عاصمہ ارباب عالمگیر اور ان کے خاوند ارباب عالمگیر کے بارے میں نیب نے جو اب دو ارب روپے سے زائد اثاثے بنانے کا کرپشن ریفرنس تیار کیا ہے‘ اس کی تفصیلات پڑھتے ہوئے پتہ نہیں کیوں مجھے اپنے گائوں کا کالو قصائی ایک دفعہ پھر یاد آ گیا۔
یہ وہی عاصمہ ارباب ہیں جو آپ کو ہر وقت ہر ٹی وی چینل پر جمہوریت کے لیکچر دیتی نظر آتی ہیں۔ ایک دفعہ ارشد شریف کے ٹی وی پروگرام میں، میں نے ان کے منہ پر بتایا تھا کہ آج پبلک اکائونٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ آپ اور آپ کے شوہر نے 29 سرکاری گاڑیاں وزارتِ مواصلات کی لے کر خود رکھی ہوئی تھیں‘ جو آپ کے بچے، مامے، چاچے، بھانجے‘ بھتیجے دل کھول کر استعمال کر رہے تھے۔ شو کے بعد اپنی ایماندار کی ہزاروں قسمیں اٹھانے اور رونے لگیں۔ ارشد شریف اور عدیل راجہ اس کے گواہ ہیں۔ میں نے انہیں آنسو بہاتے دیکھ کر کہا: میں تو وہ بتا رہا ہوں جو آج پبلک اکاونٹس کمیٹی میں بتایا گیا تھا۔
دو برس قبل میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ عاصمہ ارباب نے لندن میں چار فلیٹس ان پیسوں سے خریدے ہیں جو ان کو بنکاک میں ایک چینی کمپنی نے ایک ٹھیکے کے عوض پچیس لاکھ ڈالرز کا کمشن بھیجا تھا۔ اس کے میرے پاس تمام ثبوت تھے۔ جب ان کا موقف لینے کے لیے اپنے ٹی وی شو میں فون پر لندن سے لیا تو وہ مجھ پر برس پڑیں اور چیلنج کیا اگر میں لندن میں ان کے فلیٹس ڈھونڈ نکالوں تو وہ چاروں فلیٹس مجھے اور عامر متین کو دے دیں گی۔ ان کا کہنا تھا ،یہ جھوٹ ہے اور ان کے لندن میں کوئی فلیٹس نہیں ہیں۔ خیر کچھ دن بعد میں نے وہ فلیٹس دستاویزات سمیت ڈھونڈ نکالے اور اس کے بعد دو سال سے آج تک ڈھونڈ رہا رہوں کہ ان کی ملکیت اپنے نام کرائوں لیکن عاصمہ ارباب کہیں ملتی ہی نہیں ۔
اب نیب نے کہا ہے عاصمہ ارباب اور ان کے خاوند ارباب عالمگیر نے دو ارب پچیس کروڑ روپے کی بیرون ملک جائیداد بنائی تھی اور ان کے دوبئی بینک اکاونٹس میں کروڑں روپے کیش موجود تھا جو ان کے معلوم ذر ائع آمدن سے بہت زیادہ تھا۔ خاوند ارباب عالمگیر اس وقت گیلانی صاحب کے وزیر برائے مواصلات تھے اور بیگم صاحبہ وزیراعظم گیلانی کی مشیر تھیں اور عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ میاں بیوی نے اپنے اور اپنے بچوں کے نام پر بے پناہ مال بنایا جن کی مالیت نیب کے بقول دو ارب پچیس کروڑ روپے ہے۔ عاصمہ ارباب نے اپنے نام پر ایجوئر روڈ سینٹرل لندن میں فلیٹس خریدے۔ کروڑں روپے کے پرائز بانڈز خریدے گئے، مہنگی گاڑیاں خریدی گئیں، اسلام آباد کے سیکٹر جی گیارہ اور ایف سیون میں دو مہنگے ترین بنگلے کروڑں روپے میں خریدے گئے ۔ بینکوں کے ذریعے ایک ارب چوالیس کروڑ روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئیں، نور اسلامک دوبئی میں بارہ کروڑ روپے کیش موجود تھے تو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سنگاپور میں ایک ارب اٹھاون لاکھ روپے کیش موجود تھا۔ جب کہ دوبئی میں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے ہی تیسرے اکاونٹ میں چھبیس کروڑ روپے کیش موجود تھا۔ (یہ وہی کیش تھا جو میں نے اسٹوری کی تھی کہ بنکاک میں ایک چینی کمپنی نے پچیس لاکھ ڈالرز عاصمہ ارباب کے نام پر پے آڈرز بنوا کر جمع کرائے تھے جن سے بعد میں لندن میں چار فلیٹس خریدے گئے)
یہ صرف ایک وزیر اور ان کی بیگم کی جائیداد ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں یہ سب کچھ ان کے پاس وزیر بننے سے پہلے نہیں تھا ۔ جب وہ پانچ سال کی لوٹ مار کے بعد فارغ ہوئے تو دو ارب پچیس کروڑ روپے کے مالک تھے۔ ان دونوں کے بچے اب دوبئی میں کاروبار کرتے ہیں۔ اب مجھے نہیں پتہ ان کے بچے جو دوبئی میں اپنی کمپنیاں بنا کر اس پیسے سے کاروبارکرتے ہیں، وہ اپنے والدین کے ان سکینڈلز کے بعد کیا محسوس کرتے ہوں گے اور کس طرح اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کا سامنا کرتے ہوں گے؟ ان کے دوست کیا سوچتے ہوں گے کہ ان کے والدین نے اس ملک کو ہی لوٹ لیا ، جس نے انہیں عزت دی، مقام دیا ۔ ویسے دھرتی ماں کو جو لوٹ لیتے ہوں ان کو کیا نام دینا چاہیے؟
کیا ان بچوں کے کلاس فیلوز انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہوں گے کہ آپ کے والدین نے اپنے ہی ملک کو لوٹ لیا؟ چلیں چھوڑیں رشتہ دار نہیں پوچھتے ہوں گے، کلاس فیلوز خاموش رہتے ہوں گے، اردگرد کے لوگ ایک دوسرے کو اشارے کر کے گزر جاتے ہوں گے کیا خود عاصمہ ارباب اور ارباب کے اپنے بچوں میں سے کوئی ایک بچہ بھی اپنے ماں باپ سے پوچھنے کو تیار نہیں کہ انہوں نے یہ دولت کیسے اور کہاں سے کمائی ؟
کیا یہ کہنا دینا کافی ہے کہ عالمگیر خاندان آدھے پشاور کا مالک ہے لہٰذا اسے کرپشن کی کیا ضرورت ہے؟ اپنے دوست ہارون الرشید کا جملہ یاد آتا ہے کہ امیر آدمی کو دولت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ وہ درست کہتے ہیں ۔ دیکھ لیں زرداری اور شریف خاندان کو...کتنی دولت ہے اور مزید کی نہ صرف طلب، حرص رکھتے ہیں بلکہ روزانہ نئی دولت کما بھی لیتے ہیں۔یاد آیا نیویارک آئی لینڈ میں مشتاق بھائی کے گھر رات گئے ایک ایسا واقعہ سنا کہ تین سال گزرنے کے بعد اب تک اس کی ٹرانس میں ہوں ۔کہنے لگے پاکستان سے ایک لڑکا یہاں امریکی یونیورسٹی میں پڑھنے آیا ۔ وہ کسی بڑے پولیس افسر کا بیٹا تھا۔ جب وہ امریکہ پہنچا اور اس نے امریکی یونیورسٹی کے اخراجات اور فیس دیکھی جو اس کے والد نے ادا کر دی تھی ، تو وہ کئی دن چپ رہا۔ حیران رہا اس کے باپ کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی ؟ کئی دن نیویارک کی سڑکوں پر اکیلا چلتا رہا۔ سوچتا رہا...سرگرداں رہا...اپنے آپ سے لڑتا رہا ، خود کو نوچتا رہا...صبح ہونے سے پہلے اپنے فلیٹ پر لوٹا ، باپ کو خط لکھا۔ مجھے علم ہے جو پیسہ آپ نے کما کر مجھے یہاں بھیجا ہے وہ حلال کا نہیں ہے۔ میں آپ کو سب پیسے واپس بھیج رہا ہوں ۔ میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں ان پیسوں پر پڑھوں جو آپ نے پولیس نوکری میں حرام سے کمائے ...میں یہاں ریسٹورنٹس پر ملازمت کر کے پیسہ کما کر ٹیوشن فیس دے دوں گا لیکن آپ کے بھیجے ہوئے پیسوں پر نہیں پڑھوں گا ۔پتہ نہیں آپ نے کتنے لوگوں پر ظلم کر کے وہ پیسے اکھٹے کیے اور ان لوگوں نے کس مجبوری میں اپنا کیا کچھ بیچ کر وہ پیسے آپ کو اپنی جان چھڑانے کے لیے دیے ۔
مشتاق بھائی کے ڈرائنگ روم میں پتہ نہیں کتنی دیر تک خاموشی راج کرتی رہی اور ہم دونوں کی آنکھیں نم تھیں کہ کیسے کیسے باضمیر انسان پائے جاتے ہیں ۔
لندن کے ایک پیارے پاکستانی دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ اس کی بہن اپنے خاوند کا گھر چھوڑ کر آگئی تھی کہ اس کا خاوند رشوت لیتا ہے۔ وہ ایسے گھر نہیں رہے گی جو رشوت اور حرام پر چلتا ہو۔ وہ اپنے کم سن بچے کو حرام نہیں کھلائے گی۔
اوہ کالو قصائی کا بتانا تو میں بھول ہی گیا ۔ دو ہزار آٹھ میں جب بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام شروع ہوا تو وہ گائوں کے غریب لوگوں کے لیے سینیٹر انور بیگ سے تین سو فارمز لے کر گیا۔ گائوں کے غریبوں کو دیے۔ گھر میں ایک خاتون کام کرتی تھی۔ وہ گائوں کے کالو قصائی کی بیوی تھی۔ کالو قصائی گائوں میں لکڑیاں کاٹ کر بیچتا تھا ۔ اس نے وہ فارم نہیں لیا ۔ میں نے پوچھا آپ نے فارم کیوں نہیں لیا ۔ بولی میرا خاوند کالو قصائی کہتا ہے اس نے ریڈیو پر سنا ہے کہ بینظیر بھٹو انکم سپورٹ کا پیسہ بیوہ عورتوں یا یتیموں کو مل سکتا ہے۔ نہ تم بیوہ ہو اور نہ ہی تمہارے بچے یتیم ہیں۔ میں زندہ ہوں۔ یہ پیسہ ہم پر حرام ہے۔ میں نے اسلام آباد لوٹ کر کالو قصائی پر کالم لکھا تواسے پڑھ کر اس وقت کے وفاقی وزیر برائے قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے اسے پچاس ہزار روپے بھجوائے تو بھی کالو وہ روپے لینے پر تیار نہیں تھا ۔ میں نے مشکل سے اسے راضی کیا ۔ وہ اب اپنا چھوٹا موٹا لکڑیوں کا کام کرتا ہے۔
کالو قصائی، نیویارک میں پولیس افسر کا بیٹا یا میرے دوست کی بہن ...ایسے کردار وہ ہیں جن کے سامنے عزت سے سر جھکانے کو جی چاہتا ہے...یہ وہ لوگ ہیں جو یہاں بھی سرخرو ہیں اورامید ہے کہ بفضل خدا اگلے جہان بھی سرخرو ہوں گے۔اپنا اپنا چوائس ہوتا ہے، بعض لوگ بینظیر بھٹو کے نام پر ملنے والے ووٹوں کی وجہ سے وفاقی وزیر بنتے ہیں، ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل میمن، ارباب عاصمہ عالمگیر، ارباب عالمگیر کی طرح دل کھول کر بینظیر کے نام پر ہی اربوں روپے لوٹتے ہیں۔ لندن دوبئی، یورپ تک جائیدادیں بناتے ہیں۔ جب کہ کالو قصائی جیسے لوگ بینظیر بھٹو کے نام پر ایک ہزار روپے بھی لینے کو تیار نہیں کیونکہ ان کا حق نہیں بنتا ۔ جو بات میرے گائوں کا ان پڑھ ،غریب لیکن عزت دار کالو قصائی سمجھ گیا کہ نہ اس کی بیوی بیوہ ہے اور نہ ہی بچے یتیم ...وہ بات پشاور کا ارباب خاندان، ڈاکٹر عاصم حسین ، شرجیل میمن یا پانامہ کے شریف کبھی نہ سمجھ سکے۔۔!