تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-05-2017

گڑھے سے کھائی تک

منقول ہے کہ جولا ہے کی بیٹی نے اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ رات کو سوتے وقت وہ بولی کہ کل ہم میں سے ایک نہیں ہوگا، یہ سن کر سب سوچ میں پڑ گئے کہ دیکھیں کون ہے جو کل ہم میں نہیں رہے گا۔ صبح جب اس کے باپ کو وقوعہ کا علم ہوا تو وہ بولا۔ ''کم بخت چلی تو گئی ہے لیکن تھی بہت پہنچی ہوئی۔ رات ہی کہہ رہی تھی کہ صبح ہم میں سے ایک نہیں ہوگا‘‘۔ خاکسار کی اولیائی کو کوئی تسلیم کرے نہ کرے لیکن میں نے بھی ایک دن پہلے کہہ دیا تھا کہ ڈان لیکس کے ضمن میں معافی تلافی ہو چکی ہے اور اب یہ قصہ ختم سمجھیے۔
شنید یہ ہے کہ میاں صاحب تو تیار بیٹھے تھے لیکن فوج اس کے لیے تیار نہیں تھی کہ انہیں مفت میں ہی شہادت کا رتبہ پیش کردیا جائے۔ فوج نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ جب میاں صاحب کے لیے پانامہ کیس ہی کافی ہے تو انہیں اس کار گزاری کی کیا ضرورت ہے ورنہ ملکی سلامتی کا مسئلہ ہو تو منت سماجت کی وہاں ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اب سب سے پہلے تو یہ ہوگاکہ قربانی کے تینوں بکروں کو کہیں نہ کہیںاکاموڈیٹ کیا جائے گا۔ کچھ دوست جو شور مچا رہے ہیں کہ رپورٹ کو شائع کیا جائے تو وہ کوئی اچھی سی چھائوں ڈھونڈ کر اپنا اپنا ٹٹو وہاں باندھ لیں۔ رپورٹ شائع ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ اگر فوج اور حکومت واقعی ایک صفحے پر آگئے ہیںتو حکومت اپنے اعلان کے مطابق سول بالادستی کی طرف بھی کوئی پیش رفت کرتی ہے یا نہیں لیکن جہاں تک میاں صاحب کو ہم جانتے ہیں وہ ایسا کریں گے نہ ہی انہیں اس کی ضرورت ہے کیونکہ جو اختیارات ان کے پاس باقی رہ گئے ہیں انہیں وہ اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں، ورنہ وہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر یا اے پی سی کا اہتمام کرکے اس موضوع پر مکمل تائید و حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ نیز سوشل میڈیاکی طرف سے بھی انہیں اس پر بھرپور حمایت حاصل ہوگی، لیکن لگتا نہیں ہے کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ ہلکے پھلکے اختیارات کی وجہ سے جو آرام اور عیش و نشاط انہیں حاصل ہے، وہ اس سے کیوں محروم ہوں گے کہ ملک تو چل ہی رہا ہے جبکہ دفاع اور خارجہ کے مسائل پہلے ہی وہ فوج کو سونپ چکے ہیں، چنانچہ اغلب امکان یہی ہے کہ آئندہ وہ اس کا ذکر بھی نہیں کریں گے۔
پھر یہ ہے کہ کچھ بنیادی مسائل بھی جوں کے توں رہیں گے۔ دفاع کا سارا جو کھم فوج نے اپنے کندھوں پر لاد رکھا ہے جبکہ خارجہ پالیسی بھی اسی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، بلکہ وزیراعظم نے فوج کو کچھ مزید رعایتیں بھی دی ہوں گی کیونکہ ایسے تصفیوں میں کچھ لو اور کچھ دو کی حکمت عملی بھی کام کرتی ہے۔ فوج نے تو جو دینا تھا، دے دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاںصاحب نے اس کے بدلے میں فوج کو کیا دیا ہے اور اس بارے میں اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں، بلکہ آئندہ ہر دو فریق کے رویوں سے بھی اس کا اظہار ہوتا رہے گا۔
یہ بات تو طے ہے کہ ملکی سلامتی کے معاملے پر فوج کمپرومائز کر ہی نہیں سکتی، اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس دفعہ فوج نے سمجھداری دکھائی ہے اوراس کی آنکھیں ہر وقت کھلی رہتی ہیںاور اسی وجہ سے میاں صاحب کواس کی ضرورت ہی نہیںپڑتی کہ وہ بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھیں کہ وہ فوج کی چشم کشائی ہی کو کافی سمجھتے ہیں اور ایک لحاظ سے وہ حکومت کا بوجھ کافی حد تک اپنے کندھوں سے اتار کر اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزیرخارجہ مقرر کرنے کا تکلف ہی اٹھا نہیں رکھا۔ آرمی کا ٹویٹ واپس لینا بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے جبکہ اعتزاز احسن کے مطابق اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا جبکہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا اور مزید چلے گا اور جہاں تک حکومت کی بات ہے تو جو رعایتیں حکومت نے حاصل کر لی ہیں ان کے پیش نظر معذرت کا سوال اٹھانا حکومت کے لیے قطعاً غیر متوقع تھا کیونکہ یہی غنیمت سمجھا گیا کہ جان بچی سو لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے اور حکومت نے بالآخر سکھ کا وہ سانس لے لیا ہے جو چند روز پہلے نامکمل نظر آ رہا تھا، کیونکہ ٹویٹ کسی غلط فہمی کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ بہت سوچ بچار کے بعد جاری کی گئی تھی۔ چنانچہ وزیراعظم اس گڑھے میں گرنے سے تو بچ نکلے ہیں، دیکھیںوہ پانامہ کیس کی کھائی سے بھی بچتے ہیں یا نہیں۔
ہماری جو پیشین گوئی پوری ہوئی ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم علم نجوم میں بھی کوئی جانکاری رکھتے ہیں بلکہ وزیراعظم کے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ ہم ان کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکے ہیںکہ وہ ایسے لقمان حکیم ہیں جن کے پاس ہر مرض کی دوا موجود ہے۔ پہلے تو ہرشخص کی قیمت لگائی جاتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک ہر شے قابل خرید ہے اور اگر یہ وار نہ چلے تو وہ اپنا یہی خصوصی نسخہ استعمال کرتے ہیںجواکثراوقات کام کرجاتا ہے۔ اس لیے اس پر کسی کو بھی حیران ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن اب بھی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ فی الاصل وہ اپنے اس فطری سفر کی طرف چل نکلے ہیں جس کے لیے وہ مشہورو معروف ہیں، اس لیے آخری نتیجے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔
آج کا مطلع
گرچہ کہتی تو نہیں خلقِ خدا سب اچھا
شور ہے پھر بھی ہر اک سمت بپا‘ سب اچھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved