تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     15-05-2017

زہرِ قاتل کالم

شبِ برات پر عون شیرازی نے 20 لفظوں کی کہانی بھجوائی، جو یہ ہے۔ 
رات بھر دعائیں مانگیں۔ 
استغفار کیا ، روزہ رکھا۔
صبح دوست کو فون کیا ۔
دفتر نہیں آئوں گا۔
حاضری لگا دینا۔۔۔
ایسی کہانی پر تبصرہ کرنا اسے زہرِ قاتل بنانے کے مترادف ہو گا۔ اس لیے دوسری کہانی کی طرف چلتے ہیں جو دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر زہرِ قاتل کی طرح پھیل چکی ہے ۔ 
سعودی عرب کے ایک سٹوڈنٹ نے انگلینڈ میں کمرہ کرائے پر لیا۔اُس کی کہانی اپنی زبانی کہتی ہے ؛گورے میاں بیوی اور ایک چھوٹا بچہ ۔فیملی انتہائی مہذب ، سٹوڈنٹ کا فیملی ممبرکی طرح خیال رکھا ۔ ایک چھٹی کے دن میاں بیوی کو اچانک باہر جانا پڑ گیا ۔ پوچھا آپ گھر پر ہیں،40 منٹ کے لیئے بچہ سنبھال سکتے ہیں؟ جواب ہاں میں ملا۔ میاں بیوی، بچہ سعودی سٹوڈنٹ کے حوالے کر کے فوراََ گھر سے نکل گئے۔ تھوڑی دیر بعدکچن سے بچے کی چیخ سنائی دی، سٹوڈنٹ دوڑ کر پہنچا سامنے گلاس کی کرچیاں پڑی تھیں۔ بچہ سخت ڈرا ہوا ۔ سٹوڈنٹ نے بچے کو حوصلہ دیا کہا، ڈرو مت، امی ابو آئیں تو کہنا گلاس میں نے نہیں توڑا ،سٹوڈنٹ سے ٹوٹا ہے ۔ والدین پہنچے بات آئی گئی ہو گی۔شام کو چھوٹا بچہ سٹوڈنٹ کے پاس آ گیا۔ کہنے لگا میں جھوٹ نہیں بول سکتا پاپا ماما کو سب بتا دیا ہے۔ سٹوڈنٹ ہکا بکا رہ گیا۔ اگلی صبح وہ کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا ۔ کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ سامنے گوری کھڑی تھی، کہا'' گُڈ مارننگ‘‘ آپ بہت اچھے تھے ۔ آپ کے پاس 24 گھنٹے ہیں کوئی اور کمرہ ڈھونڈ لیں۔ کیونکہ آپ سچ نہیں بول سکتے۔ آپ نے ہمارے بچے کا کردار بگاڑا۔ اسے جھوٹ بولنے کی تربیت دی ۔ آپ نے ہماری 8 سال کی محنت ضائع کر دی۔ آپ کا شکریہ۔ !
اس کہانی کا زہرِ قاتل یہ ہے کہ گورے کون ہوتے ہیں ہمیں سچ سکھانے والے، کافر کہیں کے۔ منکر ،مشرک، جہنمی ہمارے اخلاق ، اقدار، کلچر، روایات کے دشمن۔ ننگی فلمیں بنا کر دیکھنے کے لیئے ہمیں بھجوا دیتے ہیں۔ زہرِ قاتل ملا کر ہمیں پولیو کے قطرے پلاتے ہیں ۔ انہیں نہ کوئی شرم آتی ہے نہ کوئی حیا۔ یہ بے شرم ہمیں3 سال میں 70 ار ب ڈالر قرضہ دے گئے۔ فرنگیوں کی بے شرمی کی حد تو دیکھئے وہ خوب جانتے ہیں، ہم ان کے ڈالروں سے نفرت کرتے ہیں۔ خالص اسی وجہ سے ہمارے پاس صرف وہ ڈالر آتے ہیں جو پردیسی پاکستانی کما کر دور دیس سے وطن بھیج رہے ہیں۔ باقی ہر طرح کے ڈالر کبھی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اے ڈی بی ، کبھی یوایس ایڈکبھی جائیکا زبردستی آ کر ہمارے غیرت مند حکمرانوں کے سامنے پھینک جاتا ہے ۔ بے شرمی اور بے حیائی کی کوئی حد ہے نہ حساب۔ جانتے ہیں ہم نے کشکول توڑ دیا ۔ تب بھی ڈالر دینے سے باز نہیں آتے۔ ڈالروں سے شاکر شجاع آبادی یاد آئے۔ ہماری ڈالروں سے '' قومی‘‘ نفرت پر ان کی مطبوعہ تازہ سرائیکی غزل ڈالروں کے زہرِ قاتل کیخلاف ہے ۔
خدایا خود حفاظت کر ، تیڈا فرمان وِکدا پئے
کتھائیں دین دا سودا، کتھائیں ایمان وِکدا پئے
کتھائیں ملاں دی ہٹی تے، کتھائیں پیر دے شوکیس اِچ
میڈا ایمان بدلیا نی، مگر قران وِکدا پئے
اِتھاں لیڈر وپاری ہن، سیاست کارخانہ ہے
اِتھاں ممبر وکائو مال اِن، اِتھاں ایوان وِکدا پئے
میڈے ملک اِچ خدا ڈالر، میڈے ملک اِچ ولی پیسہ
اِتھاں ایمل نہ کئی آوے، اتھاں مہمان وِکدا پئے
نی ساہ دا وِسا شاکر، وَلا وی کیوں خدا جانٹے
ترقی دی ہوس دے دچ، ہر ہِک انسان وِکدا پے
جب سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا آیا ،ہماری جمہوریت اور زہرِ قاتل کے درمیان اصولوں کی جنگ چِھڑ گئی۔ظاہر ہے جمہوریت حق پرست ہے۔ جس کے خلاف ہر طرح کے لوگ سازش کرتے ہیں۔ ابھی کل ہی جمہوری سرکار نے فرمایا فوج کے منہ میں گھی اور آئی ایس پی آر کے منہ میں شکر۔ کون کہتا ہے سکیورٹی لیک ہوئی تھی ؟کس نے کہا وزیرِاعظم ہائوس سے ہوئی؟ یہ سب ٹی وی پر بیٹھے اینکرز کا پراپیگنڈا ہے۔ چند سابق فوجی (جن میں مشرف دور کے گورنر بلوچستان جنرل عبدالقادر بلوچ، پی ایم کے سابق اے ڈی سی سینیٹر جنرل عبدالقیوم اعوان ، نوازشریف کی سلامتی کے قومی خرچے پر مشیر جنرل ناصر جنجوعہ ، لاہور کے کرنیل مئیر، مختلف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں اور سزا پانے والے فوجی جرنیلوں کے وہ بیٹے جوضیا ء اور مشرف کی کابینہ کے جمہوری وزیر تھے اور اسی لیے وہ اب بھی کف گیر وزیر شذیر ہیں، شامل نہیں)۔جو اپنے آپ کو آج بھی فوجی سمجھ کر فوجیوں کے زہرِقاتل کی حمائت کرتے ہیں۔
اگر کوئی کم عقل آج یہ کہے کہ ٹویٹر پر دیا گیا پیغام زہرِقاتل ہے تو ایسے دیوانے کی بڑکون سنے گا؟۔اس طرح کی یاوہ گوئی، ہذیان،بکواس کی گنجائش مہذب جمہوریت میں شا ئستہ زبان بولنے والوں کے ہاںبالکل نہیں ۔اتنی شائستہ حکومت جس نے قوم کے اس زہرِقاتل مطالبے کو فوراََ رد کر دیاکہ وزیرِ خارجہ لگادو۔ظاہر ہے انڈیا کے سریا ساجن اور جنگلہ جندال کے ہو تے ہو ئے فل ٹائم وزیرِخارجہ مودی اور نواز شریف کے درمیان جَھک نہیں مارے گا تواور کرے گاکیا؟
جَھک مارنے سے یاد آیا، جمہوریت ج سے شروع ہوتی ہے لیکن جَھک کبھی نہیں مارتی ۔ویسے ہی جیسے جمہوریت اور جھوٹ میں ج مشترک ہونے کے با وجود جمہوریت جھوٹ کو زہرِ قاتل جانتی ہے۔جسے یقین نہ آئے وہ وزارت نہ بجلی نہ پانی کا بیان پڑھ لے کہ لوڈشیڈنگ صفرہو گئی۔ وزارت ِتجارت کی خوش خبری سن لے مہنگائی ختم ہو گئی۔ وزیرِاعظم 90 والی قیمتیں واپس لے آئے۔کچھ لوگ خادمِ اعلیٰ اور خادمِ اعظم کے رمضان پیکج کیخلاف زہرِ قاتل پراپیگنڈا کر تے ہوئے زہرِ قاتل پھیلا کر کہتے ہیں ۔کینیڈا،لندن،آسٹریلیا،فرانس، جرمنی، ہالینڈ، امریکہ سمیت کافر ادا ملکوں میںرمضان بازار کھل رہے ہیں۔جہاں کھانے پینے کی سو روپے کی چیز کہیںچھ میں کہیںدس روپے میں تو کہیں با لکل مفت ۔
اس زہرِ قاتل کی وجہ سے جمہوریت کے سر پر حاجی مرغ پلائو،انڈہ کاری،جمہوری پکوڑا،زہرِ قاتل سے پاک پھینی،کھجلہ،فروٹ اور سبزی کو محنت سے چھپا کر رکھنے ۔پھر انتہائی دیانت داری سے دس روپے کی چیزکو صرف سو میںبیچنے والے پار سا ،متقی اور عبادت گزاروں کو رمضان کے آخری عشرہ،عمرہ اور زیارات کی سہولت سے محروم رکھنے کی زہرِقاتل سازش ہے۔ہماری دین دار، روزہ دار جمہوریت نے ملک بھر کے نیک سرشت،عوام دوست،غریب پروراور حاتم طائی مزاج رکھنے والے تا جروں کو یقین دلایا،ہم مغربی ملکوں کی قیمتوں میں گڑ بڑ والی عالمی سازش کو چھاتی سے روکیں گے۔ اگر نہ روک سکے تو چاند رات کو ہمارا نام بدل دینا۔
کچھ زہرِ قاتل والے قلم کار بار بار زہرِقاتل کا ذکر کر کے ہماری پردہ دار، شرمیلی جمہوریت کو چھیڑتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے قرض اُتارو ملک سنوارو کے ڈالروں کاذکر کرنے والے۔اس لیے وزیرِاعظم ہائوس کی نہ میٹنگ لیک ہوئی،نہ ایٹمی جمہوریہ کی سکیورٹی بریچ ۔نہ فوج کے خلاف حکومت نے کہا سکیورٹی ایجنسیوںکی کار کردگی پر سنجیدہ سوال اُٹھ گئے ۔وزیرِ اعظم ہائوس کے نام پر نجا نے کس نے زہرِقاتل بیان میںکہا وزیرِ اطلاعات فارغ ہو گئے۔زہرِقاتل کا سلسلہ رُکا نہیں ۔کسی عوام دشمن نے خواہ ،مخواہ نوٹیفکشن جاری کر کے فاطمی کو امریکہ بھیجا اور تحسین پر، داد و تحسین کے ڈونگرے بر سائے۔زہرِ قاتل پھیلانے والے یاد رکھیں۔پا نا ما کا ہنگامہ جھوٹا ڈرامہ ہے۔اور لہٰذا مت بھولیں ،ان غریب و غربا خواتین و حضرات کو جن کے پاس نہ لندن میںکوئی جائیداد ہے اور نہ ہی پاکستان میں۔ رمضان شریف زکوٰۃ کا مہینہ ہے فطرانہ کا بھی۔ ایسے غریبوں اور مسکینوں کو زکوٰۃ اور فطرانہ بھجوا کر جنت میں فلیٹ بُک کروانے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
ذات ان کی دُھوپ چھائوں،بات ان کی نُون ،قاف
جی میں آتا ہے لکھوںمیں سب حقائق صاف صاف
ڈال کر ما تھے شکن پھریہ گروہِ مالِ مست
بول اُٹھتا ہے کہ یہ، ہے کا فرانہ اختلاف
میں اُلٹتا ہوں جو اُن کے کالے چہروں سے نقاب
ٹاپتے پھرتے ہیں نیزے تان کر میرے خلاف
ٹَل نہیں سکتا کبھی لوگوـ! قضا کا فیصلہ
کر نہیں سکتی مشیت ،بد معاشوں کو معاف

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved