تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     19-05-2017

اور اب فاطمی والی ٹویٹ

سب چلتا ہے، پی ٹی آئی کی سیاست میں سب چلتا ہے۔ رائی کا پہاڑ بنانا تو سنتے آئے ہیں ، لیکن یہاں رائی کے بغیر بھی پہاڑ بنایا جاسکتا ہے، پی ٹی آ ئی تو اس فن میں ید طو لیٰ رکھتی ہے، اردو کا ایک محاورہ '' کیڑے نکالنا‘‘بھی ہے، لیکن اپنے پاس سے کیڑے ڈال کر ، کیڑے نکالنے کا ہنر کوئی پی ٹی آئی سے سیکھے۔ اچھا ہوا پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق نے طارق فاطمی کے متعلق قطعًا غلط اور بے بنیاد ٹویٹ پر معذرت کرلی، یہ '' معصومانہ‘‘ سی حرکت سوشل میڈیا کے کسی جنونی نوجوان کی نہیں، جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ ، محترمہ شیریں مزاری کی تھی جو پی ٹی آئی کے نہایت پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتی ہیں۔ پی ٹی آئی میں شمولیت سے قبل وہ ایک انگریزی اخبار کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کسی دور میں وہ انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز جیسے اہم حساس ادارے کی سربراہ بھی ہوتی تھیں، تو انہوں نے ایسی جعل سازی کیوں کی، ایسا جھوٹ کیوں بولا، جوفوراً ہی پکڑا جانا تھا، چنانچہ چند گھنٹے کے بعد خود انہیں اسے اپنے اکائونٹ سے ڈیلیٹ کرتے ہی بنی۔
وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ چین آخری مرحلے میں تھا کہ شیریں مزاری نے طارق فاطمی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کردی ، جس میں انہیں حالیہ دورہ چین میں وزیر اعظم کے وفد میں ظاہر کیا گیا تھا۔ ظاہر یہ کرنا تھا کہ ڈان لیکس کیس میں ، طارق فاطمی کی وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے برطرفی محض دکھاوا ہے ، فوج سمیت پوری قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ،عملاً وہ اب بھی وزیر اعظم کی ٹیم میں شامل ہیں اور اس کا ثبوت یہ تصویر ہے، جس میں وہ دورہ چین میں نظر آرہے ہیں ۔ لیکن جھوٹ بے نقاب ہونے میں دیر نہ لگی۔ فاطمی صاحب کی گذشتہ دسمبر(2016)کی تصویر تھی۔لیکن اسی طرح کی ایک حرکت شیریں مزاری اس سے پہلے بھی کرچکی تھیں۔ 11مئی2013کے انتخابات کے دو روز بعد انہوں نے ایک تصویر جاری کی، جس میں رینجرز کے دو نوجوان خواتین کے پولنگ بوتھ پر موجود تھے، ثابت یہ کرنا تھا کہ لاہو ر میں خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں ، رینجرز کے ان نوجوانوں کی موجودگی دراصل خواتین کو خواجہ کے حق میں متاثر کرنے کے لیے ہے، لیکن جنون کے عالم میں ان کا دھیان رینجرز کی یونیفارم کی طرف نہ گیا ، یہ پنجاب کے نہیں، سندھ رینجرز کے نوجوان تھے، جو سندھ کے کسی پولنگ اسٹیشن پر موجود تھے، اور اس میں بھی ووٹرز کو متاثر کرنے والی کوئی بات نظر نہ آتی تھی۔
ویسے اپنے سوشل میڈیا کا مزہ شیریں خود بھی چکھ چکی ہیں ۔ الیکشن 2013سے پہلے کی بات ہے ۔ خان جنوبی پنجاب کے دورے پر تھا۔ اسے ڈیرہ غازی خاں بھی جانا تھا، جہاں شیریں نے اپنے علاقے میں خان کے خیر مقدم کا اچھا خاصا انتظام کر رکھا تھا، لیکن خان جہانگیر ترین کے حلقے ہی سے لاہور واپس چلا گیا (ظاہر ہے ، ترین کے جہاز میں)۔ یہ شیریں کی جاگیردارانہ انا کے لیے شدید جھٹکا تھا، جسے وہ برداشت نہ کرپائیں اور خان کی اس بے مروتی پر ایک سخت سا احتجاج ریکارڈ کرا دیا۔ اس پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے ان کے خلاف پراپیگنڈے کا طوفان اٹھادیا، ان کی صاحبزادی بھی الزامات کی زد میں تھیں۔ شیریں کا کہنا تھا کہ وہ اس مہم کے پس پردہ ہاتھوں کو بخوبی جانتی ہیں، انہیں معلوم ہے کہ سوشل میڈیا کون چلاتا ہے۔ کچھ دنوں کی ناراضگی کے بعد ، صبح کی بھولی شام کو گھر لوٹ آ ئی۔
لیکن اس طارق فاطمی والی ٹویٹ میں اصل '' ایکٹی ویٹی ‘‘ تو شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہوگئی، جنہوں نے آئو دیکھا نہ تائو، ٹویٹ پر اعتبار کیا اور قومی اسمبلی میں اس پر تقریر جھاڑ دی، ہم تو شاہ صاحب کو خاصازمانہ ساز اور زمانہ شناس سمجھتے ہیں، پھر انہوں نے شیریں کی ٹویٹ پر اندھا اعتبارکیوں کر لیا؟ ایک ایسا وقوعہ جو ہوا ہی نہ تھا، شاہ صاحب اس پر جذباتی ہوئے جارہے تھے۔ نعیم الحق نے معذرت کرلی، فاطمی صاحب سے بھی اور اخبار والوں سے بھی۔ کیا اپنے شاہ صاحب بھی، جن کا شور اب '' سیزنڈ‘‘ اور '' سینئر‘‘ پارلیمنٹرینز میں ہوتا ہے، اس پر جناب سپیکر اور ایوان سے معذرت کرنا پسند کریں گے اور یہ درخواست بھی کہ ان کی اس تقریر کو ایوان کی کا روائی سے حذف کردیا جائے اور یوں یہ مضحکہ خیز واقعہ پارلیمانی تاریخ کا حصہ نہ بننے پائے۔
ہمیں نعیم الحق کی یہ معذرت والی ادا اچھی لگی وہ چند روز قبل مئی2013کے انتخابات میں ، دو دوست ملکوں کے علاوہ جنرل کیانی کے سازشی کردار والی بات پر بھی معذرت کرچکے تھے۔ البتہ گذشتہ روز الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے میں ان کی یہ چیخ و پکار ہمیں بڑی مضحکہ خیز سی لگی کہ حکومت ایک حکمت عملی کے تحت پی ٹی آئی کو مقدمات میں الجھا رہی ہے، جس کا اصل مقصد پاناما کیس سے توجہ ہٹانا اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ اسے کہتے ہیں ، ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ گذشتہ سال اپریل میں '' پاناما ‘‘ آیا تو وزیر اعظم نے اس کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کی رضا کارانہ پیشکش میں تاخیر نہ کی۔ طویل اگر،مگر کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ نے Take upکرلیا، تو یہاں بھی وزیر اعظم نے کسی استثنیٰ ، کسی Immunityکا سہارا لینے کی کوشش نہ کی۔ اب عدالت عظمیٰ کی منتخب جے آئی ٹی سے تعاون میں بھی انہیں کوئی تامل نہیں۔جہاں تک خان کے خلاف کیسز کا معاملہ ہے، الیکشن کمیشن میں یہ پٹیشن خود پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبرایس بابر نے دائر کی، یہ پارٹی کے لیے بیرونی فنڈنگ سے متعلق ہے ۔ نواز شریف تو اپنی تین نسلوںں کا حساب دے رہے ہیں اور خان صاحب چند برسوں کے حسابات پیش کرنے میں بہت لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں، جس پر جناب چیف الیکشن کمشنربرہمی کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔الیکشن کمیشن میں دوسرا معاملہ توہین عدالت کا ہے۔ سپر یم کورٹ میں خان اور ترین کے خلاف پٹیشز حنیف عباسی ہے، نبی گالہ فارم ہائوس اور لندن کی آف شور کمپنی کے علاوہ ترین صاحب کے مالی معاملات کے حوالے سے ہے۔ البتہ تازہ نوٹس شہباز شریف اور حمزہ کی طرف سے ہیں، ان میں پاناما کے حوالے سے دس ارب روپے کی پیشکش کے الزام پر خان سے معذرت کرنے، بصورت دیگر دس ، دس ارب ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیاگیاہے۔ حیر ت ہے، ہمت اور جرات سے ان مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے خان کا ترجمان رونے ، دھونے پر اتر آیا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved