رئیس صاحب کو یقین دلایا گیا تھا کہ آپ ہی اب کے جماعت کے صوبائی امیدوار ہیں۔ ایک بار فراوانی شوق میں پورے چالیس ادیبوں کا وفد ترتیب دے کر وزیراعلیٰ سندھ غلام مصطفی جتوئی کے حضور پیش بھی ہو گئے تھے۔ میں نے علی بابا اور چالیس چور یاد دلائے لیکن وہاں کوئی تھا سُننے والا۔ غرض ہر طرح سے عوامی بن گئے۔ ملنے جلنے کا لُطف غارت ہو کر رہ گیا‘ ادبی برادری سے کٹ بھی نہیں سکتے تھے لیکن اب حواریوں میں نئی وضع کے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے نئے لوگ تھے اور اُن کے سرخیل اختر فیروز جیسے آبُرو باختہ۔ دلّی میں بھی سب کے بزرگ بنے ہوئے۔ رعب جھاڑتے ہوئے خاص طور پر مجھ پر۔ اختر فیروز کا آگا پیچھا میں زیادہ کیا‘ کم سے کم بھی نہیں جانتا‘ وہ پرلے بلکہ تیسرے درجے کا ''پیدا گیر‘‘ اور ''اٹھائی گیر‘‘ قسم کا آدمی ہے۔ حضرت رئیس کو اس نے بیساکھی بنا لیا ہے اور جو جی آتا ہے کرتا اور کراتا رہتا ہے۔ رئیس صاحب خود بھی کسی سے کسی بات میں پیچھے نہیں ہیں۔ خوب سیانے ہیں۔ سوجھ بوجھ اور عقل کے آدمی۔ رئیس صاحب کے متعدد شاگرد صاحب دیوان ہو چکے ہیں‘
میرے سامنے کی بات ہے۔ بارہا بڑے بوڑھوں کو غزلیں لکھ لکھ کر دیتے رہے ہیں‘ اختر فیروز کیوں نہ شاعر بنتے۔ معتبر راوی شکیل عادل زادہ ہیں۔ رئیس صاحب نے چتِون باندھا۔ اب وہ عقل کُل اختر فیروز پڑھ رہے ہیں‘ چَتون واہ واہ کا شور مچ گیا‘ مکررسہ مکرر پڑھے جا رہا ہے اختر فیروز۔ رئیس صاحب کہاں تک ضبط کرتے۔ رہا نہ گیا‘ کڑک کر کہا‘ چِتون پڑھو میاں چِتون۔ اختر فیروز سے کراچی کے تمام سنجیدہ حلقوں کو بیزار ہی پایا۔ کنور اعظم علی خاں خسروی ہمیشہ کھری کھری لکھتے ہیں۔
''اختر فیروز کو میں اُس وقت سے جانتا ہوں جب اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ میرے ہم وطن اور دوست ذہین شاہ تاجی کی چمچہ گیری سے اس کا کیریئر شروع ہوا۔ ان کے مکان پر اور خانقاہ میں جو مشاعرے ہوتے تھے ان کے انتظامات کرتا تھا۔ پھر سٹیج سیکرٹری بھی ہونے لگا۔ جب معروف ہو گیا تو ان کے نام سے ناجائز فائدے اٹھانے لگا۔ انہوں نے دھتکار دیا تو رئیس کا چمچہ بن گیا۔ میں نے رئیس کو ایک خط میں صاف صاف لکھ دیا تھا کہ یہ محض فراڈ ہے اور تمہیں بطور سیڑھی استعمال کر رہا ہے۔ وہ بھی یہ سمجھتے تو ہوں گے لیکن خوشامدپسندی تو فطری کمزوری ہے اور پھر یہ بھی یقین ہے کہ وہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا کیونکہ وہ تو خود اس فن کے گُرو ہیں۔‘‘
(اقتباس ازمکتوب خسروی بنام انیس‘ تحریر 30 نومبر 1982ء)
دو روزہ قیام دلّی میں یہ بھی کھُل چکا تھا کہ کنور سنگھ بیدی سحرؔ اور گلزار دہلوی زرتشتی میں باقاعدہ محاذ آرائی ہے اور یہ بھی ہے کہ گلزار سے ملنے والوں کو کنور صاحب اچھا نہیں سمجھتے نہ اپنا جانتے ہیں۔ اب دل ہمارے ممدوح کا اٹکا ہوا گلزار دہلوی میں‘ تقاضائے وقت کچھ اور۔ پچاس ہزار کا مسئلہ ‘کریں تو کیا‘ نہ کریں تو کیا۔ یہی کرو کہ گلزار کو اپنے اوقات کار سے بے خبر رکھو۔ دو بجے کہیں جانا ہے تو بارہ بتائو اور بارہ بجے پہنچنا ہے تو تین بتائو‘ اس کا نتیجہ خاطر خواہ نکلا۔ روزنامہ قومی آواز کے دفتر میں ہمیں بتایا گیا گلزار آپ کے انتظار میں مغز چاٹ کر ابھی گئے ہیں۔ قطعی طور پر تو گلزار نظرانداز کئے نہیں جا سکتے تھے۔ چھُپ چھُپا کے گلزار سے بھی راز و نیاز چلتے رہے۔ منصوبے بنتے رہے۔ پچاس ہزار روپے‘ شراب شام کی اور کھانا۔ یہ ہو جائے کسی طور۔ کنور صاحب نے مختلف شہروں میں مشاعروں کے انعقاد کا عمل کر دیا ہے انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بیچارے رئیس محض پیسہ بٹورنے کراچی سے چلے تھے اور وہاں گھاس خاطر خواہ ڈالی نہیں گئی۔ ہاتھوں ہاتھ لیے جانے کے خواب دیکھ کے چلے تھے۔ اب اور کچھ نہیں تو بات میں بار بار یہ جتانے کی کوشش کرتے رہے پچیس لاکھ آدمی مجھے روزانہ پڑھتا ہے۔ جنگ کے پانچ ایڈیشن نکلتے ہیں۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی غزل :
پھر اپنے خطّۂ خوابِ حسیں پہ آ گیا ہوں
جو آسماں سے اُتر کر زمیں پہ آ گیا ہوں
یہ اور بات کہ تُو ہی نہیں یہاں‘ ورنہ
یہیں پہ تونے کہا تھا‘ یہیں پہ آ گیا ہوں
جو تھی اگر تو یہی میری منزل مقصود
کہ میں جہاں سے چلا تھا‘ وہیں پہ آ گیا ہوں
اب اور اس سے زیادہ بتا نہیں سکتا
کہیں سے جا چکا ہوں اور کہیں پہ آ گیا ہوں
دھڑک رہا ہوں زیادہ اِسی لیے شاید
کہ دل ہوں اور کسی نازنیں پہ آ گیا ہوں
بنے تیرے پاس کوئی چیز میرے حصے کی
کسی گماں پہ نہیں‘ اس یقین پہ آ گیا ہوں
یہ مجھ میں اتنی بغاوت کہاں سے آئی ہے
جو ایک آن میں ہاں سے نہیں پہ آ گیا ہوں
بہادری مری ہو اور کیا کہ گھر بیٹھے
لڑے بغیر ہی فتح مُبیں پہ آ گیا ہوں
کبھی‘ ظفرؔ مجھے گمُراہ بھی تو ہونا تھا
جو چھوڑ چھاڑ کے دُنیا کو‘ دیں پہ آ گیا ہوں
آج کا مطلع
ماحول ہے کُچھ اور‘ فضا اور ہی کُچھ ہے
یک طرفہ محبّت کا مزہ اور ہی کچُھ ہے