تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-05-2017

رسموں کا مایا جال

رسم و رواج ویسے تو ہر معاملے میں پائے جاتے ہیں۔ لوگ قدم قدم پر رسم و رواج کا سہارا لے کر زندگی کو آسان اور رنگین بناتے ہیں مگر شادی؟ شادی محض تقریب نہیں ہوتی، رسموں اور رواجوں کا مجموعہ... بلکہ مایا جال ہوتی ہے۔ شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب سے نکاح اور ولیمے تک ہر معاملہ بہت سی رسموں میں گندھا ہوا ہوتا ہے۔
شادی نئی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے۔ ویسے تو شادی کے بعد مرد و زن دونوں ہی کے لیے سب کچھ بدل جاتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ زیادہ تبدیلیاں مرد کے لیے واقع ہوتی ہیں۔ پہلے مرحلے میں دوست چُھوٹ جاتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اپنے چُھوٹتے جاتے ہیں اور سُسرالی عزیز اپنے ہوتے جاتے ہیں! اور پھر معاملہ ایسا رُخ اختیار کرتا ہے کہ مرد بے چارہ قدم قدم پر بیگم کا ہاتھ تھام کر کہتا ہے ؎ 
یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کون سا دیار ہے 
حدِ نگاہ تک جہاں غُبار ہی غُبار ہے! 
شادی سے پہلے اور شادی کے دوران قدم قدم پر طرح طرح کی رسمیں بکھری رہتی ہیں۔ پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی رسم کچل نہ جائے! ہم نے بارہا سوچا ہے کہ ایک اچھی خاصی ڈگر پر چلتی ہوئی زندگی کو شادی کے ذریعے دوسری ڈگر پر ڈالنا کیا کافی نہیں ہوتا؟ اگر ہاں تو پھر شادی کے نام پر اِتنی بہت سی رسمیں کس کھاتے میں ہیں؟ قدم قدم پر رواج کیوں پیروں سے ٹکراتے ہیں؟ ہم نے طرح طرح کی رسموں اور رواجوں کو پروان چڑھا کر شادی جیسے فطری معاملے کو ''میگا ایونٹ‘‘ میں کیوں تبدیل کر دیا ہے؟ شادی کی دیوار پر رسموں کے نقش و نگار بنانے کے معاملے میں بھارت اور افریقا دونوں ہی بہت عجیب واقع ہوئے ہیں۔ دونوں کے ہاں اِس حوالے سے ایسی شاندار رنگا رنگی اور نیرنگی پائی جاتی ہے کہ ''ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے‘‘ والی کیفیت بار بار پیدا ہوتی ہے اور مستقل حالتِ اضطراب میں رکھتی ہے۔ اِن دونوں خطوں میں شادی کی رسمیں ایسی رنگا رنگ ہوتی ہیں کہ اُن کا سوچ کر عالم تاب تشنہؔ بے ساختہ یاد آگئے ع 
حُسن وہ حُسن کہ دیکھے سے نِکھرتا جائے 
چند ایک برادریاں ایسی بھی ہیں جو پاکستان اور بھارت دونوں میں پائی جاتی ہیں۔ اِن برادریوں شادی کی تقریب سے جُڑی اِتنی رسمیں ہیں کہ لوگ گننے بیٹھیں تو پلک جھپکتے میں انگلیاں ختم ہو جائیں! بعض برادریوں میں ''ویڈنگ میگا ایونٹ‘‘ کم و بیش ایک ماہ تک جاری رہتا ہے۔ زندگی کے جھمیلوں میں پھنسے کے بعد خوشیوں کو ترسے ہوئے لوگ شادی کی ہر رسم سے جہاں بھر کی خوشیاں کشید کرتے پائے جاتے ہیں۔ اس میگا ایونٹ کو بخیر و خوبی انجام تک پہنچانے کے لیے متعلقہ گھر والوں کا کباڑا ہو جاتا ہے، مگر خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ اور جہاں معاملہ بہت سی خوشیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا ہو وہاں پیسے کا منہ کون دیکھتا ہے؟ پیسہ تو ویسے بھی ہاتھ کا میل ہے۔ اچھا ہے کہ رگڑ رگڑ کر یہ میل اُتار ہی دیا جائے! 
افریقا میں ہر طرف قبائل ہی قبائل ہیں۔ جن ممالک میں شہری زندگی پنپ چکی ہے اُن میں بھی قبائلی شناخت برقرار ہے۔ صومالیہ اور ایتھوپیا کے وسط میں یعنی سرحدی علاقوں میں بورونا برادری رہتی ہے۔ اس برادری یا قبیلے میں بھی شادی بیان کے حوالے سے بہت سی عجیب و غریب اور دلچسپ رسمیں پائی جاتی ہیں۔ ایک عجیب رسم یہ ہے کہ بورونا برادری کی لڑکیاں اچھے جیون ساتھی کے لیے ایک مدت تک بال منڈواتی رہتی ہیں! 
دیکھا آپ نے؟ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ۔ ہمارے ہاں جس گھر میں شادی ہو رہی ہوتی ہے وہاں خرچے اِتنے ہوتے ہیں کہ قدم قدم پر اہل خانہ کا سَر مُنڈ جاتا ہے! شادی کی ہر رسم اُسترے کی طرح ہوتی ہے یعنی اہل خانہ کی جیب اور سَر دونوں ہی مونڈ دیتی ہے! ع 
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے 
خیر، بورونا برادری کی لڑکیوں کے سَر مُنڈوانے کی بات ہم نے مرزا تنقید بیگ کے گوش گزار کی تو اُنہوں نے بظاہر حیرت زدہ ہوئے بغیر کہا ''یہ تو محض دکھاوا ہے۔‘‘ 
ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ اِس میں دکھاوے کا کیا پہلو ہے؟ اگر لڑکیاں اچھے جیون ساتھی کا حصول یقینی بنانے کے لیے ٹوٹکے کے طور پر سَر مُنڈواتی ہیں تو اِس میں بُرا کیا ہے؟ اور دکھاوا کہاں سے آگیا؟ یہ تو سراسر مستقبل کے جیون ساتھی سے محبت کا بھرپور اظہار ہے۔ ہر لڑکی کو اپنے بال دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ اگر بال محض جھڑنے لگیں تو وہ پاگل ہو اُٹھتی ہے۔ ایسے میں بال کٹوانا! اِسے تو نئی زندگی بہتر بنانے کے لیے حد سے گزر جانا کہیے! 
ہماری بات سُن کر مرزا نے افریقی قبائل کے جادوگروں کی طرح زیرِ لب کچھ پڑھ کر ہمیں ''خراج تحسین‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا ''تمہاری کوڑھ مغزی دیکھ کر خیال آتا ہے کہ تمہیں کالم نگار ہی ہونا چاہیے تھا۔ کالم لکھنے کے لیے ویسے تو تم اپنے ذہن کے گھوڑے خوب دوڑاتے ہو۔ اِس معاملے میں کیا ہوگیا؟ لگتا ہے شادی کی رسموں سے متعلق کچھ لکھتے وقت اہلیہ کے ممکنہ ردعمل کا سوچ کر تمہارا خون خشک ہو جاتا ہے!‘‘ ہم نے خلوص اور احترام کے ساتھ عرض کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اور اگر ہو بھی تو کیا ہے؟ ہر شریف آدمی بیوی سے ڈرتا ہی ہے۔ 
مرزا نے جوابی وار کیا ''ہاں، تم جیسے لوگ خود کو شریف ثابت کرنے کے لیے بیوی سے ڈرنے والی دلیل خوب لاتے ہیں! اگر ذرا سی بھی عقل استعمال کرتے تو اندازہ لگا سکتے تھے کہ بورونا برادری کی لڑکیاں محض دکھاوے کے لیے کچھ مدت بال مُنڈواتی ہیں۔ یہ تھوڑے دن کی تکلیف بھلا اُن سے کیونکر گوارا نہ ہوگی کہ شادی کے بعد تو اُنہیں زندگی بھر میاں ہی کا سَر مُونڈنا ہوتا ہے! اور یوں بھی صومالیہ اور ایتھوپیا کے درمیانی حصے کی لڑکیوں کا سَر مُنڈوانا کچھ حیرت انگیز نہیں کیونکہ خانہ جنگی نے دونوں ممالک کو بہت سے معاملات میں گنجا کر رکھا ہے! جب خراب حالات نے ملک ہی کو گنجا کر رکھا ہو تو پھر لڑکیوں کو سَر مُنڈوانے میں شرم کیوں محسوس ہو؟‘‘ 
ہم مرزا کی بات سے ایک خاص حد تک متفق ہوئے مگر پھر اُنہیں زچ کرنے کی نیت سے کہا کہ معاملہ خواہ کچھ ہو، اُن لڑکیوں کے جذبے کو تو سلام کرنا ہی پڑے گا جو اچھے جیون ساتھی کے حصول کے لیے سَر کے بالوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ 
مرزا نے اِس بار ذرا بلند آواز سے ہماری شان میں چند انتہائی ''آراستہ‘‘ جملے ادا کیے اور اِس کے بعد چند قیامت خیز الفاظ کی مدد سے اُن لڑکیوں کی ''عزت افزائی‘‘ فرمائی جو اچھے جیون ساتھی کا حصول یقینی بنانے کے لیے بخوشی سَر منڈواتی پھرتی ہیں۔ پھر ہمیں سمجھاتے ہوئے کہا ''بھائی، اِن حرکتوں سے متاثر نہ ہوا کرو۔ ہمیشہ حتمی نتیجے پر نظر رکھو۔ کہیں کی بھی لڑکیاں شادی سے پہلے خواہ کتنی ہی بار سَر مُنڈوالیں، یہ سب کچھ دن کی بات ہے۔ ساری زندگی تو اُن غریبوں کے سَر ہی مُونڈے جائیں گے جو بے چارے اِن کے پَلّو یا آنچل سے باندھے جائیں گے!‘‘ 
ہم نے چند لمحے سوچا تو محسوس کیا کہ مرزا کی بات سے اتفاق کے سوا چارہ نہیں!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved