تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-05-2017

آزادی

آزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کی مگر ایک قیمت ہے۔ جو قوم یہ قیمت دینے پر آمادہ نہ ہو، وہ انارکی میں جیتی ہے، طوائف الملوکی میں!
لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے 7 جولائی کو اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر، وزیرِ اعظم پاکستان، کابینہ کے وزرا، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل نوید مختار اور ان ممتاز سیاستدانوں کو اس کے دعوت نامے ارسال کیے جائیں گے، مولانا صاحب جن سے حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد لال مسجد کے شہدا کی قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے اور اس سے زیادہ نفاذِ اسلام۔ ''ایک ایسی کانفرنس‘‘ مولانا عبدالعزیز کا کہنا ہے، ''جو بتا دے گی کہ اس ملک کے عوام کیا چاہتے ہیں‘‘۔
انتظامیہ سے درخواست کی جائے گی کہ انعقاد کی جلد اجازت دے تاکہ ممتاز مہمانوں کو سہولت ہو۔ شہدا کانفرنس کے ایک ترجمان نے اگرچہ یہ بھی کہا کہ اجازت کی ضرورت کیا ہے۔ کانفرنس مسجد کے اندر ہی تو ہونی ہے۔
یہ 2006ء کا موسمِ بہار تھا، جب جی سیون سے متصل مدرسے میں انہوں نے اس ناچیز کو مدعو کیا۔ مولانا عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی مولانا عبدالرشید غازی سے میری صاحب سلامت تھی اور اس سے زیادہ خالد خواجہ سے، طالبان کے جو پُرجوش حامی تھے؛ اگرچہ انہی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ایک اور دوست بریگیڈیئر امام کے ہمراہ، ملّا عمر کو جو اپنا شاگرد کہا کرتے۔
بریگیڈیئر امام کو کرنل امام کہا جاتا، معلوم نہیں کیوں۔ قندہار میں وہ تعینات تھے۔ ان لوگوں میں سے ایک، ہمارے اوریا مقبول جان کی طرح ملّا کو جو محض امیرالمومنین ہی نہیں بلکہ صدیوں کے بعد نمودار ہونے والا ایک شہسوار سمجھتے تھے، کائنات کی تقدیر جو بدل ڈالے گا۔ 
کرنل امام کبھی کبھار مجھے فون کیا کرتے۔ یہ راولپنڈی کا ایک فون نمبر تھا مگر وائرلیس کے ذریعے اس کا رابطہ قندہار سے جڑا رہتا۔ آواز بالکل صاف سنائی دیا کرتی۔ اس زمانے میں طالبان کا معمول یہ تھا کہ اخبار نویسوں کو مدعو کیا کرتے۔ بہت احتیاط سے ان کا انتخاب کیا جاتا۔ واپسی پر ہمیں وہ بتایا کرتے کہ قرونِ اولیٰ کی سی حکمرانی افغانستان میں لوٹ آئی ہے۔
جولائی 2002ء میں، نیو یارک کے لیے میں پا بہ رکاب تھا کہ بلوچستان کو قحط سالی نے آ لیا۔ سینکڑوں برس سے لہلہاتے باغات کاٹ دیے گئے۔ جگہ جگہ خیموں کے شہر نمودار ہوئے۔ نیو یارک سے قبل، بلوچستان کے صحرائوں کو چھاننے کا اخبار نویس نے ارادہ کیا۔ حافظ حسین احمد کے ہمراہ نوشکی تک مسافر پہنچا۔ دو عدد مولوی صاحبان بھی ہمراہ تھے۔ مجھے انہوں نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ افغانستان میں صحابہؓ کا دور لوٹ آیا ہے۔ بہت دیر میں ٹالتا رہا۔ صبر جواب دے گیا تو آخر کار صحرا کنارے ایک چھپر ہوٹل میں ان سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس چاندنی شب میں قہوے کی پیالی طلب کی اور ان سے سوال کیا: ازراہِ کرم خلفائِ راشدین کے دور سے ملا عمر کا موازنہ نہ کیجیے، پوپی کی فصل جہاں اس سرے سے اُس سرے تک لہرا رہی ہے۔ بحث وہ کیا کرتے، بھاگ گئے۔ کہا: ہم نہیں، خلقِ خدا کہتی ہے۔ 
''کرنل‘‘ امام بشاشت سے بات کرتے۔ ایک دن مطلع کیا کہ حزبِ اسلامی افغانستان کے تین کمانڈروں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اس پر وہ شاد بہت تھے۔ خبر چھپی تو فوراً ہی اس کی تردید ہو گئی۔ شام کو ان سے بات ہوئی تو بھنا کر بولے: مجھ سے منسوب ایسی خبریں نہ چھاپا کیجیے۔ ملا عمر سے ملاقات کرانے پہ اصرار کرتے رہے۔ ایک ٹی وی مذاکرے میں جب انہوں نے یہ کہا کہ سرحدوں کو ملّا عمر نہیں مانتے تو جھلا کر میں نے کہا: سرحد دو قوموں کا معاہدہ ہوا کرتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے کہ وعدہ پورا کیا کرو۔ ملّا عمر کو کیا اللہ نے من مانی کا حق دے دیا ہے؟ آئی ایس پی آر کے جنرل اطہر عباس نے مجھے بتایا: آپ کے زندہ بچ رہنے کا اب کوئی امکان نہیں۔
مولانا عبدالعزیز اور ان کے مرحوم بھائی بہت شفقت سے پیش آئے۔ مدرسے کے درجن بھر اساتذہ ان کے ہمراہ تھے۔ عرض کیا: معاف کیجیے گا، عام لوگ آپ کو فرقہ پرست سمجھتے اور آپ سے نالاں ہیں۔ ثانیاً ریاست کے اندر ریاست آپ نے بنا رکھی ہے، جو باقی نہ رہے گی۔ ان کا اصرار تھا کہ ظلم معاشرے میں بہت ہے۔ خلق ان سے رجوع کرتی ہے۔
لال مسجد کے ہنگامے کا آغاز ہوا اور معلومات جمع کرنی شروع کیں تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ خطرناک دہشت گرد لال مسجد سے متصل مدرسے میں پناہ گزین تھے۔ طالبات کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا وہ ارادہ رکھتے تھے۔ مقابلے پر وہ اتر آئے، حتیٰ کہ 3 جولائی کو رینجرز کا ایک افسر شہید کر دیا گیا۔ باقی تاریخ ہے۔
سالِ گزشتہ چار مدرسے مستونگ میں زمیں بوس کر دیے گئے۔ مولانا عبدالغفور حیدری پہ چار روز قبل جہاں حملہ ہوا۔ آصف علی زرداری، میاں محمد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی عنایت سے سینیٹ کے وہ ڈپٹی چیئرمین ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین کا پروٹوکول بھی چیئرمین کے برابر ہوتا ہے۔ اس طرح کے ایک دورے پر بیس سے چالیس لاکھ روپے اٹھ جاتے ہیں۔ گاڑیوں کا ایک بڑا قافلہ لے کر وہ چلتے ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے، صرف محافظ لے کر گئے ہوتے تو 27 بے گناہ قتل نہ ہوتے۔ ہسپتال میں ہوش سنبھالنے کے بعد پہلا حکم جو انہوں نے جاری کیا، وہ نئی گاڑی تھی۔ ''اسی رنگ کی، پچھلے ہفتے جس کا میں نے ذکر کیا تھا‘‘۔ 
اب کوئی لبرل فاشسٹ اٹھے گا اور فرمائے گا: مولوی ہوتے ہی ایسے ہیں۔ مولوی ہی نہیں، سب کے سب ایسے ہیں۔ جاگیردار، جج، جنرل، جرنلسٹ، افسر اور سیاستدان، سبھی ایسے ہیں۔ ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں 
1940ء کے عشرے میں، پولیس ٹریننگ سنٹر پھلور (جالندھر) کا کمانڈنٹ ایک انگریز افسر ہارڈی تھا۔ نثر نگار شاہد حمید نے اپنی خود نوشت ''گئے دن کی مسافت‘‘ میں ایک واقعہ کمانڈنٹ کا نقل کیا ہے۔ 
چلچلاتی دھوپ میں، دن کے دو بجے، راجہ عبدالقادر اور ان کے ساتھی نوٹس بورڈ پر ایک عبارت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ Mr Hardy, the commandant of the Phelour centre was found napping at 1:45 pm in his office chair for ten minutes. As he was guilty of neglecting his duty, he is ordered to stand on the roof of castle for ten minutes. 
نوٹس کے نیچے مسٹر ہارڈی کے اپنے ہی دستخط تھے۔ سر اٹھا کر طلبہ نے قلعہ کی چھت پر نگاہ کی۔ اپنا ہیٹ پہنے اور بازو اوپر اٹھائے، پاگل کر دینے والی دھوپ میں کمانڈنٹ کھڑا تھا۔ 
پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں کہ فقط چھ سات ہزار افسروں کے ساتھ انگریز نے سری لنکا، برما، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کی سرزمینوں پر مشتمل وسیع و عریض خطے پر حکومت کیسے کی؟ 
وضاحت کی ضرورت تو نہیں، پھر بھی اپنے ایسے سہل کوشوں کی خاطر میں عرض کرتا ہوں: اپنی اخلاقی برتری اور بہر صورت قانون کی پیروی کے بل پر۔ فاٹا کے معاملے میں مولانا فضل الرحمٰن حکومت کو بلیک میل کرنے پر تلے ہیں۔ ہر جاگیردار کرتا ہے۔ ہر طاقتور جج، جرنلسٹ ، ملّا اور جنرل بھی۔
مکرر عرض ہے: آزادی مگر ڈسپلن کے ساتھ۔ آزادی کے بغیر آدمی حیوان ہے اور مادر پدر آزادی کے ساتھ بھی۔ لیجیے اقبالؔ پھر یاد آئے۔ 
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے 
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے 
آزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کی مگر ایک قیمت ہے۔ جو قوم یہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو، وہ انارکی میں جیتی ہے، طوائف الملوکی میں!
پسِ تحریر: بی بی سی کے پاکستانی وقائع نگار کتنا ہی چیخیں چلائیں، چوہدری نثار علی خان ٹھیک کہتے ہیں۔ سیکولرازم کا مطلب لادینیت ہے۔ یہ تعریف ہولی اوکس کی مرتب کردہ ہے، 1895ء میں سب سے پہلے جس نے یہ اصطلاح استعمال کی۔ اس نے لکھا تھا: خدا کو ماننے والا کبھی سیکولر نہیں ہو سکتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved