آنکھ
ہمارے اعضاء بالعموم کثیر استعمال اور کثیر المقاصد ہیں‘ ایک آنکھ ہی کو لیجئے‘ یہ لڑتی ہے اور لڑائی جاتی ہے‘ چُرائی جاتی ہے‘ بچائی جاتی‘ دکھائی جاتی اور مٹکائی جاتی ہے حتیٰ کہ ماری بھی جاتی ہے۔ اگرچہ دیکھنا اس کا بنیادی کام ہے لیکن ہم اس سے سینکڑوں دوسرے کام بھی لیتے ہیں جبکہ آنکھیں چار کرنا ان سب کے علاوہ ہے۔ اس کے حوالے سے آدمی کانا‘ اندھا اور بھینگا ہو سکتا ہے البتہ کسی کا کانا ہونا بالکل الگ چیز ہے جبکہ عقل کے اندھے کا تعلق آنکھوں سے ہرگز نہیں ہے۔ آنکھیں ماتھے پر بھی رکھی جا سکتی ہیں جس کے لیے انہیں باہر نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آدمی ساون میں اندھا ہو جائے تو اُسے ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔ آنکھ میں پھولا ہو تو یہ شناختی نشان کے طور پر کام آتا ہے۔ بھینگے کو بڑا بھی کہتے ہیں جیسے کہ حنیف بڑا۔ اگر آدمی آنکھوں کو دگنا کر سکے تو اسے آنکھیں چار کرنا کہتے ہیں۔ سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسری آنکھ کام نہیں کر رہی جیسے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے۔
ناک
مکھّی ہمیشہ ناک پر بیٹھتی ہے۔ جب کہیں ناک کا سوال پیدا ہو جائے تو اسے خطرناک بھی کہتے ہیں۔ اس کا کام سُونگھنا تو ہے ہی لیکن آنکھ کی طرح اس سے بھی بہت سے کام لیے جاتے ہیں‘ مثلاً اس سے لکیریں نکالی جاتی ہیں جبکہ ناک رگڑنا بھی اسی طرح کا کام ہے۔ سیدھے راستے پر چلنا ہو اور ادھر ادھر دیکھنا نہ ہو تو ناک کی سیدھ میں چلا جاتا ہے یہ دو نتھنوں اور ایک بانسے پر مشتمل ہوتی ہے جس کا بانس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسے قابو کرنے کے لیے نکیل ڈالنا ضروری ہوتا ہے۔ ناراضی کا اظہار کرنے کے لیے ناک پھلائی بھی جاتی ہے۔ یہ عام طور پر سُتواں ہوتی ہے اور اگر چپٹی ہو تو چینی یا جاپانی کہلاتی ہے۔ نکیل کے علاوہ نتھ اور کوکا بھی اسی قبیل کی چیز ہے ،یہ زُکام کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی ہے کیونکہ اس دوران اس کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں دم بھی کیا جاتا ہے۔ شاعر نے اپنی محبوبہ کی تعریف اس طرح بھی کی ہے ؎
آنکھ تیری ہے آنکھ‘ ناک ہے ناک
اور ترا کان کان ہے پیارے
بھارت میں ایک شہر کان پور ہے‘ کان کوکھینچا اور اینٹھا بھی جاتا ہے۔ سلیس اُردو میں اسے کان مروڑنا کہتے ہیں۔ یہ اُلٹے ہاتھ سے بھی پکڑا جاتا ہے۔ کان پکڑوانا اور مُرغا بنانا ایک ہی چیز ہے۔ کانوں کا کچّا ہونے کا طعنہ سننے کی بجائے کان پکا کروا لینا بہتر ہے تاکہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہو۔ اُونچا سننا یا کانوں سے بہرہ ہونا ایک جیسے نہیں تو قریب قریب ضرور ہیں۔ بہرے آدمی سے بہرہ ور ہونا زیادہ آسان ہے۔ شعر ایک بار سمجھ میں نہ آئے تو اسے مکّرر کہلواتے ہیں۔ جس چیز پر جُوں رینگ رہی ہو‘ سمجھ لیجئے کہ وہ کان ہے۔ کان کی مئونث نمک کی کان کہلاتی ہے۔ دوکان اس لیے کہا جاتا ہے کہ دُکاندار کے دو کان ہوتے ہیں۔
گردن
سر اور دھڑ کے درمیان واقع ہوتی ہے۔ اس کی جمع گردان ہے۔ گردن مارنے کا مطلب صرف گردن کو مارنا نہیں بلکہ سارے آدمی ہی کو موت کے گھاٹ اتارنا ہوتا ہے۔ پھانسی کے لیے بھی گردن ہی کام آتی ہے۔ صُراحی دار گردن کا مطلب یہ ہے کہ اُس میں پانی وغیرہ بھی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ اونٹ اور ذرافے کی صرف گردن ہی قابل ذکر ہے۔ ان کا باقی جسم کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ اسے گلا بھی کہتے ہیں جس میں ہار بھی پہنا جاتا ہے اور اسے کاٹا بھی جاتا ہے۔ گردن نہ ہوتی تو ہم جانور ذبح کرنے سے محروم رہ جاتے۔ کسی کے گلے کا ہار ہو جانا زبردستی کے زیور کو کہتے ہیں۔ گلُو بند پہننے سے گلہ بند نہیں ہوتا حالانکہ ہونا چاہیے۔ یہ گانے کے کام بھی آتا ہے حالانکہ آواز حلق سے نکلتی ہے جس کا کریڈٹ غلط طور پر گلے کو دیا جاتا ہے۔ مظلوم عضُو ہے کیونکہ گناہ اسی پر آتا ہے۔ گردن موڑنا بھی غلط ہے کیونکہ مُڑتا تو صرف سر ہے‘ گردن تو اپنی جگہ پر رہتی ہے۔ کوئی ہتھیار دستیاب نہ ہو تو گردن دبانے سے بھی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کسی کے گلے پڑنا گلے ملنے سے ذرا مختلف چیز ہے۔ گردن گردن تک پانی ہو تو اس کی گہرائی ناپنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
دانت
یہ عام طور پر نکالے جاتے ہیں‘ دندان ساز کے ذریعے بھی اور ہنستے ہوئے بھی‘ یہ دو طرح کے ہوتے ہیں یعنی کھانے کے اور دکھانے کے۔انہیں کحکچاتیِ‘ پیستے اور چباتے ہیں‘ علاج دنداں صرف اخراج دنداں بتایا گیا ہے۔ دودھ کے دانت وہ ہوتے ہیں جو دودھ سے بنائے جاتے ہیں۔ لڑائی میں اگر آپ نہتے ہوں تو یہ خدمت آپ کے دانت بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔ دانتاکل کل بھی غالباً دانتوں ہی کی کسی بیماری کا نام ہے۔ سردی میں دانت بجتے بھی ہیں یعنی مفُت کی موسیقی۔ دانت کھٹے کرنے کے لیے لیموں وغیرہ درکار نہیں ہوتا۔ دانت مذکر ہیں لیکن جب اکٹھے ہوں تو مونث یعنی بتیسی کہلاتے ہیں۔ البتہ داڑھ ان کی مونث ہو سکتی ہے۔ عقلمند ہونے کے لیے عقل داڑھ کا نکلنا ضروری ہے‘ یہ گرم بھی کی جاتی ہے۔ ہمارے اہلکار طبقے کی داڑھ بالعموم ٹھنڈی ہوتی ہے جسے کام نکالنے کے لیے گرم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ بتیس دانتوں کے نرغے میں رہ کر بھی زبان کیونکر محفوظ رہتی ہے۔ دانت کاٹی روٹی کا مطلب ہمیں آج تک سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ ہر روٹی دانتوں کے ساتھ ہی کاٹی اور چبائی جاتی ہے۔ محبوبہ کے دانتوں کو موتیوں سے تشبیہہ دی جاتی ہے بشرطیکہ وہ میلے نہ ہوں۔ مشہور ادیب اور مفکر دانتے اپنے دانتوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔سونے کا دانت بھی فراڈ ہے کیونکہ اس پر صرف سونے کا خول چڑھا ہوتا ہے۔
آج کا مقطع
ہمیں بھی تھی نہ کچھ اُمیّد پہلی بار ظفر
سلوک اس کا دوبارہ ہی اور ہونا تھا