکنے کے لیے آئین میں پبلک آفس ہولڈر کی اہلیت اور نااہلی کے معیار کو مذاق کی بجائے روڈ میپ بنا یاجائے۔ کرپشن فری حکمرانی کی ڈان لیک نہیں ہو گی‘ یعنی کرپشن سے پاک حکمرانی کی صبح ضرور طلوع ہو گی۔
اگر ہم یہ 3 اقدامات نہیں کر سکتے تو کَل کلاں کرپشن کا کوئی دادا ہم سب کو یوں سبق پڑھائے گا۔ ''بزرگو! کرپشن ہماری روایت ہے اور قومی کھیل بھی۔ آپ کے گوڈے جواب دے گئے ہیں۔ اس لیے آپ کرپشن کے خلاف ''کھڑ کھڑاتے‘‘ ہیں۔ میں نے اللہ کے فضل و کرم سے ایک گوڈا جرمنی سے دوسرا لندن سے برانڈ نیو لگوا لیا۔ ''بزرگو! کرپشن، کرپشن ہے جو ہوتی رہتی ہے۔ کسی کو حق نہیں وہ احتساب کرے۔ احتساب صرف ''عوام‘‘ کر سکتے ہیں‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved