مودبانہ علمأ کرام سے سوال یہ ہے :کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا/ کتنے آنسو ترے صحرائوں کو گلزار کریں؟۔ حضور! اب تو آتش‘ آپ کے اپنے گھروں تک آ پہنچی ہے!
ٹیپو سلطان کی اولاد کہاں ہے؟ آج کی بات تو چھوڑیے۔ اس جلیل القدر آدمی کی شہادت کے فوراً بعد‘ ہی وہ زمانے کی گرد میں گم ہو گئے تھے۔ وہ آدمی‘ جس کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا : ایک مسلمان حکمران کی تمام اخلاقی صفات اس میں جمع ہو گئی تھیں۔ اس قدر اس سے محبت تھی کہ سنگِ سیاہ کے اس مزار پر دعا مانگنے اور اسی ماحول کا ادراک کرنے کے لیے‘ جس میں وہ جیا ‘ طویل مسافت کی کلفت گوارا کی۔ واپسی پر چند شاہکار نظمیں انہوں نے لکھیں۔
روزِ ازل مجھ سے یہ جبریل نے کہا
جو عقل کا غلام ہو‘ وہ دل نہ کر قبول
انہی پہ کیا موقوف۔ فرانسیسی شعرا نے اشعار کے باقی رہنے والی موتی پرو دیے۔
گل دستے تھامے جنت کی حوروں نے
آسمان کی رفعتوں پہ اس کا سواگت کیا
کہ شہیدوں کے سردارکی زیارت کریں
ٹیپو کا وارث ایک نو مسلم تھا، یاللعجب ایک ڈاکو، جو اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا تھا۔ برصغیر کی مکمل ہوتی ہوئی غلامی کے پس منظر میں دو ہزار لشکریوں کے ساتھ وہ ابھرا۔ جنگلوں میں ٹھکانہ کیا اور دادِ شجاعت دیتا رہا۔
ٹیپو کی تربیت حیدر علی نے کی تھی۔ حرف آشنا بھی نہ تھا مگر علم کی عظمت اس پہ آشکار تھی۔ ایک کے بعد دوسرے استاد کا اپنے فرزند کے لیے وہ انتخاب کرتا رہا‘ تاآنکہ صیقل ہو گیا۔ ایک ہمدرد‘ شجاع ‘ غم گسار اور صاحبِ دل آدمی‘ رعایاجس پر جان چھڑکتی تھی۔ قدیم اخلاقیات میں گُندھا‘ ایک جدید آدمی‘ جس کے ماہرین نے راکٹ پر کام کیا۔ برطانیہ عظمیٰ سے ڈیڑھ سو قبل‘ جس نے سوشل سکیورٹی سسٹم نافذ کرنے کی کوشش کی۔ برصغیر کا صلاح الدین ایوبی۔ 21 مقامی زبانوں میں‘ جس پر گیت لکھے گئے...اور آج بھی لکھے جا رہے ہیں۔
اس کی اولاد انگریزوں کی تحویل میں تھی۔ آزاد اگر وہ رہتے‘ تو کیا عجب ہے کہ اور بھی کوئی گہر ڈھلتا۔
آدمی اس بات کا محتاج ہے کہ سکھایا جائے۔ نفسیات کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ شخصیت کی تشکیل میں تیس پینتیس فیصد انحصار‘ جینیات پر ہوتا ہے۔ باایں ہمہ ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ بتایا گیا کہ تمام انسانوں کے وہ امام بنا دیے جائیں گے۔ جب ان کی اولاد سے پروردگار نے جلیل القدر پیمبراٹھانے کافیصلہ کیا تو یہ بھی بتا دیا کہ ان میں بھی ایسے ہوں گے‘ گمراہوں میں جن کا شمار ہو گا۔ ''اللہ کا عہد ظالموں تک نہ پہنچے گا‘‘۔
تربیت اور تعلیم ہی سب کچھ ہے۔ امام حسنؓ ایک عظیم سلطنت سے دستبردار ہو گئے تھے کہ امت تقسیم نہ ہو۔ حسینؓ نے جان دی کہ چراغ بجھ نہ جائے۔ یزید کے دور میں سیر و شکار کی طرف لوگ مائل ہونے لگے۔ جامع اموی کے معمار ولید بن عبدالملک نے اقتدار سنبھالا تو تمام انسانی ذہانت‘ عمارتوں کی شان و شکوہ میں جت گئی۔ سلیمان آیا تو خورونوش کو پاگل پن کی حد تک فروغ ملا۔ ہرچند قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا عزم کر رکھا تھا مگر زندگی بھر کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکا۔ روشنی کی کوئی کرن مگر اس کے باطن میں باقی رہ گئی تھی۔ بسترِ مرگ پر عمر بن عبدالعزیز کو جانشین کیا۔ چہار جانب چراغاں ہو گیا۔ عدل کی فصل لہلہا اٹھی اور اس طرح لہلہائی کہ زمین نور سے بھر گئی۔
زوال کا یہ عہد ہے۔ ایک اجلے معاشرے کی آرزو‘ اہل ایمان نے کھو دی ہے۔ الحاد کی تحریکوں کا اثر ہے کہ ایک سے ایک غبی اور ایک سے ایک آوارہ فکر مسلمانوں کا لیڈر بنا، مشرق سے مغرب تک۔ ان کے تمام معاشروں میں۔ دوسری طرف مذہبی مکاتبِ فکر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنی بنائی ہوئی دلدل میں آسودہ ہے۔
قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنو
کہ ہم تو پابہ رسن ہیں‘ ابھر نہیں سکتے
آج کی بات نہیں‘ صدیاں گزر گئی ہیں کہ ادبار سے نجات کی تمنا بھی نہیں۔ اسد اللہ خاں غالبؔ نے کہا تھا۔
بے دلی ہائے تماشا کہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیں
ہمارے عہد کے ایک عظیم عالم دین نے فخر کے ساتھ یہ فرمایا تھا: ایسے لوگ ہم پیدا کرتے ہیں‘ معاشرے کا جو حصّہ ہی نہیں بن سکتے۔ مراد یہ کہ ان کے لشکر بنتے ہیں۔ عہد قدیم کے مزارعین کی طرح جو جاگیرداروں کی جنگیں لڑا کرتے۔ یہ رحمتہ اللہ علیہ پاکستان میں سیاست کرتے‘ تخلیقِ پاکستان کے گو مخالف تھے۔ فرمایا کرتے: اس گناہ میں ہم شامل نہیں۔
آخرکار ان کے ہاتھ سے وہ نکل گئے اور یہ ہو کر رہنا تھا کہ انتہا پسندی ایک بار جنم لے چکے تو آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ ''اسلامی نظام‘‘ کا ایسا تصور ان کے ذہنوں میں راسخ تھا کہ وحشت کا شکار ہو کر اٹھے۔ کوئی گھر اور کوئی دیار ان سے محفوظ نہ رہا۔ ان کی تعلیم اور تدریس یہ تھی کہ علم نہیں‘ فقط شرعی قوانین کے نفاذ ہی سے خیروبرکت کا حصول ممکن ہے۔ کسی نے انہیں یہ نہ بتایا کہ تلوار نہیں‘ اسلام تدبیر اور کردار سے پھیلا تھا۔ ایران‘ شام‘ مصر اور خراسان کی سرزمینوں میں لشکر اترے مگر کوئی فوج انڈونیشیا کبھی نہ گئی تھی۔ شمشیر کے بل پر‘ عربوں نے آٹھ سو برس تک سپین پر حکومت کی مگر دلوں کو فتح نہ کر سکے۔ علم‘ اعتدال اور انصاف کو کھو دیا تو اقتدار بھی کھو دیا۔ اقتدار کیا‘ شودروں کی طرح دھتکارے اور مجرموں کی طرح قتل کئے گئے۔
اللہ کے آخری رسول کو رحمتہ اللعالمین کہا گیا۔ اپنے دو اسم پروردگار نے انہیں عطا کیے‘ رئوف اور رحیم۔ عبدالرئوف اور عبدالرحیم نہیں بلکہ رئوف اور رحیم...کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی وہ تیمارداری کرنے گئے۔ شعبِ ابی طالب میں برسوں بنی ہاشم کے بچوں کو بھوکا رکھنے والوں کو معاف کر دیا‘ شریک اقتدار کیا۔
ان کی معنوی اولاد کو کیا ہوا۔ انہیں کیا ہوا‘ سرکارؐ کا فرمان جو سنایا کرتے ہیں کہ علمأ انبیا کے وارث ہیں؟ ان کے شاگردوں کو کیا ہوا کہ مارکیٹوں‘ مزاروں‘ امام بارگاہوں اور مینا بازاروں میں بموں کے دھماکے کرتے‘ اب اپنے اساتذہ کو قتل کرنے پہ اتر آئے ہیں۔
قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن پر طالبان کے حملوں کو الگ تھلگ واقعات سمجھا گیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری والے واقعے سے آشکار ہے کہ ایسا نہ تھا۔ ہرگز ایسا نہ تھا۔ ہر اس شخص کو واجب القتل وہ سمجھتے ہیں‘ قتل و غارت کا ہتھیار برت کر جو ''اسلام‘‘ نافذ کرنے کے درپے نہیں۔
سال گزشتہ چار عدد مدرسے‘ مستونگ میں زمین بوس کئے گئے کہ دہشت گرد ان میں پناہ لیتے تھے۔ افغانستان یا ملک کے دور دراز علاقوں سے‘ غارت گری کے لیے بلوچستان کا رخ کرنے والے۔ چمن کی سرحد کے اس پار سپن بولدک میں لشکر جھنگوی کے جانبازوں نے کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ این ڈی ایس کی سرپرستی میں۔ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران قاتلوں کے چار ایسے گروہ پکڑے گئے ‘ بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کے قتل عام کا جوعزم رکھتے تھے۔آرمی پبلک سکول پشاور ایسے چار سانحے‘ عسکری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ٹال دیے۔
2004ء میں‘ جامعہ اشرفیہ میں سینکڑوں علما کے ایک اجلاس نے دہشت گردوں کی مذمت سے انکار کر دیا تھا۔ برسوں بعد اس خبر کا حوالہ دیا تو ایک مشہور مولانا چیخ کر بولے: تم جھوٹ بولتے ہو۔ پائولو کوئیلہو کا وہی قول: غلطی نام کی کوئی چیز زندگی میں نہیں ہوتی‘ بس سبق ہوتے ہیں۔ سیکھنے سے ہم انکار کر دیں تو حیات ہمارے لیے انہیں دہراتی رہتی ہے۔
مودبانہ علمأ کرام سے سوال یہ ہے :کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا/ کتنے آنسو ترے صحرائوں کو گلزار کریں؟۔ حضور! اب تو آتش‘ آپ کے اپنے گھروں تک آ پہنچی ہے!