پاکستان آج کل کلبھوشن ہنگامے کی زد میں ہے۔ اِن صاحب کو دہشت گردی اور جاسوسی کے الزام میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا، اور فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر سزائے موت دے دی گئی۔ انکشاف ہوا کہ یہ بھارتی بحریہ کے ایک حاضر سروس افسر ہیں، اور جعلی نام سے ایران میں مقیم تھے، وہاں سے ایک جعلی پاسپورٹ پر پاکستان آئے، اور یہاں دہشت گردوں کو منظم کر رہے تھے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول برملا اِس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں اور دہشت گردی کو منظم کریں گے، اور ناک میں دم کر دیں گے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پاکستان کے خفیہ اداروں کی ایک بڑی کامیابی تھی کہ اس قسم کے دیدہ دلیر کم ہی کہیں ہاتھ آتے ہیں۔ دُنیا بھر میں یہ مسئلہ اٹھایا گیا، اور اقوام متحدہ کو ایک ڈوزیئر بھی بھجوایا گیا، لیکن ہماری میڈیائی توقع کے مطابق نتائج برآمد نہ ہوئے کہ اس طرح کی وارداتوں پر ردعمل ہر مُلک کا اپنا ہوتا ہے، وہ اپنی ضرورتوں اور مفادات کے تابع اپنی زبان کھولتا یا بند رکھتا ہے۔ بھارت کے لیے سبکی کا سامان ہو گیا، لیکن اس نے پنجابی محاورے کے مطابق گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لیے ''قونصلر رسائی‘‘ کی دہائی دینی شروع کر دی۔ پاکستان کا موقف واضح تھا کہ اس طرح کی رسائی سفارت کاروں یا عام شہریوں کو میسر آ سکتی ہے۔ اگر کوئی بھارتی باشندہ باقاعدہ ویزا حاصل کرکے پاکستان آیا ہوتا، اور یہاں غیر قانونی سرگرمیوں کی پاداش میں دھر لیا گیا ہوتا، تو اس تک سفارت کاروں کو رسائی دی جا سکتی تھی، کہ اُس کا مقدمہ لڑنے کا حق بھارتی حکومت کو حاصل ہوتا‘ لیکن پاک سرزمین میں گھسنے والے کسی شخص کو سفارتی سہولیات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ پاکستان کو اس قماش کے شخص سے اپنے قوانین کے مطابق نبٹنے کا حق حاصل ہے، اور وہ اس سے نبٹ کر رہے گا۔ بھارت کچھ ہی عرصہ پہلے اجمل قصاب نامی ایک مبینہ پاکستانی کو دہشت گردی کا مرتکب قرار دے کر تختۂ دار پر لٹکا چکا ہے، اور پاکستان نے اس معاملے میں کسی سفارتی مداخلت کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔ بھارت بھارت ہے، وہ قلا بازیاں کھانے، اور پینترا بدلنے میں مہارت رکھتا اور کسی بھی وقت کوئی بھی موقف اختیار کر سکتا ہے۔ جب بھی کسی پاک بھارت تنازع یا اختلاف میں ثالثی کی بات آتی ہے، بھارتی حکومت (گزشتہ کئی عشروں سے) کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی ہے۔ اس کو ضد ہے کہ کسی تیسرے کو ہم دونوں ممالک کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی طے ہو گا، دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے ہو گا۔ یہ اور بات کہ دو طرفہ مذاکرات کا انعقاد ناممکن بنایا جاتا اور ان کے راستے میں کبھی ایک تو کبھی دوسرا روڑا اٹکایا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت نے اپنی خفت مٹانے اور اپنی ہی رائے عامہ کو ورغلانے کے لیے کلبھوشن کے مسئلے پر بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) میں درخواست دائر کر دی۔
استدعا یہ کی گئی تھی کہ پاکستان سے کہا جائے کہ وہ کلبھوشن تک سفارتی رسائی دے۔ اس استدعا کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روک دیا جائے کہ اگر وہ پھانسی پر لٹک جائے تو اس تک رسائی کا قصہ خود بخود تمام ہو جائے گا۔ بھارتی درخواست پر ترت کارروائی ہوئی تو اس میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ اسے موت کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا، جورسڈکشن کا معاملہ بھی اٹھایا کہ اس کے نزدیک سفارتی رسائی کا حق کسی دہشت گرد کو نہیں دیا جا سکتا، اور عدالت اس کی سماعت کا حق نہیں رکھتی‘ لیکن عدالت نے حتمی تصفیے تک پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا حکم جاری کر دیا۔ یہ ایک عبوری حکم ہے، عدالت کے دائرہ کار کے بارے میں ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ فرض کیجئے کہ بھارت کی درخواست حتمی طور پر قبول کر لی جائے تو بھی یہی کیا جائے گا کہ کلبھوشن یادیو تک سفارتی رسائی دے دی جائے۔ لیکن ہمارے بعض سیاسی اور صحافتی حلقوں کی طرف سے وہ اودھم مچایا گیا کہ الحفیظ الامان... کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ابھی تک الزام و دشنام کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی بین الاقوامی عدالت کے لتے لے رہا ہے، تو کوئی وہاں پیش ہونے والے قانون دانوں کے۔ کوئی وزیر اعظم پر حملہ آور ہے، اور دہائی دے رہا ہے کہ جندل سے ان کی ملاقات میں یہ سب طے ہو گیا تھا، گویا بین الاقوامی عدالت کو اس کی رائے یہاں سے لکھ کر بھجوائی گئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو بین الاقوامی عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا جاتا کہ آپ کو حقِ سماعت نہیں۔ حالانکہ اگر یہ موقف اختیار کر لیا جاتا تو پھر ساز باز اور ملی بھگت کے الزامات یہ کہہ کر لگائے جاتے کہ دفاع نہ کرکے یک طرفہ فیصلے کی راہ ہموار کر دی گئی۔ حکومتِ پاکستان کے ذمہ داران نے جس طرح اِس معاملے کو ہینڈل کیا، اس پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ پندرہ رکنی عدالت کے 11 رکنی بنچ نے جب سماعت شروع کی تو اس میں بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک جج صاحب بھی شامل تھے، ان کی موجودگی پر اعتراض کیا جا سکتا تھا یا ججوں کے پینل میں پاکستان کی طرف سے ایک جج نامزد کیا جا سکتا تھا۔ بین الاقوامی عدالت کے ضوابط کار کے تحت اگر شکایت کنندہ ملک سے تعلق رکھنے والا کوئی جج عدالت کا رکن ہو تو جس ملک کے خلاف شکایت کی جائے وہ اپنی مرضی کا ایک (ایڈہاک) جج بھی نامزد کر سکتا ہے۔ اس حق کو استعمال کرنا، پاکستانی عوام کی جذباتی آسودگی کا سامان کر دیتا۔
اس سب سے قطع نظر یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ بین الاقوامی عدالت کا فیصلہ ''بائنڈنگ‘‘ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس کوئی قوت نافذہ موجود نہیں ہے۔ عملدرآمد کا معاملہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل ہی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ماضی میں خود امریکہ بھی اس کے بعض فیصلے ماننے سے انکار کر چکا ہے، اور اسرائیل نے بھی اس کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پاکستان کو بھی ان مثالوں کی پیروی کرنی چاہیے، لیکن ہمیں اپنے اعصاب پر قابو تو بہرحال رکھنا ہو گا۔ ہر جھگڑے کو جنگ عظیم سمجھ لینا‘ اپنی عقل ہی کے بارے میں سوالات پیدا کر لینے کے مترادف ہے۔ پاکستانی قوم کے اہلِ سیاست اور اہلِ دانش اگر شعلے اگلتے اور آگ برساتے رہیں گے تو ان کا اپنا وجود ہی خاکستر ہو گا۔ اہلِ اقتدار پر بھی لازم ہے کہ وہ اہلِ اختلاف سے مشاورت کا اہتمام کریں اور قومی مسائل کو ذاتی بنائیں، نہ بننے دیں۔ یہ درست ہے کہ اس مقدمے کے معاملے میں فوجی حلقوں سے مشاورت کی گئی، اور ان کی تجویز پر وکیل کا تقرر ہوا، لیکن اگر حزبِ اختلاف کو بھی اعتماد میں لے لیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ بہرحال نقطے کو نقطہ اور دائرے کو دائرہ سمجھا جائے، بے نقط سنانے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)