تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-05-2017

نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے!

گزشتہ روز دو ایسی خبریں پڑھنے کو ملیں جنہوں نے چَین سے بیٹھنا گوارا نہ کیا اور ذہن میں پُھدک پُھدک کر ہمیں کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔ دونوں خبریں ازدواجی زندگی سے متعلق ہیں۔ پہلی خبر ''ساحل‘‘ کی ہے اور دوسری ''طوفان‘‘ کی۔ ''ساحل‘‘ یعنی ازدواجی زندگی کے ابتدائی لمحات کی خبر یہ ہے کہ برطانیہ میں شادی کی ایک تقریب میں اُس وقت دلہن پریشان اور تقریب کے شرکا حیران رہ گئے جب پادری کی جانب سے دعائیہ کلمات ادا کیے جانے کے دوران دولہا نے اچانک دلہن کے رخسار پر تھپّڑ رسید کر دیا! 
یہ کیا؟ بھری محفل میں دلہن کے منہ پر تھپّڑ! پہلے تو لوگ حیران ہوئے اور یہ سمجھے کہ دولہا شاید ''غلط انتخاب‘‘ سے پیدا ہونے والی جِھلّاہٹ اُتار رہا ہے! کسی کے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ دولہا میاں نے ''گربہ کشتن روزِ اول‘‘ والی بات پر عمل کرتے ہوئے pre-emptive strike کی ہے‘ یعنی دلہن کو ابھی سے رعب میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے تاکہ آگے چل کر معاملات درست رہیں! 
ابھی لوگ سوچوں میں گم اور اُھیڑ بُن میں مبتلا تھے کہ دولہا میاں نے وضاحت فرمائی کہ نہ تو اُنہیں اپنے انتخاب پر کوئی ملال ہے اور نہ ہی پہلے دن بِلّی مارنے والا معاملہ ہے۔ ویسے بِلّی نہ سہی، اِس معاملے میں بھی ایک جانور ضرور ملوث پایا گیا۔ معاملہ شہد کی مکّھی کا تھا۔ دلہن کے رُخسار پر بیٹھی ہوئی شہد کی مکّھی دولہا میاں سے گوارا نہ ہوئی۔ انہوں نے سوچا بِلّی مارنے کا معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا، پہلے شہد کی مکّھی تو مار لیں! اور اِس سے پہلے شہد کی مکّھی ڈنک مار کر دلہن کے رُخسار کا ''پف‘‘ بگاڑ کر حیا کی سُرخی کو داغ دار کرتی، دولہا میاں نے تھپّڑ جَڑ دیا! ہو سکتا ہے اُنہوں نے ایک لمحے کو سوچا بھی ہو کہ شہد کی مکّھی کی بدولت ازدواجی زندگی کے پہلے لمحے میں شریکِ حیات کو تھپّڑ رسید کرنے کا موقع ہاتھ آیا ہے تو استفادہ کرنے میں کیا ہرج ہے! پتا نہیں ایسا موقع پھر کب ملے اور ملے بھی یا نہیں! 
جب دلہن کو معلوم ہوا کہ نئے نئے شوہرِ نامدار نے اُنہیں شہد کی مکّھی کے ڈنک سے بچانے کے لیے ہاتھ کو ''زحمتِ کلام‘‘ دی ہے تو یہ اندازِ کلام اُنہیں بھی پسند آیا اور بنا ہوا منہ درست کرتے ہوئے مُسکرانے لگی! ہو سکتا ہے محترمہ کے ذہن میں یہ خیال بھی کوندا ہو کہ باضابطہ گھریلو زندگی میں تو میں ایسا کوئی موقع دوں گی نہیں اس لیے شہد کی مکّھی مارنے کے بہانے اگر ہلکا سا تھپّڑ مارنے سے میاں جی کی بے بسی کی کچھ لاج رہ جائے تو اِس میں ہرج ہی کیا ہے!
یہ تو ہوا ''ساحل‘‘ یعنی شادی کی تقریب کا معاملہ۔ آئیے، اب ذرا بھرپور ازدواجی زندگی یعنی ''طوفان‘‘ کی طرف چلتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے میں 62 فیصد خواتین نے کہا ہے کہ مردوں (یعنی شوہروں) کی جاسوسی نہیں کی جانی چاہیے کہ یہ لاحاصل مشقّت ہے۔ کیوں؟ کیا شوہروں پر شک کرنا بُری بات ہے؟ 
جی نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ خوش فہمی کا شکار ہوکر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہ ماریے۔ خواتین کچھ اور کہنا چاہتی ہیں۔ سروے میں حصہ لینے والی خواتین کی اکثریت نے کہا کہ مردوں یعنی شوہروں پر نظر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ مخلوق سُدھرنے والی نہیں! اس سروے کے مندرجات میں ایک جہاں آباد ہے۔ خواتین کی اکثریت نے کہا کہ بیشتر مرد اِس قدر ''ذہین‘‘ (یعنی مکّار و عیّار!) ہوتے ہیں کہ اپنے بارے میں کوئی بھی درست اندازہ قائم کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑتے۔ 
سروے میں حصہ لینے والی متعدد خواتین نے کہا کہ اگر مردوں کے جسم میں chip نصب کر دی جائے تب بھی وہ باز نہ آئیں گے اور جو کچھ بھی کرنا ہے کر گزریں گے۔ (آپ کو اِس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ آپ کی ''اولوالعزمی‘‘ ایسی محکم ہے کہ جدید ٹیکنالوجی بھی ہاتھ جوڑ کر آپ سے معافی مانگنے پر مجبور ہے!) 
چند ایک خواتین نے کہا کہ چُھری خربوزے پر نہ گِرے تب بھی حالات خربوزے کو چُھری پر گِرا ہی دیتے ہیں اس لیے مردوں پر نظر رکھنا وقت کے ضیاع کے سِوا کچھ نہیں۔ مشاورت یا طاقت... کسی بھی طریقے سے مردوں کو روکنا ممکن نہیں۔ ایسے میں بہت سی خواتین کو ''اپنی عزت اپنے ہاتھ‘‘ کے مصداق مردوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دینا ہی اپنے مستقبل کے لیے بہتر طریقہ دکھائی دیتا ہے!
سروے میں بہت سے خواتین نے یہ بھی کہا کہ اُنہیں اپنے شوہر پر پورا بھروسہ ہے! یہ بات پڑھ کر ہمیں ایک خوبصورت شعر یاد آ گیا۔ آپ کو بھی مستفید کرنا چاہیں گے ؎ 
کچھ اِس ادا سے یار نے پوچھا مِرا مزاج 
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا! 
دونوں خبریں آپ کی نظر سے گزریں اور اُن کا ''پوسٹ مارٹم‘‘ بھی۔ اِن سُطور کے پڑھنے والے مرد خواہ مخواہ شرمندہ نہ ہوں اور نہ کسی حوالے سے فخر ہی محسوس کریں۔ معاملہ یہ نہیں ہے کہ ؎ 
اے دل! تِری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں ہے؟ 
جو حال اِدھر ہے وہ اُدھر ہے کہ نہیں ہے؟
حقیقت کچھ اور ہے... کہ مرد و زن دونوں کی دنیا میں ایک ہی زمانہ چل رہا ہے۔ گویا ع 
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی 
غیر سرکاری تنظیم کے سروے میں حصہ لینے والی خواتین نے جو باتیں کہیں (یعنی جو الزامات عائد کیے!) وہ ایک پاکستان کیا، پوری دنیا کے مردوں پر صادق آتی ہیں۔ مگر جناب، معاملہ محض مردوں تک تو محدود نہیں۔ خواتین بھی تو ایسی ہی واقع ہوئی ہیں۔ وہ بھی اگر کچھ ٹھان لیں تو کب ارادہ بدلتی ہیں؟ ''زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق وہ اپنی بات پر یوں قائم رہتی ہیں کہ بے چارے مرد ہاتھ جوڑتے اور مِنّت سماجت کرتے ہوئے اِس دارِ فانی سے رُخصت ہو جاتے ہیں! 
خواتین کے لیے تو مردوں پر نظر رکھنا بہت آسان ہے کہ چھوٹے موٹے کام نمٹا کر اِس اہم کام پر توجہ دینے کے لیے وقت نکال سکتی ہیں۔ مرد بے چارے کیا کریں؟ اُنہیں کمانے سے فُرصت نہیں ملتی۔ ہمیں حیرت اِس بات پر ہے کہ خواتین اچھی طرح جانتی ہیں کہ مرد بے چارے گھر کا چولہا جلتا رکھنے کے لیے اپنی ذات کو کھپا دیتے ہیں اور پھر بھی اُن کے حوالے سے بدگمانی پروان چڑھائی جاتی ہے۔ اُن غریبوں کو کمانے سے فُرصت ملے گی تو کہیں اِدھر اُدھر جائیں گے، کچھ آنکھ مٹکّا کریں گے نا! خواتین کی اِس روش پر ہم تو یہی کہیں گے ع 
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا! 
یہی دنیا ہے، یہی ہم (یعنی مرد) ہیں اور یہی خواتین ہیں۔ یہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
یہ چمن یونہی رہے گا اور سارے ہی طیور 
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے! 
خواتین خاطر جمع رکھیں کہ اگر مرد سُدھرنے والی مخلوق نہیں تو خود اُن کی مستقل مزاجی بھی مثالی ہے! رائے عامہ کے جائزے، تجزیے اور مرد و زن سے متعلق تحقیق اپنی جگہ، اٹل حقیقت یہ ہے کہ مرد و زن اِسی پیکیج پر گزارا کرتے رہیں گے۔ وہ کیفیت ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی جس کے لیے کسی نے کہا ہے ؎ 
نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے 
پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved