تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     13-05-2017

ڈان لیکس نہیں، اصل معاملہ پاناما ہے

ن لیگ کے توپچیوں اور مختلف بینڈ ماسٹرز کی کارکردگی دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اُن کی قیادت نے ڈان لیکس کے معاملے پر وردری پوشوں کے خلاف واٹر لو کا معرکہ سر کر لیا ہو۔ ایک بات یقینی، فوج نے سیزفائر کا اعلان کرتے ہوئے قدم پیچھے ہٹا لیا ہے۔ اس کی ناراضی دور کرنے کے لیے چند چھوٹی موٹی قربانیاں دی گئیں؛ تاہم سات ماہ تک جاری رہنے والے اس ڈرامے کے بعد بھی قوم تاریکی میں ہے کہ ڈان لیکس کے پیچھے دراصل کس کا ہاتھ تھا؛ چنانچہ ن لیگ کے پاس طمانیت محسوس کرنے کی وجہ موجود ہے۔ 
اس دوران یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگرچہ ڈان لیکس میں فوج کے لیے عارضی طور پر شرمندگی کا ایک پہلو موجود تھا لیکن یہ بہرحال ایک ثانوی ایشو تھا جو بلا وجہ توجہ میں خلل ڈال رہا تھا۔ اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت ملنے کی وجہ سابق آرمی چیف کی روانگی کو ابہام میں ڈالنے والی سیاسی دھند تھی۔ درحقیقت اُن کے آخری ایام کی کہانی ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ کیا وہ واقعی توسیع چاہتے تھے؟ اگر ایسا تھا تو اس موضوع پر وزیرِ اعظم کے ساتھ کیسے بات کی گئی؟ یہ کہانی جب بھی لکھی جائے گی، پڑھنے کے لائق ہو گی۔ فوج کی ندامت کا باعث بننے والی لیک شدہ کہانی کا مقصد ممکنہ طور پر جنرل راحیل شریف کو شرمندہ کرنا ہو سکتا تھا‘ لیکن وہ بہرحال ایک کہانی ہی تھی، اس کے سوا اور کچھ نہیں؛ چنانچہ ایک مفاہمتی نوٹ پر اختتام پذیر ہوئی۔ 
اب چاہے ن لیگ کتنی ہی خوشی کیوں نہ محسوس کر رہی ہو، اس کی مشکلات کا دور ہنوز تمام نہیں ہوا۔ ابھی اس نے پاناما پیپرز کے گھنے خارزاروں سے گزرنا ہے، جو حقیقی ایشو ہے جس کا اسے سامنا ہے۔ ڈان کی کہانی ضرورت سے زیادہ چالاکی دکھانے کی کوشش تھی۔ محترمہ کے میڈیا سیل نے آرمی کو ہاتھ دکھانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن پاناما پیپرز دروغ گوئی، رقم کی مشکوک ترسیل اور منی لانڈرنگ کے بارے میں ہیں، اور ان معاملات کی اہمیت ڈان کی کہانی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ 
ایک کہانی کا گھائو اتنا کاری نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم نواز شریف کو سیاسی طور پر گھائل کر دے۔ پاناما پیپرز ایسا کر سکتے ہیں، کیونکہ ان میں شریف فیملی کی مشکوک مالیاتی سرگرمیوں کی بابت پوچھے گئے سوالات کا ابھی تک جواب نہیں ملا۔ اس لیے کچھ بھی ممکن ہے، اگرچہ کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کا ایک طاقتور بنچ بھی معاملے کو تہہ تک نہ کھنگال سکا تو ایک جے آئی ٹی کیا تیر مار لے گی؟
ہم پہلے بھی بہت سی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمز دیکھ چکے ہیں۔ ان کا ٹریک ریکارڈ بہت حوصلہ افزا نہیں۔ اس کے باوجود ابھی تک قیاس کی دنیا آباد ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب اس جے آئی ٹی میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہیں‘ جو نہ صرف موثر بلکہ نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے وزیرِ اعظم اور اُن کی فیملی کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں؛ چنانچہ دیکھنا اب یہ ہے کہ یہ جے آئی ٹی کیسے کام کرتی ہے۔ اس ٹیم میں موجود سویلینز سے تو کوئی توقع وابستہ کرنا حماقت ہو گی۔ اصغر خان کیس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف کے بیانِ حلفی سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت کچھ سیاست دانوں کو رقوم ادا کی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے اور قصور واروں کو سزا دینے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کیں، اور پھر اس ملک کے بہت سے دیگر معاملات کی طرح وہ باب بھی بند ہو گیا۔ اس کے بعد ماڈل ٹائون کیس ہے، جس میں پولیس فائرنگ سے چودہ افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے، اور ساری قوم نے وہ واقعہ ٹیلی وژن سکرین پر دیکھا تھا، لیکن تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو کچھ دکھائی نہ دیا، یا کم از کم وہ افراد دکھائی نہ دیے جو اس واقعے کے ذمہ دار تھے؛ چنانچہ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو موجودہ جے آئی ٹی کی کارکردگی پر شک کرنے والوں کو دلائل اور جواز مل جاتے ہیں۔ 
درحقیقت یہ کیس خاصا سادہ ہے۔ لندن فلیٹس کی ملکیت ثابت شدہ ہے۔ وزیرِ اعظم اور اُن کے بیٹوں سے پوچھنا صرف یہ ہے کہ وہ ملکیت کے کاغذات اور رقم کی ترسیل کا ثبوت پیش کر دیں۔ اگر اُن کے پا س قطری خطوط کے سوا پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں تو اُن کا دفاع کمزور اور ناقص ہے۔ لیکن اگر جے آئی ٹی نے ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری وزیرِ اعظم اور اُن کے بیٹوں پر ڈالنے کی بجائے رقم کی ترسیل کا خود ہی کھوج لگانا شروع کر دیا تو پھر اس میں ایک عشرہ بیت جائے گا، اُن کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔ اور اگر آخر میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں کی کارکردگی صرف اختلافی نوٹ لکھنے تک ہی محدود رہی تو اس کا کیا فائدہ ہوگا؛ چنانچہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا دیگر بہت سی مثالوں کی طرح جے آئی ٹی ایک اور تماشا تو نہیں بننے جا رہی؟ جس طرح ڈان لیکس کا قصہ تمام ہوا، اس سے ناقدین کے شکوک کو تقویت ملتی ہے کہ اس کا بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نہ ہو۔ 
ن لیگ کی حکمتِ عملی اب واضح ہے۔ وہ پاناما پیپرز کو قانونی نتائج کے حامل ایک اخلاقی ایشو کی بجائے سویلین حکومت کی بالادستی کے ایشو کے طور پر پیش کرنا چاہ رہی ہے۔ میڈیا میں موجود اس کے حامی، اور اُن کی تعداد کم نہیں، اس نکتے کو اٹھا رہے ہیں کہ ایک منتخب شدہ وزیرِ اعظم عوام کے سوا کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔ اس نکتے کو تسلیم کرنے کا مطلب وزیرِ اعظم کو قانون سے بالاتر ماننا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر گزریں، یا اُن پر جو بھی الزام ہو، وہ ہر قسم کے احتساب اور تحقیقاتی عمل سے ماورا ہیں۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت اور ٹی وی پر روازنہ پوسٹ مارٹم نے ن لیگیوں کے اعتماد کو خاصی زک پہنچائی تھی، لیکن جب وزیرِ اعظم نااہل ہونے سے بال بال بچ نکلے تو یہ اعتماد قدرے بحال ہو گیا۔ دو ججوں نے نااہل قرار دیا، جبکہ تین نے مزید تحقیقات کی ضرورت محسوس کی۔ ڈان لیکس کے اختتام نے بھی ن لیگ کے اعتماد کو مزید تقویت دی ہو گی۔ 
پاکستان کو استحکام درکار ہے، اور اس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں۔ اسے سول ملٹری اداروں کے درمیان ٹکرائو اور تنائو کی ضرورت نہیں ہے۔ سویلین بالا دستی کا اصول کسی صورت پامال نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن پھر یہ بھی ہے کہ پاکستان کو دولت لوٹنے والے سیاست دانوں کی بھی ضرورت نہیں۔ کیا قانون کی نظر میں تمام شہری برابر نہیں ہونے چاہییں؟ کیا لوٹ مار پر کسی کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ کیا سویلین بالادستی کے نام پر اس کی کھلی چھٹی دے دی جائے؟ پاناما پیپرز نے عوام کی آنکھوں کے سامنے دولت اور اقتدار کے درمیان گٹھ جوڑ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ پاناما سماعت ایک طرح سے قوم کی تدریس تھی، اُنہیں روزانہ کی بنیاد پر حکمران خاندان کے مالیاتی امور کی بابت جانکاری ہوئی۔ لیکن اگر اس سے کوئی حتمی یا ڈرامائی نتیجہ سامنے نہیں آتا تو اس تمام عمل کے نتیجے میں مایوسی کی فضا مزید گہری ہو گی۔ ہم پہلے ہی ایک قنوطیت پسند قوم ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس ملک میں دولت مند اور طاقتور افراد کے لیے ایک‘ جبکہ غریب اور کمزور شہریوں کے لیے دوسرا قانون ہے۔ نمائشی اور بلند آہنگ الفاظ کے پیرائے میں ڈھلا لیکن عملی طور پر بے معانی نتیجہ عوام کو مایوس کر دے گا۔ اور یہ تاثر عام ہو گا کہ تماشا تو خوب لگا لیکن اس کے بعد تمام طوفان جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved