تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     13-05-2017

آثارِ قیامت

آج کل ہمارے سیاست دان اپنی اپنی بصیرت کے مطابق آثارِ قیامت بتا رہے ہیں ۔اسلامی عقائد میں قیامت کا آنا حق ہے اور اس لیے قرآن نے اُسے ''اَلْحَاقَّۃ‘‘(جس کا برپا ہونا حق ہے) سے بھی تعبیر کیا اور ''اَلْقِیَامۃ‘‘(جس کا مقررہ وقت پر قائم ہونا قطعی ہے )بھی کہا اور اُس کی علامات بھی بتائیں ۔مگر لگتا ہے کہ اب ہمارے ''سیاسی علم الاعتقاد ‘‘میں بھی لوگوں کا قیامت پر یقین راسخ ہوتا جارہا ہے، چنانچہ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں چوہدری نثار علی خان ،دانیال عزیز،طلال چوہدری اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے تبصرہ کیا: ''آصف علی زرداری اور بلاول بھٹوزرداری صاحبان کرپشن کے خلاف تحریک چلانے جارہے ہیں، یہ قیامت کی نشانی ہے‘‘۔ پی ٹی آئی کے رہنما شفقت محمود نے کہا:''حنیف عباسی نے عمران خان پرکرپشن کے الزام میں مقدمات دائر کیے ہیں، یہ قیامت کی نشانی ہے ‘‘۔ جنابِ جسٹس وجیہ الدین احمدنے تبصرہ کیا:''عمران خان اصول پسندی کی بات کر رہے ہیں ،یہ قیامت کی نشانی ہے،اُن کے ہاں تو صرف رؤوساواُمَرَاء کو پذیرائی ملتی ہے، کارکنوں کا اُن کے ہاں کوئی مقام نہیں ہے ‘‘۔ ہر ایک کے آثارِ قیامت اپنے اپنے ہیں اوراپنے فریقِ مخالف کے لیے ہر ایک کا تصورِ قیامت بھی جدا ہے،اپنے لیے تو ہر کوئی شانتی چاہتا ہے۔
یہ تو ہر باشعور شخص کو معلوم ہے کہ جمہوری سیاسی نظام پر کون سی چیز قیامت بن کر نازل ہوتی ہے ،اس طرح کی قیامتیں کم از کم چار بارپہلے نازل ہوچکی ہیں ،لیکن ان کے بطن سے ملک میںسیاسی اور اقتصادی استحکام برآمد نہ ہوسکا ۔اِن ادوار میں بھی کچھ عرصہ نوکر شاہی اور سیاسی میدان کے ناپسندیدہ اشخاص کی فہرستیں تیار ہوتی ہیں،اُن کے خلاف ''قرطاسِ اَبیَض ‘‘یا ''قرطاسِ اَسود‘‘ شائع ہوتے ہیں ،تطہیر کا نقّارہ بجتا ہے اور پھر آخرِ کارصورتِ حال پہلے جیسی ہوجاتی ہے۔وقت کا مقتدر اُسی سیاسی اسٹاک میں سے بعض کو طمع دے کر اوربعض کو ڈرا دھمکا کر اپنے حمایتی کلب میں شامل کرلیتا ہے اور کچھ عرصے کے لیے راوی چین لکھتا ہے ،پھر قوم اُکتا جاتی ہے اور کسی نہ کسی عنوان سے تحریکِ نجات شروع ہوجاتی ہے۔الغرض ستّر سال ہوگئے ہیں ،ہم بھی من حیث القوم بنی اسرائیل کی طرح اپنی وادیٔ ''تِیْہ‘‘میں بھٹکتے رہتے ہیں اور بالآخر چکر کاٹتے کاٹتے اُسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں، جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔سیاست دان ایک دوسرے کی تذلیل ،تحقیر اور توہین سے لطف اندوزہوتے ہیں اور پھر وہی غلاظت جو وہ دوسروں پر پھینکتے ہیں ، ردِّ عمل میں اُن کے شفاف دامن پر بھی لگ جاتی ہے ، خواجہ میر دردکے الفاظ میں اپنے بارے میں ہر ایک کا گمان یہی ہوتا ہے:
تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
وزیرِ اعظم سے خدا خدا کر کے ڈان لیکس کی قیامت ٹلی، سوِل اور عسکری قیادت نے ہوش مندی سے کام لیا اور ملک کو ایک بڑے بحران میں مبتلا ہونے سے بچالیا ۔اگرچہ بہت سے لوگوں کی خواہش اس کے برعکس تھی ، کیونکہ انہیں ملک کی سلامتی سے چنداں غرض نہیں تھی ،وہ اپنے ناپسندیدہ شخص یا جماعت کو انجامِ بَد سے دوچار ہوتا دیکھنا چاہتے تھے ،خواہ اُس کی قیمت وطن میں انتشار اور عدمِ استحکام کی صورت ہی میں کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔لیکن اُن کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی ، انگریزی میں کہتے ہیں:''At the end of the day sensibility prevailed‘‘یعنی انجامِ کار ہوش مندی غالب آگئی اور ملک اس کے تباہ کُن نتائج سے بچ گیا۔ بعض حضرات زخم سہلاتے رہیں گے ،اُن کی مجبوری قابلِ فہم ہے ، لیکن ملک وقوم کے لیے بہتر ہوا ،اس پر وزیرِ اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ان دونوں صاحبانِ منصب نے وطن کے عظیم تر مفاد میں اپنی اور اپنے ادارے کی اَنا کو حائل نہیں ہونے دیا اور ان دونوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس وقت وطنِ عزیز کن مشکلات سے دوچار ہے ۔
عقل کے اندھے کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان کی زمینی سرحدیں جن ممالک سے ملتی ہیں ،اس وقت سوائے چین کے دیگر تمام ممالک یعنی بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں ۔ ہندوستان کے ساتھ دو جنگوں میں ہمیں ایران اور افغاستان سے متصل اپنی زمینی سرحدوں پر ایک بھی سپاہی کھڑا نہیں کرنا پڑا ،مگر آج ہماری مسلّح افواج اورسِپاہ اسی طویل سرحد پر سب سے زیادہ مصروف ہیںاور آزاد کشمیر کی سرحد پر بھی ہماری افوا ج کو ہمہ وقت چوکس اور High alertپوزیشن میں رہنا پڑتا ہے،آئے دن تصادم کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ایسے حالات میں حُبّ الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ داخلی استحکام کو قائم رکھنے کے لیے سیاسی محاذ آرائی سے گریز کیا جائے ، آپس میں لڑنے کے لیے آئندہ بھی وقت مل جائے گا، لیکن ترجیحِ اول ملک کی سلامتی ہونی چاہیے۔
اخبارات کے مطابق قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے وزیرِ اعظم نواز شریف پر دو طنز کیے:
(۱) وزیرِ اعظم اپنے آپ کو جانور کہہ رہے ہیں ،عجیب بات ہے۔ یہ در اصل وزیرِ اعظم کی طرف سے مسلم لیگ ن کے انتخابی نشان شیر پر تفاخُر اور اپنے لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں شیر اور اپنے حریفوں کو گیدڑ قرار دینے پر طنز ہے ۔جنابِ خورشید شاہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے جَدِّ اعلیٰ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب ''اَسَدُ اللّٰہ‘‘تھا۔ عربی، اردواور انگریزی زبان میں بھی شیر کا استعارہ شَجاعت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔صلیبی جنگوں میں عالمی شہرت یافتہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقابل برطانوی بادشاہ کا لقب Richard the Lion Heartیعنی رچرڈ شیردل تھا۔اردو محاورے میں طنز کرنے کے لیے کاغذی شیربھی کہہ دیتے ہیں ۔تاہم وزیرِ اعظم کے منصب کا تقاضا ہے کہ دوسروں کے بارے میں اُن کا اندازِ تخاطب باوقار ہونا چاہیے، تحقیر کے انداز میں تخاطُب اُن کے منصب کے شایانِ شان نہیں ہے ،یہ خدمت کچھ اور لوگ پہلے ہی انجام دے رہے ہیں ۔
(۲)شاہ صاحب نے دوسرا طنز یہ کیا :''وزیرِ اعظم کو گریڈ اُنیس کے افسر کے سامنے پیش ہونا پڑے گا‘‘،گویا اُن کے خیال میں یہ وزیرِ اعظم کی تذلیل ہے۔یہ صورتحال کو سمجھنے کا اپنا انداز ہے ،اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ وزیرِ اعظم کا اپنی صفائی پیش کرنے یا جوابدہی کے لیے ریاست کے کسی عمل دار کے سامنے پیش ہونا پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی ایک روشن مثال ہے ۔خلفائے راشدین بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔
اسلام میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کا اپنے ذاتی مقدّمے میں عدالت کے سامنے پیش ہونا، اس کی اعلیٰ مثال ہے۔حضرت عمر اپنے فریقِ مقدّمہ حضرت اُبی بن کعب کے ساتھ حضرت زید بن ثابت کی عدالت میں پیش ہوئے ، جب حضرت زید بن ثابت نے اُن کو اپنی مَسند پیش کی ،تو انہوں نے کہا:میں عدالت میں اپنے فریقِ مقدّمہ کے برابر بیٹھوں گا اور جب حضرت زید نے کہا: امیر المؤمنین کو قسم دینا اُن کے شایانِ شان نہیں ہے ،تو آپ نے قسم کھائی اور دوسری بار قسم کھاکر فرمایا: زید بن ثابت نے مجھے اپنی مَسند کی پیش کش کر کے عدل کے تقاضے کو پورا نہیں کیا ۔
اسی طرح امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک نصرانی کے مقابل اپنی زِرہ کے مقدمے میں قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوئے ۔قاضی شریح کو آفتاب نصف النہار کی طرح یقین تھا کہ زِرہ حضرت علیؓ کی ہے اور وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ،لیکن اسلامی قانونِ عدل کے مطابق ان کے پاس گواہ نہیں تھے ، اس لیے قاضی نے اُن کے خلاف فیصلہ دیا ۔یہ منظر دیکھ کر نصرانی حیران ہوگیا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ایک غیر مسلم کے مقابل مساوی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوا ،قاضی نے اُس کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور انہوں نے اس فیصلے کو خوشدلی سے قبول کیا۔اس پر نصرانی نے اعترافِ جرم کیا کہ آپ نے یہ زِرہ لشکر کے کسی آدمی سے خریدی تھی اور پھر آپ کے خاکستری اونٹ سے یہ گر گئی اور میں نے اِسے اٹھالیا۔مثالی عدل کا یہ منظر دیکھ کر نصرانی ایمان لے آیا ،کلمہ ٔ شہادت پڑھا اور حضرت علیؓ نے وہ زِرہ اُسے ہبہ کردی اور اس کا دو ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا ،پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا یہاں تک کہ جنگِ صفین میں جامِ شہادت نوش کیا،(السنن الکبریٰ للبیہقی ،ج:10،ص:136،ملخّصاً)‘‘۔نوٹ: یہاں مشابہت صرف خلیفہ کے عدالت میں پیش ہونے کے اعتبار سے ہے ،ورنہ وزیرِ اعظم کوحضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے وہ نسبت بھی نہیں جو ذرّے کو آفتاب سے اور قطرے کو سمندر سے ہے ۔یہ خلفائے کرام خودعدالت میں پیش ہوئے تاکہ ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ قانون کی نظر میں حاکم اور رعایا برابر ہیں۔
سو ہمارا حال بھی عجیب ہے کہ اگر ہمارے ملک میں کوئی اچھی مثال قائم ہونے جارہی ہو ، تو وہ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتی اور ہم اس پر طعن کرتے ہیں اور طنزکے نشتر چلاتے ہیں ۔اخلاقیات کے اعلیٰ معیار پرپورا اترنا ہماری سیاست اور حکمرانی کی اَقدار میں بہت دور کی بات ہے، لیکن کم از کم قانون کی حکمرانی کی کوئی قدر یا مثال قائم ہونے جارہی ہو ،تو ہمیں اُس کی تحسین کرنی چاہیے اور ملزَم اور مُجرِم میں فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved