تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-05-2017

بیرون ملک پاکستانی

ایک صاحب کرامات نے بہت دور کی کوڑی لاتے ہوئے فرمایاہے '' پانامہ لیکس کا معاملہ کچھ بھی نہیں تھا اس کی پس پردہ کہانی یہ تھی کہ ایک صاحب اپنی سروس میں اضافی مدت مانگ رہے تھے لیکن جب وزیر اعظم کی جانب سے صاف انکار ہو گیا تو پھر فیصلہ ہوا کہ او رتو کچھ کر نہیں سکتے کیوں نہ نواز شریف کی کمرہی دوہری کرنے کا اہتمام کر دیا جائے اور اس کیلئے نہ جانے کیا کیا مقامات طے کرتے ہوئے پانامہ لیکس کا شوشا چھوڑدیاگیا ‘‘۔ سو بقول صاحب کرامات کے یہ ہے پانامہ کی اصل کہانی ورنہ اس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ ہی کوئی پیر۔۔۔۔ اچھا ہوا کہ ان جیسے انتہائی با خبر کی وساطت سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ پاکستان میں بین الاقوامی طور پر مشہور اور کئی عالمی ایوارڈ یافتہ صحافی کے طور پر پہچانے جانے والا شخص جس نے پاکستان میں پانامہ کی سٹوری فائل کی ہے وہ بھی اندر سے چھپا ہوا خاکی ہی نکلا حالانکہ اس کے بارے میں یہی مشہور کیا گیا تھا کہ یہ بے چارہ ہر وقت حساس لوگوں اوراداروں کے نشانے پر رہتا ہے۔
صاحب کرامات دانشور کے خیالات سامنے آنے کے بعد میرا خیال ہے کہ اب کسی جے آئی ٹی پر وقت ضائع کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے اور ہمارے محترم صاحب کرامات کے تھوڑے لکھے ہوئے کو ہی بہتر سمجھتے ہوئے ہاتھ جھاڑ کر نواز شریف کے پیچھے پڑنے کی بجائے پانامہ کی مسند سے شرافت سے ا ٹھ جانا چاہئے کیونکہ ایکسٹینشن مانگنے والا اکیس اپریل کو اب خیر سے29 اتحادی ممالک کی فوجوں کا سربراہ بن کر سعودی عرب میں بیٹھا دنیا بھر کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
Moody's Investors servicesکوئی گمنام ادارہ نہیں بلکہ اس کے نام کا گزشتہ چاربرسوں میں ہر تین ماہ بعد سرکار کی جانب سے یہ کہہ کر ڈنکا بجایا جاتا رہا کہ بقول اس کے پاکستان کی معیشت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے ملک اس وقت زرمبادلہ اور سٹاک ایکسچینج میں گھوڑے کی طرح بھاگ رہا ہے۔۔۔لیکن افسوس کہ کسی نے موڈی کی وہ رپورٹ زبان پر لانے کی معمولی سی بھی کوشش نہیں کی جس میں بتایا گیا کہ پاکستانیو ! ہوش کے ناخن لو تم پر79 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ بڑھا دیا گیا ہے اور ایک دوسری رپورٹ کے مطا بق امریکہ میں ورلڈ بینک اور دبئی میں آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں اگر ہمارے پیسے کی قیمت کم کی گئی تو ہو سکتا ہے کہ یہ بیرونی قرضے100 ارب ڈالر کو چھونے لگیں ۔دعا ہے کہ ۔۔خدا س برے وقت سے بچائے۔ایکسٹرنل ریٹنگ ایجنسی نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پر واجب الادا قرضوں کی اگلی قسط کی ادائیگی انتہائی مشکل نظر آ رہی ہے کیونکہ ا س کی ایکسپورٹ دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ امپورٹس بے تحاشا پھیلتی جا رہی ہیں جس سے GDP خطرے کی حد تک نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔۔۔۔MOODY کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطا بق جب مسلم لیگ نواز کی 2013 میں حکومت قائم ہوئی تو اس وقت بیرونی قرضے64.4 بلین ڈالر تھے جو اب چار سالوں میں79 بلین ڈالر ہو چکے ہیں۔اور غضب خدا کا کہ ان بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں جن کی خدمات سب سے زیا دہ ہوتی ہیں ان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں یا تارکین وطن کے نام سے پہچانے جانے والوں کو ووٹ کا حق تو دور کی بات انہیں ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹس تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ آپ انہیںتارکین وطن کہہ لیں یا اوور سیز پاکستانی کا نام دے دیں لیکن وہ اول تا
آخر پاکستانی ہیں اور یقین جانئے کہ وہ ہم سب سے زیا دہ پاکستانی ہیں اور ان کا پاکستان کیلئے درد اور محبت صرف وہی جان سکتا ہے جسے کبھی دیار غیر میں اپنے سفر کے دوران ان تارکین وطن سے مل بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہو اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہر سال اپنے وطن عزیز پاکستان کو ارب ہا ڈالر کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں جس سے ہمارے خسارے پورے ہوتے ہیں ،جن سے ہم اپنی غیر ملکی ادائیگیاں کرتے ہیں اورجن سے ہمارے بجٹ کے نقش و نگار میں تھوڑا بہت نکھار آ جاتا ہے۔۔۔اور ہم ہیں کہ اپنے وجود کے ان حصوں کو داغدار کہتے ہوئے دھتکارنا شروع ہو گئے ہیں۔۔۔ آپ کی نظروں میں ان لاکھوں تارکین وطن کا یہی قصور نا قابل معافی بن چکا ہے کہ وہ اپنے پیارے وطن کے بارے میں جہاں ان کے ماں باپ اور عزیز وں کی ہڈیاں دفن ہیں جہاں انہوں نے ایک دن سب کچھ چھوڑ کر واپس آنا ہے جس کی چھائوں میں وہ بیٹھنے کو ترس رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی چھائوں دینے والا اس درخت کو کاٹ کاٹ کر ٹنڈ منڈ نہ کر دے، اس کی ٹھنڈی اور گھنی چھائوں کو امر بیل نہ کھا جائے اور اس درخت کی شادابی کیلئے وہ ہر ماہ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی بچتیں بھیجتے ہیں تاکہ اس کی جڑیں بھی مضبوط رہیں اور اور اس کی ہریالی بھی ختم نہ ہو۔
ان کی بد قسمتی دیکھئے کہ کل آپ نے انہیں یہ کہتے ہوئے ووٹ کے حق سے محروم کر دیا تھا کہ یہ پاکستانی نہیں ہیں اور آج آپ نے ان کے سینے
پر یہ کہتے ہوئے خنجر گھونپ دیا ہے کہ ان کی پاکستان سے وفاداریاں ہی مشکوک نہیں بلکہ یہ ملک دشمن بھی ہیں۔ عدالت میں یہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کو رتی بھر خیال نہ آیا کہ ملک دشمنی کا یہ ٹیکہ آپ کن کے ماتھے پر داغ رہے ہیں بہت جلد آپ بھول گئے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن سے آپ نے قرض اتارو ملک سنوارو کی اپیل کی تھی تو انہوں نے اپنا سب کچھ آپ کے اس فنڈ میں بھجوا دیا تھا تاکہ ان کا ملک کسی دوسرے ملک یا کسی عالمی ادارے کا مقروض اور محتاج نہ ہو یہ سب یہی چاہتے ہیںکہ ان کی وہ دھرتی جہاں سے انہوں نے جنم لیا ہے کبھی بھی ویران نہ ہو اس کے سوتے کبھی بھی خشک نہ ہوں اور وہ ایک آزاد دھرتی کی طرح اس دنیا میں قائم و دائم رہے اس پر کسی کا بھی کوئی قرضہ واجب الادا نہ ہو اور وہ جلد از جلد غیر کی محکومی اور محتاجی سے نجات حاصل کرے۔ افسوس کا مقام ملاحظہ کیجئے کہ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے سپریم کورٹ کے سوال پر یہ کہاکہ جن پاکستانیوں نے امریکی پاسپورٹ لے رکھے ہیں وہ اب پاکستانی نہیں رہے اور ان کی حب الوطنی اب پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ ہے‘ انہیں یہ کہنے سے پہلے امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں سے پوچھنا چاہئے تھا کہ ہر سال امریکہ میں چودہ اگست کی پر شکوہ پریڈ کون لوگ کرتے ہیں؟۔ کشمیر پر بھارت کے ظلم و تشدد کے خلاف اقوام متحدہ اور بھارتی سفارت خانے کے باہر احتجاج کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں؟۔ اکتوبر 2005 میں جب زلزلہ آیا تھا تو انہوں نے جہاز چارٹر کروا کر ڈاکٹروں کی کتنی ٹیمیں آزاد کشمیر اور مانسہرہ بالا کوٹ پہنچی تھیں؟۔ و ہ جو اپنے ساتھ مکمل ہسپتال لے کر آئے تھے کون تھے؟۔ جنہوں نے صدارتی فنڈ میں کروڑوں ڈالر دیئے توہ کون تھے؟۔وہ یہی امریکی پاکستانی تھے جن کی پاکستان سے محبت کو مشکوک قرار دے دیا گیا ہے !! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved