تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-05-2017

ڈارون کا نظریہ ٔ ارتقا …(1)

پچھلے ہفتے پرندوں کی چونچ سے متعلق Yaleاور Harwardیونیورسٹی کے سائنسدانوں کی طرف سے کیے گئے دلچسپ تجربے پر لکھا تھا۔ انہوں نے پرندوں کے جینز کا دوسرے جانداروں کے جینز سے موازنہ کیا ۔ چونچ بنانے والے جینز ڈھونڈے اور انہیں ساکت (silent)کر دیا۔ نتیجہ حیرت انگیز تھا ۔ نئے بننے والے چوزوں میں چونچ کی جگہ جبڑے موجود تھے ۔ کسی حد تک ان کی شکل ڈائنا سار سے مشابہ ہو گئی ۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں ڈائنو چک (Dino Chick)کانام دیاگیا۔ یہ تحقیق جرنل Evolutionمیں شائع ہوئی ۔ اس ساری تحقیق پر اکسانے والی تحریک ایک فاسل سے ملی تھی ، جس کی شکل ڈائنا سار جیسی لیکن اس کے جسم پہ پر موجود تھے ۔ یہ بھی عرض کیا کہ ایولوشن میں ایک تحقیق /تجربہ شائع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف وہ اعلیٰ ترین معیارات پہ پوری اترتی ہے بلکہ اب پوری دنیا کے سائنسدان اس کا جائزہ لے کر اپنی ماہرانہ رائے پیش کر سکتے ہیں ۔ Yaleاور Harwardیونیورسٹی کے سائنسدانوں نے صرف ایک کہانی بیان نہیں کی بلکہ انہوں نے ان جینز کا نام بتایا جو کہ پرندوں میں تو موجود ہے لیکن مینڈک یا دوسرے جانداروں میں نہیں ۔ جو چونچ بنانے کا کام کرتے ہیں ۔ انہیں ساکت (silent)کیسے کیا گیا، یاایک جاندار میں کچھ مخصوص جینز کو کیسے ساکت (silnt)کیا جاتاہے ، یہ سائنسدانوں کو معلوم ہے ۔ مزید یہ کہ دوسری بڑی لیبارٹریاں یہ تجربات دہرا کر دیکھیں گی ۔ اگر تو یہ طوطا مینا کی کہانی ہوئی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا (Evolution)جرنل پر بدنامی کا ایک ایسا داغ لگے گا جو وہ ساری زندگی دھو نہیں سکے گا۔ عشروں میں جو ساکھ بنی تھی ، وہ خاک میں مل جائے گی ۔ مزید یہ کہ جن سائنسدانوں نے یہ طوطا مینا کی کہانی سنائی ہوگی، بڑے ادارے ان پر پابندی لگا دیں گے ۔ اپنی سائنسی دنیا میں وہ ایک مذاق بن کر رہ جائیں گے ۔یہ سب ایسا ہی ہے ، جیسا کہ ''انجینئر‘‘ وقار نے جب پانی سے گاڑی چلانے کا افسانہ سنایا تو بڑے بڑے لوگ تالیاں بجانے لگے۔ پھر ڈاکٹر ثمر مند مبارک گئے ، اس سے سوال جواب کیے ، گاڑی میں لگے ہوئے آلات دیکھے ۔ فوراً ہی وہ پسینہ پونچھنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ پانی سے ہائیڈروجن الگ کرنے کے لیے پانی میں کیمیکل ڈال رہا تھا لیکن اس کی لاگت چھپا رہا تھا۔ یہ تھی مکمل کہانی ۔ 
جب ایک شخص کوئی بڑا دعویٰ کرتاہے تواس فیلڈ سے تعلق رکھنے والے بڑے دماغوں کو جائزہ لینے پر فوراً ہی پتہ چل جاتاہے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ ۔ مزید یہ کہ مختلف سائنسی اداروں میں مختلف مذاہب اور قومیت سے تعلق رکھنے والے سائنسدان کام کر رہے ہوتے ہیں ۔دوسرے ادارے والوں کے خلاف ان کے تعصبات اور اختلافات ہوتے ہیں ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ حریف کی طرف سے کی جانے والی کسی متنازعہ تحقیق کو غلط ثابت کر کے اس کا منہ کالا کیا جا سکے ۔ میکس پلانک سوسائٹی ایک جرمن ادارہ ہے ۔ اس میں دنیا بھر سے 10ہزار سے زائد سائنسدان کام کرتے ہیں ۔ چینیوں اور روسیوں کے اپنے سائنسی ادارے ہیں ۔ کسی بھی مذہب سے ان کا تعلق نہیں ۔ جاپان والے اپنی جگہ کام کر رہے ہیں ۔ دنیا کو اس طرح سے بے وقوف بنانا ممکن نہیں کہ اس علم کے کچھ نہ کچھ ماہرین چلّا نہ اٹھیں ۔ 
ایک دوست نے سوال کیا : کیا اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ انسان بندر کی ارتقائی شکل ہے ؟ میرا جواب یہ تھا کہ یہ تو ڈارون نے خود بھی نہیں کہا کہ انسان بندر کی ارتقائی شکل ہے بلکہ برصغیر میں اس کے نظریہ ء ارتقا کو اس طرح سمجھا گیا۔ اس بیچارے نے تو بڑے پیمانے پر فاسلز کا جائزہ لینا شروع کیا اور جو حقائق ا س نے دیکھے، انہیں بیان کر دیا۔ ہر سائنسدان کو اندازہ ہوتاہے کہ وہ کچھ رازوں سے پردہ اٹھار ہا ہے لیکن معاملے کے صرف ایک پہلو پر ۔ بعد میں دوسرے آنے والے دیگر معاملات پر روشنی ڈالیں گے ۔ یوں ممکن ہے کہ ہزاروں سال بعد کسی معاملے کی ایک مکمل تصویر سامنے آسکے ۔ وہ صرف زمین پر زندگی کے پیدا ہونے ، پھر ایک سے دوسری شکل اختیار کرنے پر تبصرہ کر رہا تھا۔ مذہبی حلقوں نے یہ سمجھا کہ اگر سب کچھ کرئہ ارض پہ اپنے آپ ایک سے دوسری شکل میں تبدیل ہونے کو مان لیا جائے تو خدا کے وجود کی نفی ہوجاتی ہے ۔ 
میں آپ سے یہ سوال کرتاہوں کہ اتنا بڑا خالق جب ایک زمین پر رہنے کے لیے جاندار بنا رہا ہوگا تو کیا اس نے انہیں آسمانوں پر پیداکیا ہوگا یا اسی زمین پر ، جس پر انہیں زندگی گزار نی ہے ؟ آدمؑ کو اس میں سے نکال لیجیے لیکن گائے ، بھینس، مینڈک، سانپ ، مچھلی اوردرخت کیا آسمان پر بنے ہوں گے یا زمین پر ۔ مجھے میٹرک کا زمانہ یاد آتا ہے ۔ سر مشتاق نے جب بیالوجی کی کتاب میں سے کرّہ ء ارض پر پہلے زندہ خلیے کی تخلیق پڑھائی تو ہم دوست اس پر معترض ہوئے ۔ اس لیکچر کا خلاصہ یہ تھا کہ جب پہلا زندہ خلیہ کرّہ ء ارض کی ابتدا کے ایک خاص ماحول میں بن گیا تو اس سے بعد میں پھر کئی خلیات والے جاندار بنے ۔ آہستہ آہستہ وہ لاکھوں، کروڑوں اور اربوں خلیات والے جانداروں میں تبدیل ہوئے ۔ انسان ان میں سے ایک تھا۔ ہمارے لیے مسئلہ یہ تھا کہ پھر آدمؑ کی جنت میں تخلیق ، ان کا زمین پر اتارا جانا، وہ سب کہاں گیا۔ اس لیے ہم نے کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔ سر مشتاق نے کہا کہ جھوٹ ہی سمجھ لو لیکن اسے یاد کرلو کہ امتحان تو پاس کرنا ہے ۔ 
امتحان تو پاس ہو گیا لیکن اب آکر اس سارے گورکھ دھندے کی سمجھ آئی ۔ کرنے والی ذات تو خدا ہی کی تھی ورنہ بے جان عناصر کی کیا جرات کہ وہ ایک زندہ خلیے میں تبدیل ہو جائیں لیکن وہ سب کچھ اس زمین پر ہی کر رہا تھا۔ آج بھی ماں کے رحم میں ایک واحد خلیہ 37.4ٹریلین خلیات پہ مشتمل بچّے میں تبدیل ہوتاہے ۔ اس کا ایک ایک عضو وہیں بنتا ہے ۔ اس سب پہ مہرِ تصدیق یہاں سے ثبت ہوتی ہے کہ نظریہ ء ارتقا اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتا کہ پانچ ارب مخلوقات ، جو کہ ایک ہی زمین پر بنی ہوں ، ان میں سے ایک کیونکر ذہین ہو جائے اور باقی کیونکر بنیادی ضرورتوں تک محدود ہو کر اس کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتی رہیں ۔ 
بے جان عناصر کی مخصوص مقدار ایک خاص ماحول میں ایک زندہ خلیے میں تبدیل ہوئی ۔ پھر اس سے زیادہ خلیات پر مشتمل جاندار بنے ۔ بعد ازاں ان جاندار اشیا میں اپنے ماحول اور ضروریات کے مطابق تبدیلی آتی گئی ۔ ایک جاندار سے دوسرا جاندار پیدا ہوا۔ یہ الفاظ ''ایک جاندار سے دوسرا جاندار پیدا ہونا‘‘ یہ نظریہ ء ارتقا کو ایک جملے میں بیان کرنے کے مترادف ہے ۔ معترضین کا کہنا یہ تھا کہ ہر جاندار کو خدا نے ایک خاص وقت پر اچانک پیدا کیا، نہ کہ کسی طویل اور پیچیدہ عمل میں لیکن جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو ہر چیز ایک طویل عمل سے ہی پیدا ہوتی ہے ۔ ہائیڈروجن گیس کی ایک بہت بڑی مقدار کروڑوں برس میں اکٹھی ہوتی ہے تو درجہ ء حرارت 18ملین ڈگری فارن ہائٹ تک بڑھتا ہے ۔ اس کے بعد سورج پید اہوتاہے ۔ گیس اگر کم ہوتو سورج کی جگہ وہ مشتری سیارہ بن جاتا ہے ۔ (جاری )

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved