تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     15-05-2017

مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے :نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا:''تمہاری عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت ہے ،یہود نے اُن سے بغض(میں حد سے تجاوز) کیا یہاں تک کہ اُن کی والدۂ ماجدہ (عفیفہ ،طیبہ، طاہرہ)حضرت مریم رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھا اور نصاریٰ نے اُن سے محبت میں حد سے تجاوز کیا،یہاں تک کہ انہیں وہ مقامِ (الوہیت ) دیا ،جو درحقیقت اُن کا مقام نہ تھا ،پھر فرمایا: نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایاکہ میرے بارے میں (افراط وتفریط کے سبب)دو اشخاص ہلاک ہوجائیں گے ،(ایک وہ )جو میری محبت میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے میری طرف وہ شان منسوب کرے گا ،جو درحقیقت مجھ میں نہیں ہے اور(دوسراوہ )جو (میرے مقام کو گراتے ہوئے ) مجھ سے انتہائی بغض رکھے گا (اور ) اس کی مجھ سے نفرت اُسے مجھ پر بہتان تراشی پر ابھارے گی ،(مسند احمد:1376)‘‘۔
نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام سے محبت میں اس درجہ غلو کیا کہ انہیں ''ابنُ اللہ ‘‘کہا اور بعض نے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اَحَدِیَّتِ مُطْلَقَہ کو ''اَقَانِیْمِ ثَلاثَۃ‘‘ یعنی الوہیت کے تین اصول یا مظاہر میں تبدیل کر کے شرک کا ارتکاب کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(۱): ''اوریہود نے کہا: عزیر اللہ کے بیٹے ہیںاور نصاریٰ نے کہا: مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ، یہ محض اُن کے منہ سے کہی ہوئی (بے سروپا) باتیں ہیں، یہ اپنے سے پہلے کافروں کی سی بات بناتے ہیں ،ان پر اللہ کی مار ہو،یہ کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہیں، (التوبہ:30)‘‘۔ (2)''بے شک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا:یقینا اللہ تین میں کا تیسرا ہے ،حالانکہ ایک معبودِ برحق کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اوراگر وہ اپنی ان کفریہ باتوں سے باز نہ آئے تو جو لوگ کافر ہوگئے،اُن کو ضروردردناک عذاب پہنچے گا ، (المائدہ:73)‘‘۔
الغرض کسی کی محبت یا نفرت میں غُلو اور افراط وتفریط کے سبب انسان فکری توازن کھو بیٹھتا ہے اور عدل کا دامن چھوڑ دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو!تم اللہ کے لیے انصاف کے ساتھ گواہی پر قائم رہنے والے بن جائواور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس کے ساتھ نا انصافی کرنے پر برانگیختہ نہ کرے ،تم (ہمیشہ )انصاف کرتے رہو اور انصاف کرنا تقوے کے زیادہ قریب ہے اور اللہ ہی سے ڈرتے رہو ،بے شک اللہ کو تمہارے کاموں کی اچھی طرح خبر ہے ،(المائدہ:8)‘‘۔
آج کل ہم اسی اِفراط وتفریط میں مبتلا ہیں اور جو شخص کوئی پوزیشن اختیار کرلیتا ہے ،وہ اس زعمِ باطل اورخوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہی راستی پر ہے اور اُسی کی فکر صائب ہے ۔بہت سے لوگ اپنے تئیں ہماری مسلح افواج کے محبِّ صادق اوراُن کے مفادات کے امین ہیں ۔ کسی درپیش مسئلے میں جی ایچ کیو یا مسلّح افواج کی ادارتی سوچ کیا ہے ،یہ حضرات اُس کے خود ساختہ ترجمان بن جاتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ جی ایچ کیو کی چار دیواری کے اندر ایک لاوا پک رہا ہے ۔ہماری دانست میں یہ پاکستان کے سب سے مستحکم اور طاقتور ادارے کے ساتھ زیادتی ہے اور ایسے لوگ نادان دوست یا دوست نما دشمن ہوتے ہیں ،یہ کھلے دشمن سے زیادہ ضرر رساں ہوتے ہیں ۔والٹیئر کا قول ہے: ''مجھے میرے دوستوں سے بچائو ،دشمنوں سے بچنے کا انتظام میں خود کرلوں گا‘‘۔اسی مقولے کے پہلے حصے''مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘ کو سجاد حیدر یلدرم نے اپنے ایک افسانے کا عنوان بنایا تھا ۔سو آج کل جی ایچ کیو دوستوں کے نرغے میں ہے اور ہمارے بے حد آزاد میڈیا کا من پسند موضوع اور مرغوب روحانی غذا مسلّح افواج کی ناموس کا تحفظ ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری بہادر مسلّح افواج جو ہمارے ملک کی سلامتی کی ذمے دار ہیں ،کیا انہیں اپنی ناموس کے تحفظ کے لیے کسی اور کی مدد درکار ہے ،ایسے طبقات پر جناب نذیر ناجی گزشتہ سالوں میں غیرت بریگیڈ کا طعنہ کستے رہے ہیں۔
میں نے عالمی میڈیا کے کسی چینل پر اس طرح کی بحثیں ہوتی نہیں دیکھیں کہ اپنے ہی ملک میں آئے روز ادارتی تصادم کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہو اور یہ تاثر دیا جارہا ہو کہ سوِ ل حکومت اور مسلّح افواج ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں ،کسی بھی وقت نظام کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور سوِل حکمرانوں کو گھر بھیج دیا جائے گا،وغیرہ۔اس وقت ریاستی اداروں کا ٹکرائو ہمارے وطنِ عزیز کے مفاد میں نہیں ہے ، بلکہ سب اداروں کا دشمن کے مقابل ایک موقف اپنانااور ایک پوزیشن پر ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔لہٰذا مسلّح افواج کوچاہیے کہ اپنے اِن غالی مُحبّینکو کسی نہ کسی انداز سے شٹ اَپ کال دیں اوراپنے اِن نادان دوستوں سے چھٹکارا حاصل کریں تاکہ وطنِ عزیز میں داخلی انتشار کا یہ سلسلہ رُک جائے ، کنفیوژن کا خاتمہ ہواور ملک میں داخلی استحکام کا تاثر پیدا ہو۔ 
میں بارہا لکھتا رہا ہوں:'' اس طرح کے دعوے کہ دہشت گردی کے خلاف برپا جنگ میں ہم نے حتمی فتح حاصل کرلی ہے اور اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فتنہ سر نہیں اٹھاسکے گا، یہ خوش فہمی یا حسین خواب تو ہوسکتا ہے ،واقعاتی حقیقت نہیں ہے‘‘۔دہشت گردی کے واقعات میں وقفے کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں ،اسی طرح دہشت گردی کی شدت(Intensity)میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے،لیکن اس کا مکمل خاتمہ آسان نہیں ہے ، کیونکہ اس میں پہل کرنے کے مقام اور وقت کا انتخاب دہشت گردوں کے پاس ہوتا ہے ۔البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری سلامتی کے اداروں اور مسلّح افواج نے بہت بڑی قربانیاں دے کردہشت گردی اور فساد کا سدِّ باب کرنے میں مُعتَد بہ کامیابیاں حاصل کیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری بہادر افواج دہشت گردوں پر صرف اوپر سے بمباری یا طویل فاصلے سے راکٹ چلاکر انہیں ہدف بنانے تک محدود نہیں رہتیں ،بلکہ میدان میں بھی اُن کا صفایا کرتی ہیں اور اُن کے مقابل صف آرا ہوتی ہیں۔ یہ حوصلہ امریکی اور مغربی افواج میں کم پایا جاتا ہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ جدید ترین سامانِ حرب ، سراغ رسانی کے وسائل اور سپر ٹیکنالوجی سے وہ ٹارگٹڈ آپریشن کرلیتے ہیں اور یہی اُن کا پلس پوائنٹ ہے۔
چنانچہ جمعۃ المبارک کے روز عین اُس وقت جب لوگ نمازِ جمعہ کی تیاری کر رہے تھے ، بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ رونما ہوا ۔سینیٹ کے ڈپٹی چیرمین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر دہشت گردی کا حملہ ہوا ،مولانا تو اللہ کی تقدیر سے بال بال بچ گئے ،لیکن اُن کے پچیس ساتھی جاں بحق ہوگئے اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، اس سے معلوم ہوا کہ خطرات بدستور موجود ہیں اور ہمارا وطن دشمن کی تخریب کاری کے نشانے پر ہے،یہ سب واقعات قابلِ مذمت اور افسوسناک ہیں ۔اس سے پہلے سرحد پرچمن کے قریب افغانستان کی طرف سے دراندازی ہوئی اورمتعدد افراد جاں بحق ہوئے اور کئی زخمی ہوئے۔دہشت گردی سے دنیا کی تطہیر کا دعویٰ تو امریکہ اور یورپ بھی اب تک نہیں کرسکے ،حالانکہ اُن کا دعویٰ ہے کہ ہم اپنے سٹیلائٹس پر نصب کیمرے کی آنکھ سے زمین پر چار سنٹی میٹر سائز کی چیز کو بھی دیکھ سکتے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اُن اصحابِ رسول میں شامل ہیں ،جن کے تفسیری اقوال سب سے زیادہ ہیں ۔ ایک بار حضرت سلیمان علیہ السلام اور ہُد ہُد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہُد ہُد پرندہ سلیمان علیہ السلام کے لشکر کے آگے آگے جاتا تھا اور جہاں زیرِ زمین پانی ہوتا ،وہ اُس کی نشاندہی کرتا اور حضرت سلیمان علیہ السلام وہیں اپنے لشکر کا پڑائو ڈالتے تھے۔اس موقع پر ایک خارجی نافع بن ازرق نے کہا: اے مردِ دانا!ذرا ٹھہریے ، یہ تو بتائیے کہ ہُد ہُد کو زیرِ زمین پانی نظر آجاتا تھا ، مگر زمین پر بچھا ہوا جال نظر نہیں آتا تھا؟۔حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: کیا تو نہیں جانتا کہ جب اللہ کی قضا آتی ہے تو بصارت بھی کام نہیں کرتی ۔
امریکہ کی ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرز پر ہمیں اپنے تمام فوجی، سوِل ،وفاقی اور صوبائی انٹیلی جنس اداروں میں مرکزیت پیدا کرنے اور انتہائی مخفی ہاٹ لائن قائم کرنے کی ضرورت ہے ،انٹیلی جنس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ ایک مرکزی قیادت کی بھی ضرورت ہے ۔نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی یعنی'' قومی ادارہ برائے سدِّ جارحیت ‘‘اِسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا ،لیکن بوجوہ یہ فیض رساں ثابت نہیں ہوا یعنی ڈیلیور نہیں کرسکا۔ہمارے مقتدر اعلیٰ دفاعی اور سوِل دماغوں کو ایک بار پھر مل بیٹھنے کی ضرورت ہے اور جن وجوہ کی بنا پر نیکٹا فعال نہیں ہوسکا، اُن کے ازالے کی ضرورت ہے اور یقینا ایک سینٹرفارکمانڈ اینڈ کنٹرول کی بھی ضرورت ہے ،جو چوبیس گھنٹے فعال رہے۔اس کے لیے اگر کچھ ذہین دماغوں کو معروف بین الاقوامی اداروں میں تربیت دلانے اور جدید آلاتِ سراغ رسانی کی ضرورت ہے ،تو اُس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔دہشت گرد انتہائی سنگدل ہوتے ہیں ،بے قصور بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے پر بھی اُن کی انسانیت اور آدمیت نہیں جاگتی ۔شقاوت ،قَساوت اور جذبۂ انتقام اُن کے دل ودماغ پر اس قدر حاوی ہوتا ہے کہ رحم اُن کے دلوں سے نکل جاتا ہے، وہ اپنے دفاع کے لیے بے قصور انسانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔لہٰذا ایسے شیطان صفت اور ابلیسی ذہن اور رویّوں کے حامل لوگ کسی رُو رعایت اور ترحّم کے مستحق نہیں ہیں،ان کے خلاف تمام انسانی ،سائنسی ، مادّی ومالی وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved