تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-05-2017

ما ں! مجھے ہمیشہ یاد رکھنا

ہر جانب کہیں مائوں کے عالمی دن کی منا سبت سے پروگرام نشر کئے جا رہے ہیں تو کہیں مائوں کو تحائف کی بھر مار کرتے ہوئے مادیت پرستی کے مناظر دکھائے جا رہے ہیں‘ کوئی اپنی ماں کیلئے تاج محل کی طرح سرمائے کی نمائش کر رہا ہے تو کہیں پر کوئی ماں فقط روٹی کے چند ٹکڑوں کیلئے سخت گرمی میں مشقت کرتے ہوئے اپنے جسم و جاں کو آگ کے ایندھن میں جھلسا رہی ہے۔
دنیا بھر میں جب مائوں کا عالمی دن منایا جا تا ہے تو اپنی ماں کی تصویر کو دیکھتے ہوئے خود سے سوال کرتا ہوںکیا ماں کی محبت ایک دن پر محیط رہ سکتی ہے؟ اور ماں ہمیشہ کی طرح نرم اور شفقت بھری مسکراہٹ چہرے پر لئے ہوئے کہہ رہی ہوتی ہے یاد رکھنا ماں خدا کا روپ ہے جیسے تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھائوں اور بے غرض پیار کے بحر بے کناں کا سا کوئی نام دیا جائے تو اسے ماں کہہ کر پکارا جاتا ہے جس کی گود نرم ولطیف حرارت اور مد ہوشی کی برسات سے بھری ہو تی ہے ۔ماں کا دل اﷲ نے اس خاص انداز سے ترتیب دیتے ہوئے اس کی وسعتیں اس قدر بیکراں کر دی ہیں کہ دونوں جہاں کی محبتیں بھی سمٹ جا ئیں تو کم ہیں۔ ماں کی محبت اور ایثار میں کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہوتی۔ قرآن میں ہے کہ '' اے میرے پروردگار! میرے والدین پر رحمت کرناجس طرح انہوں نے مجھ کو بچپن میں رحمت اور شفقت کے ساتھ پالا تھا‘‘۔ انتہا یہ ہے کہ اﷲ اپنے بندوں سے اپنی بے مثل محبت کا اظہار ماں کی محبت کی مثال دے کر فرماتے ہیں۔ انسان ،چرند اور پرند اور کسی بھی نسل کی ماں کو اس کے بچے کی پیدائش کی پہلی گھڑی سے دیکھ بھال کرتے ہو ئے دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ پیدا کی گئی یہ مخلوق کس قدر بے بس اور لاچار ہوتی ہے اور پھر یہی ماں اسے توانا اور جوان کرتی ہوئی اپنی عمر گزار دیتی ہے ۔ 
مائوںکا تعلق اﷲ کے اس احساس سے ہے جو بڑا ہی پیار کرنے والا،محبتیں لٹانے والا ہے۔ اس احساس سے گوندھی ہوئی شفیق اور مہربان مائیں جو اپنے اندر چاہتوں کا سمندر لئے رہتی ہیں جب بچھڑ تی ہیں تو گھروں سے باہر رہنے اور دیر سے گھر آنے پر رتوں کے بدلنے سے موسموں کے آنے جانے سے دنوں کے الٹ پھیر سے زمانے کے تغیر تبدل سے سب کچھ بدل جاتا ہے اور جب ماں بچھڑتی ہے تو اس کی جدائی کا گھائو نہ تو بھرتا ہے اور نہ ہی حالات و واقعات کی کروٹیں ماں کی جدائی کے صدمے سے توجہ ہٹا سکتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا بڑی خوبصورت اور بڑی دلفریب ہے۔ زاہد و عابد بھی اس کی رعنائیوں میں کھو جاتے ہیں مگر یہ رعنائیاں ماںکا نعم البدل نہیں بن سکتیں۔ ایک پیدائشی اندھا جو دنیا کی کسی تخلیق کو نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اس سے دنیا کی تمام رنگینیاں سارا حسن و جمال ساری دلکشی چھن چکی ہوتی ہے وہ صرف اپنی ماں کے وجود سے ہی اس دنیا کی رعنائیاں اور حسن وجمال کا احساس قائم رکھتا ہے۔ ماں کبھی بھی اپنی وفائوں کا صلہ نہیں مانگتی جس گھر میںماں ہو تی ہے اس کا ہر گوشہ پھولوں کی مہک سے بھرا رہتا ہے ماں سارے دکھوںکو اپنے سینے سے لگائے رکھتی ہے مگر اولاد کو زندگی کی ہر دھوپ اور لو سے محفوظ رکھتی ہے ۔
ماں کوئی بھی ہو اولاد کیلئے نعمت عظیم ہے۔ فرمان رسول اﷲﷺ ہے کہ ''اگر میں اپنے والدین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیتا اور میں نماز میں سورۃ الفاتحہ پڑھ چکا ہوتا اوراس حالت میں اگر میری ماں مجھے آواز دیتیں تو میں نماز چھوڑ کر فوراََ کہتا‘ اماں جی میں حاضر ہوں‘‘۔کتنی عظیم ہے ماں اور کتنی عظیم ترین ہوتی ہے ماں کی ممتا۔ خود خدا نے صفا اور مروہ کو ماں کی محبت اور ایثار کی علامت کے طور پر فریضہ حج کا لازمی رکن بنا دیا ورنہ ان دو چھو ٹی چھوٹی سی ویران پہاڑیوںمیں کیا تھا؟۔ صرف اس لئے کہ وہاں ایک متفکر اور پریشان مامتا تھی جو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کوپیاس سے تڑپتا دیکھ کر پانی کے چند قطروں کیلئے شدید گرمی میں سنگلاخ چوٹیوں پر پانی کی تلاش میںادھر ادھر آگے پیچھے بھاگتی پھر تی رہی اور پانی کی تلاش میں لگائے جانے والے وہ سات چکر اﷲ کو اس قدر پسند آئے کہ ''ایک ماں‘‘ کے اپنی اولاد کو پانی پلانے کیلئے لگائے جانے والے سات چکروں کو قیامت تک تمام مسلمانوں کیلئے طریقہ عبادت بنا دیا ،صرف اس لئے کہ ماں کی محبت رب کے روپ جیسی ہے۔ 
ایک دن میں نے اپنے رب سے پوچھا کہ پروردگار ماں کیا ہوتی ہے؟ تو سورہ لقمان میں اس طرح جواب آیا ''جس نے اپنی اولاد کو اپنے پیٹ میں رکھا اور کمزوری پر کمزوری جھیلی اور دو برس تک اپنا دودھ پلایا اور چھڑایا اس پر میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کیاکرو ‘‘۔۔۔ماں کائنات کا ایک راز ہے اسے بیان کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا خوشبو کو مٹھی میں بند کرنا یا کسی کو ہوا کا رنگ دکھانا۔ اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے جب ماں نے بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود پوری طاقت سے مجھے اپنی گود میں لے کر بھینچا تونہ جانے کتنا وقت گزرگیاجس کا احساس نہ تو ماں کو ہوااور نہ ہی مجھے جو اس کی اولاد تھا ۔ نہ جانے کتنی دیر بعد جب نظر اٹھا کردونوں نے ایک دوسرے کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھا تو ماں اور بیٹے دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے او ر ہم دونوں جان چکے تھے کہ یہ آنسوہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہونے کے تصور کے آنسو ہیں۔ اپنی ماں کے ساتھ میں بھی جان گیا کہ اب ہمارے بچھڑنے کی گھڑیاں قریب ہیں نہ جانے کیسے میری زبان پرقرآن کی یہ آیت مبارکہ آ گئی '' اے اطمینان والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی اور میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں چلی جا‘‘۔اور چند گھنٹوں بعد میری ماںکی پاکیزہ روح زندان بدن سے آزاد ہو کر اس عظمت والے کرسی نشین کی بارگاہ میں پہنچ گئی جس کی کرسی کی شان اور پاکیزگی کی وہ عمر بھر رات گئے تک تلاوت کرتی رہتی تھی اور جس کرسی والے سے وہ اپنی زندگی میں اکثر ہم کلام ہوا کرتی ۔ جب ماں کے جنازے کو اٹھانے سے پہلے ان کے آخری دیدار کیلئے چہرے سے کفن کی چادر سرکائی تو چہرے کے گرد تقدس کا ہالہ دیکھ کر میری آنکھوں کے خشک ہوئے آنسو برسات کی طرح ایک بار پھر بہہ نکلے آنسوئوں کی جھڑیاں کچھ تھمیں تو اپنی ماں کے پائوں چومنے ان کی پائنتی بیٹھ گیا لیکن پھر سوچ کر رک گیا کہ'' کیوں میرے لب سے ہوں جنت کے نشاں آلودہ‘‘۔ 
اپنی ماں کے کمزور اور مشفق ہاتھ کا لمس اب بھی یاد آتا ہے‘ اپنی پیشانی پر ان کا دیا گیا آخری بوسہ یاد آتاہے اور پھر دور بہت دور نکل جاتا ہوں اپنے بچپن کی جانب اپنی شرارتوں کی جانب جن سے ماںغصے میں آکر ابلتے ہوئے دوہاتھ لگاتی تھی تو یقین جانئے بدن کے قریب آتے ہی وہ ہاتھ اس قدر سست ہو جاتے لگتا تھا ان ہاتھوں میں طاقت ہی نہیں رہی ۔۔۔۔ماں میں تو دنیا کے جھمیلوں میں اکثر بھول جاتا ہوں۔۔۔لیکن تم مجھے کبھی بھی نہ بھولنا مجھے ہمیشہ یاد رکھنا‘ اپنے پاس رکھنا!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved