تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-05-2017

سُرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

آئندہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو 
پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کر لیں گے : زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''آئندہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کر لیں گے‘‘ جس کے لیے اس قدر کارکن تو دستیاب نہیں ہونگے اس لیے ہم اس نیک کام کے لیے جنوں اور بھوتوں کا بندوبست کر لیں گے، اگرچہ وہ مہنگے تو بہت ہوں گے لیکن گزشتہ دور میں سب نے مل جُل کر جو پیسہ بنایا ہے وہ کس دن کام آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''سی پیک منصوبہ میرا خواب تھا جو اب اسلام آباد چلا گیا ہے‘‘ اسی طرح میں نے پچھلی دفعہ الیکشن جیتنے کا جو خواب دیکھا تھا اسے بھی چوری کر لیا گیا اور اب جو الیکشن جیتنے کا خواب دیکھ رہا ہوں اس کے بھی چوری ہونے کا زبردست خطرہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خاں خان نہیں ہیں‘‘ جس طرح بلاول بھٹو نہیں بلکہ سیدھے سادے زرداری ہیں ،جبکہ الیکشن جیتنے کے لیے مجھے بھی آصف علی بھٹو کہلوانا پڑا تو یہ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں خطاب کر رہے تھے۔
چینی صدر کی طرح کرپشن کیخلاف جہاد کروں گا : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''چینی صدر کی طرح کرپشن کے خلاف جہاد کروں گا‘‘ اگرچہ میں نے کرپشن کا بُت پاش پاش کر رکھا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس کے ٹکڑوں کو جوڑ کر پھر سے اسے کھڑا کر دیا ہے چنانچہ اسے تلاش کروں گا اور پھر اسے دوبارہ پاش پاش کر دوں گا بلکہ جتنی بار بھی اسے جوڑا گیا میں اُتنی بار ہی اسے جوڑ کر دکھا دوں گا کہ دُنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی‘ اس کے ٹکڑوں کو بھی اور مجھے بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''شفافیت ہماری حکومت کا طرۂ امتیازہے‘‘ اور ہمارے سارے منصوبے چونکہ شیشے کے بنے ہوئے ہیں اس لیے ان کے آرپار صاف دیکھا جا سکتا ہے اور کرپشن اندھوں کو بھی نظر آتی ہے لیکن بقول بھائی صاحب اگر کرپشن روکتے رہیں تو تیزرفتارترقی کیسے ہو گی کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے جبکہ کرپشن کرنا اور اسے روکنا دو مختلف کام ہیں۔ آپ اگلے روز بیجنگ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکمرانوں کے دن گنے جا چکے‘ انہیں گھر جانا پڑیگا: طاہر القادری
پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کے دن گنے جا چکے، انہیں گھر جانا ہی ہو گا‘‘ اوراگر پاناما کیس کے فیصلے کے بعد گھر بھی چلے جائیں تو بڑی بات ہے کیونکہ عمران خان تو انہیں جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں اگرچہ ان کی کوئی پیش گوئی آج تک پوری نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف اور ان کی پارٹی اقتدار بچا رہی ہے‘‘ حالانکہ اقتدار تو آنی جانی ہے‘ یہ بھی کوئی بچانے کی چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکمرانوں کو ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں‘‘جبکہ مجھے یہی فکر رہتی ہے اور کینیڈا میں چند ماہ گزار کر ملک اور قوم کو بچانے کے لیے پھر آ جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم موجودہ حکمرانوں سے نفرت کرتی ہے‘‘ اور صرف خاکسار سے محبت کرتی ہے اس لیے جب وہ میرے لیے بہت زیادہ اُداس ہو جاتی ہے ، تو میں اس کی اُداسی دورکرنے کے لیے چند روز کے لیے یہاں کا دورہ کر لیتا ہوں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
گزشتہ دور میں حاجیوں کو لُوٹا گیا‘ کرپشن ہوئی : سکندر بوسن
وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سکندر بوسن نے کہا ہے کہ ''گزشتہ دور میں حاجیوں کو لُوٹا گیا اور کرپشن ہوئی‘‘ جبکہ ہم نے حاجیوں کو ہرگز نہیں لُوٹا کیونکہ اس کے علاوہ بھی ان گنت ایسی مدات موجود ہیں جن سے یہ شوق پورا کیا جا سکتا ہے اس لیے حاجیوں کو لُوٹنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ ایک دروازہ بند ہو تو اللہ میاں سینکڑوں دروازے کھول دیتے ہیں اور جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو یہ ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے نہیں روکی جا سکی جبکہ لوگ ترقی چاہتے ہیں چاہے وہ اشتہاروں ہی تک محدود کیوں نہ ہو اور کرپشن سے اُن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا '' میرے حلقے کے سیاسی مخالف نے عوام کو کچھ نہیں دیا‘‘ اگرچہ دیا تو میں نے بھی کچھ نہیں‘ تاہم میں نے اس کے وعدے تو کر رکھے ہیں کیونکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تک سبھی وعدے ہی کر رہے ہیں اور قوم ان سے خوش بھی ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
پاک فوج یا اس کے افسروں کی تضحیک قبول نہیں : چوہدری نثار 
وزیر داخلہ چوہدری نثارنے کہا ہے کہ ''پاک فوج یا اس کے افسروں کی تضحیک ناقابل قبول ہے‘‘ اگرچہ یہ کام ہم بھی کرتے رہتے ہیں لیکن ذرا سلیقے اور اپنے طریقے سے کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ''آئین کے تحت سکیورٹی اداروں پر تنقید نہیں کی جا سکتی‘‘ تاہم کھلم کھلا تو ایسا ہرگز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جب اس کے کئی اور بھی ایک سے بڑھ کر ایک طریقے موجود ہوں تو ایسا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ حکومت تو اپنے باقی دوسرے کام بھی چھپ چھپا کر ہی کرتی ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ نیکی کر کے دریا میں ڈال دینی چاہیے۔ آپ اگلے روز ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
دل کا احوال تو معلوم تھا اُس کو بھی‘ مگر
اُس نے پوچھا تو‘ ظفر‘ میں نے کہا سب اچھا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved