کرّئہ ارض کے بارے میں ایک تحقیق یہ ہے کہ اگرگرین لینڈ کی برف مکمل طور پر پگھل گئی تو سمندر 24فٹ اونچا ہو جائے گا۔ اگر انٹارکٹکا پورا پگھل جائے تو پھر 200 فٹ۔
جب ایک عنصر کے مرکز میں پروٹون کی تعدا دبدلتی ہے تووہ دوسرا عنصر بن جاتا ہے ۔
18ملین ڈگری فارن ہائٹ درجہ حرارت پر ہائیڈروجن گیس ایک چمکتے ہوئے سورج/ستارے میں بدل جاتی ہے ۔
دماغ کا دایا ں حصہ مختلف شکلوں اور پیٹرنز کو یاد رکھتاہے اور یہ بھی کہ وہ ایک دوسرے سے کیسے منسلک ہوتے ہیں ۔ وہ چہروں کو یہ یاد رکھتا ہے ۔قوّتِ تخیل، مذاق کو سمجھنا، آرٹ کی داد دینا۔ ایک معمار اور موسیقار کا کام زیادہ تر دائیں دماغ پہ منحصر ہے۔ بولنے میں زیادہ اہمیت بائیں دماغ کی ہے لیکن دایاں دماغ گفتگو کے لطیف نکات کو ڈیل کرتا ہے۔ مثلاً ایک بندہ یہ کہتاہے "تم تو کمال کے آدمی ہو" اب یہ مثبت اور منفی دونوں طرح سے کہا جا سکتا ہے اور صورتِ حال کے مطابق بولنے اور سننے والا دونوں سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ایک بندے کے دایاں حصہ ٹھیک کام نہ کر رہا ہو تو وہ اس ذو معنی فقرے کو د و طرح سے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ اسے صرف ایک ہی طرح سے سمجھ سکتاہے ۔
جو بات سو فیصد ثابت شدہ ہے ، وہ یہ کہ بڑوں میں دماغ کے بائیں حصے میں ہونے والا نقصان اکثر بولنے کی صلاحیت کو جزوی یا مکمل طور پر ختم کر دیتاہے۔ انیسویں صدی تک لوگ یہ سمجھتے رہے کہ دماغ کا بایاں حصہ Hemisphere Left دائیں پر غالب۔ حالیہ برسوں میں یہ خیال زور پکڑ گیا ہے کہ دایاں غالب ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں اپنا اپنا کام کر رہے ہیں ۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ چھوٹے بچّوں میں اگر دماغ کا ایک حصہ متاثر ہوتو دماغ کا دوسرا حصہ اس کے کام بھی آہستہ آہستہ سنبھال لیتا ہے لیکن بڑوں میں ایسا نہیں ہوتا۔
ضروری نہیں کہ سر میں محسوس ہونے والے ہر قسم کے درد کی وجہ سر کے اندر ہی ہو۔ مثال کے طور پر اگر کندھے اور گردن کے مسلز میں مسئلہ ہو تو وہ کھوپڑی کے مسلز کو سکیڑ دیتے ہیں ۔یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ سخت غصے میں جذباتی شخص کی وہ خون کی رگیں سکڑ سکتی ہیں ، جو دماغ کو خون مہیا کرتی ہیں ۔یہ دوسری وجہ ہو سکتی ہے۔ اگر آپ گردن اور کندھے کے مسلز کو ڈھیلا چھوڑیں تو بعض اوقات سردرد کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔سردرد کی اصل وجہ تک پہنچنا بہرحال نیورو فزیشن ہی کا کام ہے ۔
بی بی سی اردو پر دی گئی ایک تحقیق کے مطابق نشے کے عادی افراد اور جنسی جنونیوں کے دماغ میں ایک ہی طرح کی سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں ۔ ان کے دماغوں کے ایک ہی حصے متحرک دیکھے گئے ہیں ۔ فحش مواد دیکھتے ہوئے 19افراد کے دماغ کے سکین کیے گئے ۔ ا ن کی حالت وہی تھی ، جو کہ اپنی پسند کی منشیات دیکھ کر نشے کے عادی افراد کی ہوتی ہیں ۔
سورۃ طہ میں ہے کہ اللہ آدم علیہ السلام سے مخاطب ہے : بے شک تو بھوکا اور ننگا نہیں ہوگا(جنت میں ) اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے گی اور نہ دھوپ۔ تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا۔بولا اے آدم کیا میں تمہیں بتا دوں ہمیشہ جینے کا پیڑ اوروہ بادشاہی جس میں کمی نہ آئے۔ (118-120)۔ اسی سورۃ میں ہے : اور تم سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ تم فرمائو کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا ۔ تو زمین کو ہموار کر چھوڑے گا۔ کہ تو اس میں نیچا اونچا کچھ نہ دیکھے۔ 105-107۔
بی بی سی کے مطابق یادداشت کے مسئلے ، مثلاً الزائمر کی بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے ، جب ایک دماغی یا عصبی خلیے سے پیغام دوسرے خلیے تک پہنچنے میں رکاوٹ ہوتی ہے ۔ اب اس کے علاج میں جین کے ردّ وبدل کا چوہوں پر تجربہ کیا گیاہے ۔ اس تکنیک کا استعمال ان کیمیکلز کی مقدار میں اضافے کے لیے کیا گیا ہے جو دماغی خلیوں کو ایک دوسرے کو پیغام دینے میں مدد کرتے ہیں ۔ یعنی نیورو ٹرانسمیٹرزمیں اضافہ!
بلیک ہول کے متعلق یہ کہا جاتاہے کہ جب بھی وہ مادے کو اپنے اندر نگلتے ہیں تو بے پناہ توانائی خارج کرتے ہیں ۔یہ بھی خیال کیا جاتاہے کہ زیادہ تر توانائی شعاعوں کی صورت میں خارج ہوتی ہے اور اس میں زیادہ تر ایکس رے شعاعیں ہوتی ہیں ۔ یہ وہی شعاعیں ہیں ، جن کی مدد سے ہم اپنی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔
خلا میں کششِ ثقل سے محرومی کے نتیجے میں دل اور ہڈیوں پربرے اثرات پڑتے ہیں ۔ مسلز کو نقصان ہوتا ہے ۔ بعد ازاں حرکت کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے ۔ خلا میں چھ ماہ گزارنے والوں کے تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا جسم خلا کے ان مضر اثرات کے ساتھ adjustکرنا شروع نہیں کرتا۔
انسانی جسم کے اندر کتنے خلیات ہیں ؟ اس کا جواب مختلف دیا گیا ہے ۔ کیوں کہ گننا ممکن نہیں ۔ مختلف اعضا کو کاٹ کے اندر سے گنا نہیں جا سکتا۔ ایک سیکنڈ میں اگر دس خلیات کو گنا جائے تو بیس پچیس ہزار سال چاہئیں سب خلیات کو گننے کے لیے ۔ مختلف خلیات مختلف حجم کے ہوتے ہیں ۔ جلد کے خلیات بڑے ہوتے ہیں ، خون کے چھوٹے ۔اب ایک نیا اندازہ سامنے آیا ہے ، national geography جسے سب سے بہترین قرار دیتاہے ۔اس میں مختلف اعضا ، مختلف ٹشوز کے خلیات کا اندازہ لگا کر انہیں جمع کیا گیا ہے ۔اس میں 37.2ٹریلین کا اندازہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے جو اندازے لگا ئے گئے تھے ، وہ 5بلین سے 200ملین ٹریلین کے درمیان گھومتے تھے ۔ یعنی ایک بہت بڑی رینج ۔ سائنسدان پیچیدہ کمپیوٹر ماڈلز بنا کر انسانی جسم کے مختلف اعضا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس گنتی کے درست اندازے کے طبّی فوائد بھی ہیں ۔ کیونکہ صحت مند جگر کی نسبت بیمار جگر میں خلیات کی تعداد کافی کم ہوتی ہے ۔سائنسدانوں کے مطابق سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ 37.2ٹرلین خلیات ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔ کئی دہائیوں تک یہ تعاون قائم رہتاہے ۔ اس کے نتیجے میں ہمیں ایک متحد انسانی جسم نظر آتاہے ، بجائے آپس میں لڑتے جھگڑتے اعضا کے ۔
بلیک ہول کے متعلق یہ کہا جاتاہے کہ جب بھی وہ مادے
کو اپنے اندر نگلتے ہیں تو بے پناہ توانائی خارج کرتے
ہیں۔یہ بھی خیال کیا جاتاہے کہ زیادہ تر توانائی
شعاعوں کی صورت میں خارج ہوتی ہے اور اس میں
زیادہ تر ایکس رے شعاعیں ہوتی ہیں ۔ وہی شعاعیں
جن سے ہم اپنی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔