تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-05-2017

صدر ٹرمپ کے ابتدائی ایام

اور کچھ ہو نہ ہو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس کو دلچسپ جگہ بنا دیا ہے جہاں کوئی نہ کوئی ہنگامہ ہوتا رہتا ہے۔ فروری میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مائیکل فلین Miclal flyan کی چھٹی کرا دی اور پچھلے ہفتے ایف بی آئی کے چیف جیمز کومی James Comy کو ان کے عہدے سے علیحدہ کر دیا۔ آتے ہی حکم دیا کہ سات ممالک کے لوگ امریکہ نہیں آ سکیں گے‘ خواہ ان کے پاس ویزہ بھی ہو۔ وہ تو بھلا ہو امریکی عدلیہ کا جس نے فیصلہ دیا کہ ویزہ ہولڈرز کو امریکہ داخل ہونے سے نہ روکا جائے۔ نئے صدر کے رویّے گو کہ آمرانہ ہیں لیکن امریکی دستور میں چیک اینڈ بیلنس کا اچھا نظام بھی موجود ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارت کا انداز بہت مختلف ہے۔ موصوف نے آتے ہی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا سے ٹکر لے لی۔ انہیں سات مسلمان ملکوں سے امیگرنٹس آنے کا اس قدر خوف تھا کہ کوئی ہوم ورک کئے بغیر نادر شاہی حکم صادر کیا کہ خبردار اگر کوئی شخص ان سات ممالک سے امریکہ میں داخل ہوا۔ نتیجہ کیا نکلا کہ لوگ ویزوں سمیت امریکہ کے ایئرپورٹس پر بیٹھے تھے اور امیگریشن والے انہیں داخلہ نہیں دے رہے تھے۔ بالآخر عدلیہ نے مسئلہ حل کیا۔ ایک اور فیصلے میں عدلیہ نے پوچھا کہ صرف مسلم ممالک کے لوگوں پر ہی پابندی کیوں لگائی گئی ہے؟ امریکی دستور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔
ایک بات واضح ہے کہ صدر ٹرمپ ڈپلومیسی پر فوجی طاقت کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکہ کے دفاعی بجٹ میں دس فیصد اضافے کی تجویز پیش کر دی گئی ہے‘ جبکہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یعنی وزارت خارجہ کا بجٹ کم کیا جا رہا ہے۔ اس وقت وزارتِ دفاع کا بجٹ تقریباً سات سو ارب ڈالر ہے جبکہ وزارتِ خارجہ کا صرف انتیس 29 بلین ڈالر۔ جب امریکی حکومت کو گزشتہ ماہ شک ہوا کہ بشارالاسد کی حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں تو فی الفور فیصلہ ہوا کہ جس ہوائی اڈے سے شامی جہاز کیمیائی ہتھیار لے کر اڑے تھے‘ وہاں میزائل برسائے جائیں؛ چنانچہ حمص کے قریب ایئر بیس پر میزائل پھینکے گئے۔ یہ کام بحیرہ روم میں موجود ایک امریکی نیول جہاز نے کیا۔ صدر ٹرمپ فوری فیصلوں پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ گربہ کشتن روز اول کے مصداق دنیا پر امریکی عسکری طاقت کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں‘ لیکن موصوف شاید یہ بھول رہے ہیں کہ امریکہ کی اصل طاقت قانون کی حکمرانی میں ہے‘ ریسرچ میں ہے اور اعلی تعلیمی اداروں میں ہے۔ دنیا جہاں کے ممالک امریکہ کی یونیورسٹیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
دو اور محاذوں پر صدر ٹرمپ کو پسپائی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اوباما کیئر صحت کے بارے میں پروگرام تھا‘ جس میں غریب اور متوسط طبقے کا فائدہ تھا۔ صدر ٹرمپ نے الیکشن مہم میں کہا تھا کہ وہ اوباما کیئر پر اخراجات کم کر دیں گے۔ دراصل صدر ٹرمپ ٹیکس کافی کم کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اگر حکومت کا ریونیو یعنی محصولات کم ہوں گے تو اوباما کیئر جیسے پروگرام متاثر ہونے کا قوی امکان تھا‘ لیکن ووٹرز نے اپنے اپنے نمائندوں کو واضح پیغام دیا کہ اس مفید پروگرام کو جاری رہنا چاہیے۔ کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کی واضح اکثریت کے باوجود صدر ٹرمپ کو اس پروگرام میں کٹوتی کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اسے کہتے ہیں جمہوریت اور یہ ہے ووٹ کی اصل طاقت۔
ایک اور فرنٹ جہاں صدر ٹرمپ کی پسپائی نظر آ رہی ہے وہ ہے میکسیکو کے ساتھ سرحدی دیوار تاکہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے والوں کو مکمل طور پر روکا جائے۔ دیوار کی تعمیر کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر درکار ہیں اور یہ رقم ملنا مشکل ہے؛ البتہ موجودہ حکومت کے دیگر سخت اقدامات کی بدولت میکسیکو سے غیر قانونی داخلے میں چالیس فیصد کمی آئی ہے۔ پہلے ایسے لوگوں کو پکڑ کر واپس اپنے ملک بھیج دیا جاتا تھا۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے لوگوں کو گرفتار کر کے سزا دی جائے گی۔ 
ٹرمپ انتظامیہ نے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کا معاہدہ ختم کر دیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے آسٹریلیا اور بحرالکاہل کے دس دیگر ممالک کو تجارتی سہولتیں دینا تھیں یہ معاہدہ عملدرآمد ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ ویسے تو یہ کوئی بڑی ڈویلپمنٹ نہ تھی لیکن تمام مبصرین نے نوٹ کیا کہ جس وقت چین ‘یورپ‘ ایشیا اور افریقہ کے ممالک سے تجارتی روابط بڑھا رہا ہے امریکہ تنہائی کی جانب جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کی وجہ سے نیٹو کے ممبر ممالک اور یورپی یونین تک پریشان لگتے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکہ کا تعاون موجودہ انٹرنیشنل عسکری اقتصادی اور سکیورٹی نظام کی جان ہے‘ جبکہ صدر ٹرمپ اس سارے نظام سے کنارہ کشی کرنا چاہتے ہیں۔ پچھلے دنوں امریکہ نے ورلڈ بینک کے لیے اپنے سالانہ عطیہ میں خاطر خواہ کمی کا اعلان کیا۔
صدر ٹرمپ کو شک ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں اس بات کی کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ روس کا گزشتہ صدارتی انتخاب میں کیا رول تھا۔ اب ایک بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ روسی لیڈرشپ کی اس الیکشن میں دلچسپی واضح تھی۔ یہ بات بھی اکثر لوگ مانتے ہیں کہ ہلری کلنٹن کے خلاف پروپیگنڈا میں روسی کمپیوٹر ہیکر شامل تھے اور پھر سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی کہ جو خاتون سرکاری ای میلز کی حفاظت نہیں کر سکتی‘ وہ اچھی صدر کیسے بن سکتی ہے۔ امریکہ میں یہ بات عام کہی جا رہی ہے کہ روسیوں نے ہلری کی بہت ساری معلومات کمپیوٹر سے ہیک کرکے وکی لیکس والے مسٹر سنوڈان کو پہنچائیں ابھی تک یہ بات ثابت نہیں ہو سکی کہ صدر ٹرمپ یا ان کی الیکشن ٹیم کا ماسکو کے ساتھ کوئی باقاعدہ رابطہ تھا یا نہیں۔ اگر اس سلسلہ میں تحقیقات باقاعدہ طور پر شروع ہو گئیں تو صدر ٹرمپ کے سر پر اُس وقت تک تلوار لٹکتی رہے گی‘ جب تک یہ تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ کے صرف اکتالیس 41 فیصد لوگ صدر ٹرمپ کو بطور لیڈر پسند کرتے ہیں۔ صدارت کے آغاز میں ہی یہ کوئی اچھا سکور ہے اور نہ ہی نیک شگون۔ الیکشن کی مہم کے دوران عام خیال یہ تھا کہ ٹرمپ پاکستان کے لیے اچھے ثابت نہیں ہوں گے لیکن موجودہ حقیقت ذرا مختلف ہے ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں آمد کے بعد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو فنڈز ملے ہیں جو کہ کافی دیر سے رکے ہوئے تھے۔ صدر ٹرمپ نے کشمیر کے بارے میں ثالثی کا عندیہ بھی دیا جو کہ حسبِ توقع انڈیا کی ہٹ دھرمی کی نذر ہو گیا۔ دراصل صدر اوباما بہت ہی انڈیا نواز تھے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد تو وہ بہت پاکستان مخالف بن گئے تھے۔ صدر ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل میک ماسٹر پہلے اہم امریکی آفیشل ہیں جنہوں نے پچھلے ماہ پاکستان کا دورہ کیا۔ امریکہ افغانستان کے مسئلے کے پرامن حل کے لیے پاکستان کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
مجموعی طور پر اپنے ابتدائی ایام میں صدر ٹرمپ نے ثابت کیا ہے کہ وہ جو کہتے آئے ہیں اُس پر عمل کرنے کو تیار ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved