تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     19-05-2017

درد مند درویش‘ گوشت خور کو ّے اور قومی ایئرلائن

درد مند درویش، گوشت خور کوّے اور پی آئی اے کی بربادی کی داستان تینکہانیاں ہیں؟ یا ایک سیریل داستان کی تین قسطیں؟ 
قومی فلیگ کیریئر کو کیا ہوا؟ اس کا عالمی معیار بحال کرنے کے دعوے کہاں گئے؟ بہترین ٹیم سے بہترین نتائج کی بڑھک کیوں کام نہ آئی؟ اربوں روپے کی ''پریمیم فلائٹ‘‘ کدھر اُڑن چُھو ہو گئی؟ ابھی تو اس فلائٹ میں وزیرِ اعظم کے فوٹو سیشن والی تصویر مدھم بھی نہیں ہوئی۔ سری لنکا جیسا ملک پریمیئم فلائٹ ڈیل میں ہم سے اربوں روپے کیسے ہتھیا لے گیا؟ 
ان سوالوں کی طرف بعد میں آتے ہیں۔ پہلے درد مند درویش والا قصہ جان لیجئے‘ جو نروان کا عادی تھا۔ زندگی کا زیادہ حصہ مراقبے میں بسر کرتا۔ بستی کے باہر برگد کے بڑے درخت کے کونے میں دبکا یہ گُنگناتا ''اپنی دُھن میں رہتا ہوں، میں بھی تیرے جیسا ہوں‘‘۔ بستی والے حیران ہوتے‘ ہر روز درویش اپنے زخم تازہ کرنے کے لیے وہیں آ بیٹھتا‘ جہاں پچھلی شام کوّے اس کا گوشت نوچتے تھے۔ شہر کے سکول چُھٹیوں کے لیے بند ہوئے تو گریجویٹ گائوں واپس آیا۔ شام ڈھلے چہل قدمی کو نکلا، چلتے چلتے خون آشام بوہڑ کے پاس جا پہنچا۔ مزاج، طبیعت اور تربیت کے بھوکے بے رحم کوّے درویش بابا کا گوشت نوچ رہے تھے۔ رحم دل گریجویٹ کے دل میں انسانی ہمدردی کا سمندر اُبل پڑا۔ پہلے اس نے آوازیں لگائیں۔ پھر چھڑی ڈھونڈی اور کووّں کو ڈرا کر اُڑا دیا۔ گوشت خور کووّں سے بابا کی جان چُھڑوانے کے بعد جوان داد طلب کرنے درویش کے پاس پہنچا‘ مگر درویش نے آگے سے اُسے جلی کٹی سنا دیں۔ باپ کے رویے سے بیزار نوجوان نے کہا: غصے والی کون سی بات ہے؟ کوّے آپ کا گوشت نوچ رہے تھے۔ میں نے اُڑا دیے تو کیا ہوا؟ مردِ درویش نے کہا: مجھ پر ظلم۔ نوجوان گھبرا کر بولا: کون سا ظلم؟ بابا نے جواب دیا: میرے بدن کا گوشت نوچنے والے کوّے اُڑا کر تو نے ظلم کیا۔ یہ کوّے بڑی دیر سے میرا گوشت نوچ رہے تھے۔ ان کے پیٹ بھر چکے تھے۔ اب جو تازہ کوّے آئیں گے وہ میرے بچے کھچے ماس کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کا گودہ بھی کھا جائیں گے۔
کیا پی آئی اے کا مرض یہی ہے؟ ہزاروں، لاکھوں نہیں، ملین کے حساب سے تنخواہ، ان گنت مراعات لینے والے ''دیسی، پردیسی‘‘ ماہرین قومی ایئر لائن کیوں سنبھال نہ سکے؟ لمبی دعوے داریاں چھوڑنے والے لیڈر پی آئی اے کو بحال کرنے میں ناکام کیوں ہوئے؟
ان دنوں پی آئی اے کا ٹکٹ بُک کروانے والے کو دوست ترس کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں جیسے زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں بے چارہ'' گیا‘‘۔ پرچم بردار جہاز کے مسافروں کو گھر والے ایسے رخصت کرتے ہیں جس طرح بزرگوں کو عمرے پر بھجوایا جاتا ہے۔ عملی طور پر وَن وِے ٹکٹ۔ مجھے اس ملینیم کی موجودہ صدی کے حالیہ عشرے میں کوئی رپورٹ شدہ واقعہ یاد نہیں جس میںہوائی جہاز کا پائلٹ مسافروں کو ہزاروں فُٹ بلندی پر آٹو پائلٹ کے حوالے کرکے نیند پوری کرتے پایا گیا۔ نیند اور تھکاوٹ کے حوالے سے ا یتھوپیا ایئرلائن سے اَیمریٹس ایئرلائن تک، ہر ایئر لائن اپنے کیبن کرویو کو ''سلیپ بریک‘‘ دیتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کم ازکم 4 یا 5 ستارہ ہوٹل میں نیند پوری کرنے کا موقع۔ یہ سلیپ بریک ایک دن سے کم نہیں ہوتی۔ یہ ریکارڈ بھی وطنِ عزیز کے حصے میں ہی آیا‘ ہمارے پائلٹ نے ایشیائی ایوی ایشن تاریخ بدل دی اور پاکستان کو فلائنگ ایشین ٹائیگر بنا دیا۔
جو مجرمانہ غفلت پی کے 785 کے خمار زدہ پائلٹ نے کی اس سے بہت کم خطرناک حرکت پر سوزوکی، موٹر سائیکل، ٹریکٹر ٹرالی، آٹو رکشہ کا چالان ہوتا ہے۔ بادلوں سے بہت اوپر اُڑتے ہوائی جہاز کے مسافروں کو خدا کے سہارے چھوڑ کر خوابِ خرگوش میں گم پائلٹ کے خلاف نہ پرچہ ہوا‘ نہ تفتیش‘ کیونکہ پائلٹ پائلٹ ہوتا ہے جو اکثر وزیر ِاعظم کی فلائٹ اُڑاتا ہے‘ کوئی رکشہ ڈرائیور نہیں جسے دیکھ کر قانون کو غصہ آ ئے۔ ایک دوست نے بتایا‘ اسے پرواز میں ڈر لگتا ہے۔ کوئی علاج بتائیں۔ کہا، ڈر بس پر بیٹھتے ہوئے بھی لگتا ہے، سڑک پر پیدل چلتے بھی۔ جو ہائی وے پر بچا کر رکھتا ہے، آسمان کا بھی وہی مالک ہے۔ وہ ہنس کر بولا: مالک اللہ ہی ہے لیکن آسمان کی بلندی پر مالک کی کچھ زیادہ ہی مدد درکار ہوتی ہے۔ پی آئی اے کا ریکارڈ یہ بھی ثابت کرتا ہے ہم ایشین ٹائیگر جیسے ہیرو نہیں، بلکہ ہیروئن کے بھی ہیرو ہیں۔ یہ ''میک اپ‘‘ والی ہیروئن کا ذکر نہیں بلکہ ''ٹیک اپ‘‘ والی اصلی ہیروئن کا تذکرہ ہے جس کے ایک کلوگرام میں 10 کلوگرام بال صفا پائوڈر ڈال کر اسے30 کروڑ میں بیچا جاتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے لگتا ہے جیسے پی آئی اے کے جہاز اصلی ہیروئن والے جہازوں کے حوالے ہو گئے ہیں۔ پی آئی اے کے جہازوں کے پائلٹ سے لے کر ٹائلٹ تک، ہوائی میزبان سے لے کر کھانے کے مر تبان تک سب مشتبہ ہیں۔ ہوائی جہازوں پر اصلی جہازوں کی ہیروئن کی برآمدگی والی تازہ واردات، تھوڑی سی شرم، تھوڑی سی حیا سے بھی کسی اگلے مقام کی نشان دہی کرتی ہے۔ مقامِ غیرت۔ مقامِ ذلت یا پھر مقامِ ذلت کی قلت وغیرہ۔ آپ اپنی قوم کی عالمی رسوائی کے صرف تین پہلوئوں پر غور کر لیں۔
پہلا، اگر برآمد ہونے والی ہیروئن کی جگہ ہیروئن طیارے تک پہنچانے، چیکنگ سے گزروانے اور طیارے کے خفیہ خانوں میں فٹ کروانے والوں کو ذرا زیادہ رقم دے کر ہیروئن کی جگہ دھماکہ خیز مواد رکھوا دیا جاتا تو پھر آدم و حوا پر کیا قیامت گزرتی؟
دوسرا، 8 گھنٹے سے زیادہ ہیتھرو ایئر پورٹ 305 بے گناہ مسافر جس اذیت یا شرمندگی سے گزرے۔ بچوں کا جو حال ہوا۔ خواتین جس طرح بے توقیر ہوئیں اور مریض جس کرب سے گزرے تصور سے روح کانپتی ہے۔ مگر حکومت نہیں۔
تیسرا: 8 گھنٹے فرنگی کتوں نے جہاز کی جن نشستوں، کیبینٹ، کچن، دوسرے خانوں کو اُدھیڑ کر رکھ دیا اس سب کو گنگا اشنان کرائے بغیر مسافر کس بے شرمی اور دلیری سے بٹھا لیے گئے۔
قومی پرچم والی ایئر لائن کے اس بیڑے نے اور بھی کئی ریکارڈ بنائے۔ یہی کہ مسافر کائونٹ مکمل ہونے، فلائٹ لاگ بک بند ہونے کے بعد سول ایوی ایشن کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اوورلوڈنگ کرکے مسافر کھڑے کیے گئے پھر 7 گھنٹے فلائٹ کے بعد حجازِ مقدس پہنچایا گیا۔ قومی ایئر لائن کسی زمانے میں عالمی سطح پر کہاں تھی۔ اندازہ لگانے کے لیے ایمریٹس ایئر لائن کی 25ویں سالگرہ پر اس اولین ہوا باز کو دیے گئے اعزازت کی ویڈیو دیکھ لیں جس نے پین آئی اے کا جہاز رنگ کرکے ایمریٹس ایئر لائن کے طور پر دبئی سے کراچی تک اُڑایا تھا۔ کچھ دن پہلے ایمریٹس کی سلور جوبلی تقریبات میں ہمارا یہی پائلٹ مہمانِ خصوصی اور مرکزِ نگاہ تھا۔ بدھ کی رات ایک سیاسی جماعت کے سربراہ صاحب نے کھانے پر بلوایا۔ کھانا میں کھا چکا تھا۔ وہ سیاسی حکمتِ عملی پر بات کرنا چاہتے تھے۔ موصوف کی خواہش تھی‘ میں ان کا یک طرفہ خطبہ سنوں۔ مجھے مجبوراًَ کہنا پڑا: مجھے کسی مشورے کی ضرورت نہیں۔ آپ مشورہ چاہتے ہیں تو پہلی غلطی یہ مانیں کہ آپ غلطی تسلیم کرنے کی عادت ڈالیں۔ پی آئی اے کا حال ایسا ہی ہے‘ پہلے کہا: ہیروئن برآمد نہیں ہوئی‘ ہیتھرو ایئرپورٹ انتظامیہ کے خلاف کارروائی کریں گے‘ پھر کہا: الزامات سچے ہیں۔ گوروں سے تفتیش میں تعاون کریں گیں۔ نواب زادہ نصراللہ یاد آ گئے، کہا:
شمع روشن ہوئی محفل میں پتنگے ناچے
بن کے اشراف سٹیجوں پر لفنگے ناچے 
اہل مغرب کے تمدن کی فسوں کاری سے 
واہ ری تہذیب تیری بزم میں ننگے ناچے
درد مند درویش، گو شت خور کوّے اور پی آئی اے کی بربادی کی داستان۔ تین کہانیاں ہیں یا ایک سیریل کی تین قسطیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved