تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-05-2017

کبوتر

پاک چین راہداری منصوبے کا سُورج جُوں جُوں چڑھتا جارہا ہے، خطے کے متعدد ممالک کی سوچ کا اندھیرا گہرا ہوتا جارہا ہے۔ موقع کی نزاکت کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوا کرتی۔ یہ بات اس وقت بھارت، ایران اور افغانستان خوب ثابت کر رہے ہیں۔ چین نے عالمی معیشت میں اپنی حیثیت بھرپور انداز سے منوانے کے بعد اب عالمی سیاست اور ثقافت کے محاذ پر بھی دادِ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین کی اولو العزمی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تین عشروں سے بھی زائد مدت سے چینی قیادت عالمی معیشت پر اس حد تک متوجہ رہی ہے کہ اب پروان چڑھے ہوئے درخت کے پھل کھانے کا وقت آگیا ہے۔ 
جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں چین اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنا چاہتا ہے تاکہ عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر بھی فعال سفارتی و ثقافتی کردار ادا کرنے کی راہ میں کوئی دیوار حائل نہ رہے۔ 
یہ سب کچھ امریکا اور یورپ دونوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ یورپ نے صورتِ حال سے کسی حد تک سمجھوتہ کرلیا ہے اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ چین کی طرح وہ بھی اب ''نرم قوت‘‘ پر یقین رکھتا ہے۔ امریکا کا ساتھ دینے کی صورت میں یورپ کے لیے بھی معاملات الجھ جاتے ہیں۔ افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں یہ ثابت بھی ہوچکا ہے۔ بیشتر یورپی حکومتیں اب واشنگٹن سے فاصلہ رکھنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ امریکا اور یورپ کے مفادات کو ایک سمجھنے کا دور لدتا دکھائی دے رہا ہے۔ 
یورپ کے لیے ممکن نہیں کہ شمالی اور مغربی افریقا میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیوں کو نظر انداز کردے۔ ان دونوں خطوں میں رونما ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ اور یہ اثر و رسوخ اس لیے ہے کہ چین نے معاشی طور پر مستحکم ہونے کی صلاحیت و سکت رکھنے والے ممالک میں غیر معمولی سرمایا کاری کر رکھی ہے۔ چین کی بیشتر سرمایا کاری تیل، گیس اور معدنیات کے حصول کے لیے ہے۔ ساتھ ہی ساتھ چین نے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے پر بھی غیر معمولی توجہ دی ہے۔ پس ماندہ افریقی ممالک کے لیے چین انتہائی پرکشش ثابت ہو رہا ہے کیونکہ اُس کے متوجہ ہونے سے پورے خطے میں ترقی اور خوش حالی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ چین کی سرمایا کاری بنیادی طور پر اُس کے اپنے معیشتی استحکام کے لیے ہے مگر خیر، بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ تو رہا ہے۔ 
چین کا بہت سے معاملات میں کھل کر سامنے آنا اور عالمی قوت کی حیثیت سے جامع طرزِ فکر و عمل اپنانا امریکا اور اس کے ہم خیال ممالک کے لیے بہت حد تک ناقابل برداشت ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ گھر آنگن کے بالکل نزدیک رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے نئی دہلی کے پالیسی میکرز امریکا اور دیگر طاقتور ممالک کے ساتھ مل کر پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے انسدادی اقدامات پر کمربستہ ہیں۔ تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں سے خوفزدہ ہونے کے معاملے میں ایران اور افغانستان بھی بھارت کی ''برابری‘‘ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں! تینوں کی سوچ ایک ہی ہے ... یہ کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکا جائے۔ 
سوال یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے پر کبھی خاطر خواہ توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ حد یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی طرف سے خطے میں لشکر کشی کی صورت میں بھی مزاحمت کا نہیں سوچا گیا۔ پھر چین کے خلاف ہائے توبہ کی پُکار کیوں؟ چین نے اب تک خود کو معاشی معاملات تک محدود رکھا ہے، کسی پر لشکر کشی کا اُس کی پالیسی میں معمولی سا بھی عندیہ نہیں ملتا۔ 
افغانستان پر سابق سوویت یونین کی افواج نے جب چڑھائی کی تھی تب بھارت دونوں بلاکس سے مزے لُوٹ رہا تھا۔ امریکا اور یورپ کے آغوش میں بیٹھے رہنے کے ساتھ ساتھ وہ سوویت یونین کا حلیف بھی تھا اور ساتھ ہی ساتھ نا وابستہ ممالک کی تنظیم کا روحِ رواں بھی تھا! یعنی یک نہ شُد، سہ شُد! اب اگر چین پیر پسارنے کی کوشش کر رہا ہے تو افغانستان کو اُس سے خوفزدہ ہوکر بھارت کے ساتھ کھڑا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ سوویت افواج نے جب چڑھائی کرکے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی تب بھارت کہاں تھا؟ افغان عوام کی یادداشت اِس قدر کمزور تو نہیں ہونی چاہیے۔ 
ایک اہم سوال یہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے مل کر افغانستان کا جو حشر کیا ہے وہ کیا سبق سیکھنے اور سکھانے کے لیے کافی نہیں؟ دو عشرے گزر چکے ہیں کہ امریکا چند روپی قوتوں کے ساتھ مل کر افغانستان کو استحکام کی منزل سے دور رکھے ہوئے ہے۔ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر واشنگٹن نے افغانستان میں قتل و غارت کا بازار گرم رکھا ہے۔ 
سی پیک کے منصوبوں کا شروع ہونا تھا کہ اُن سب کی طرف سے انسدادی مہم بھی شروع کردی گئی ہے جو اس عظیم منصوبے کو اپنے عزائم کی راہ میں دیوار گردانتے ہیں۔ دہشت گردی کو اولین ترجیح کے طور پر اپنایا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے چاروں وزرائے اعلیٰ کے ساتھ چین گئے تو بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے سی پیک کے دشمنوں نے اپنا پیغام دے دیا۔ مستونگ میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خود کش حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 25 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اگلے ہی دن گوادر کے نواح میں سندھ سے تعلق رکھنے والے 9 مزدوروں کو شہید کردیا گیا۔ اس واقعے میں واضح تاثر دیا گیا کہ قاتل بلوچ ہیں اور سندھیوں کو چُن کر نشانہ بنایا گیا ہے۔ گویا سی پیک کے حوالے سے انتباہ کرنے کے ساتھ ساتھ سندھیوں اور بلوچوں کے دلوں میں بھی نفرتیں پیدا کرکے اُنہیں آپس میں لڑانے کی کوشش کی گئی ہے! 
چمن بارڈر پر افغانستان کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور ایران کے عمومی رویّے میں اچانک جارحیت کا در آنا اور فوج کی بلند ترین سطح یعنی آرمی چیف کی زبان سے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی خاصی علامتی حیثیت رکھنے والے معاملات ہیں۔ گویا بھارت، افغانستان اور ایران سی پیک کے حوالے سے ایک ہوتے جارہے ہیں۔ 
سی پیک پورے خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے والا ہے۔ دس بارہ برس میں خطے کی تقدیر، خد و خال اور معاشی امکانات ... سبھی کچھ بدل جائے گا۔ یہ وقت خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر حقیقت کو دیکھنے اور سمجھنے کا ہے۔ بھارت اب تک اِس سوچ کے گھیرے میں ہے کہ اُسے گھیرا جارہا ہے۔ اور یہی سوچ اُس نے کابل اور تہران کے پالیسی میکرز تک بھی منتقل کی ہے۔ بے بنیاد خدشات پالنا تینوں کے لیے خسارے کا سودا ہوگا۔ بدلتے ہوئے حالات کی بِلّی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے زمینی حقیقت تبدیل نہیں ہوجائے گی۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کے ایک حالیہ بیان سے کبوتر والی سوچ ظاہر ہوتی ہے۔ بھارت کو ''سنگھ پریوار‘‘ کی سوچ ترک کرکے گاندھی اِزم کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔ خدشات اور تحفظات خواہ کوئی پَٹّی پڑھا رہے ہوں، حقائق کا تقاضا تو یہی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved