تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     21-05-2017

پاک چین تعلقات اور امریکہ

آزادی کے وقت پاکستان کی حالت ایک ایسے بچے کی تھی جو آئی سی یو میں پیدا ہوا ہو۔ برٹش انڈیا کے معاشی وسائل میں سے پورا حصہ نہ ملنا، کئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کر دیا جانا، مہاجرین کی آباد کاری اور سب سے بڑھ کر بھارت کا اس تقسیم کو قطعاً قبول نہ کرنا‘ ایسے مسائل سے جو پاکستان کو درپیش تھے‘ اور جن کا حل اس کی قیادت کو تلاش کرنا تھا۔ سب سے بڑا بیرونی چیلنج یہ درپیش تھا کہ دنیا منقسم تھی‘ کمیونسٹ یعنی سوویت یونین اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی یعنی امریکی بلاک کے مابین سرد جنگ جاری تھی۔ پاکستان نے قریبی‘ اور ایشیا کی سپر پاور سوویت یونین کو چھوڑ کر امریکی بلاک کو جوائن کیا۔ امریکہ کمیونزم کے پھیلائو کو روکنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے امریکہ نے ایشیا میں CENTO یعنی سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن اور SEATO یعنی سائوتھ ایسٹ ایشین ٹریٹی آرگنائزیشن‘ کے نام سے دو بلاک بنائے۔ سیٹو 1954 جبکہ 1955 میں قائم کیا گیا۔ پاکستان دونوں کا حصہ بنا اور یوں کولڈ وار میں باضابطہ کود پڑا۔
اسی زمانے کا ذکر ہے کہ 1960ء میں امریکہ کا ایک جدید ترین اور بہت بڑا جاسوس جہاز U-2 پشاور کی حدود سے اڑا اور روس کے اوپر پرواز بھرنا شروع کی۔ اس پرواز کا مقصد اس وقت کے جدید ترین کیمروںکی مدد سے روس کی اہم تنصیبات بالخصوص ایٹمی تنصیبات کی تصاویر حاصل کرنا تھا۔ مگر روس نے یہ طیارہ اڑنے کے چند منٹوں بعد ہی گرا دیا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ لامحالہ پا کستان کو روس کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا‘ اور یہ بات عیاں ہو گئی کہ پاکستان میں ہر طرح سے امریکی عمل دخل عروج پر ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ ایوب خان کی طرف سے پہلے مارشل لا کے نفاذ میں امریکی مرضی اور حمایت پوری طرح شامل تھی‘ کیونکہ امریکہ پاکستان کو روس کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا اور ایک ڈکٹیٹر کی موجودگی میں یہ کام باآسانی کیا جا سکتا تھا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان میں جہاں انڈیا خود ہر ممکنہ طریقے سے ملوث تھا‘ وہاں اسے روس کی پوری حمایت اور مدد بھی حاصل تھی اور امریکہ بھی یہی چاہتا تھا کہ پاکستان دو حصے ہو جائے‘ کیونکہ دو حصوں میں ایک ملک نہیں تھا‘ بلکہ ان کی نظر میں یہ دو پاکستان تھے اور ایک بڑا مسلم ملک کمیونسٹ اور کیپیٹلسٹ طاقتوں کو نامنظور تھا۔ بھارت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان پر بھی مزید یلغار کرنا چاہتا تھا‘ مگر امریکی صدر نکسن نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو کال ملائی اور تاریخی الفاظ کہے ''بوڑھی چڑیل بہت ہو گیا Old witch enough is enough ‘‘ مطلب یہ کہ مغربی پاکستان پر لشکر کشی سے روک دیا گیا‘ کیونکہ امریکیوں کو اندازہ تھا کہ روس کی پیش قدمی روکنے کے لیے موجودہ پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔ ان کا یہ اندازہ حالات اور وقت نے درست ثابت کیا۔ 1979ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کے بعد پاکستان کی فوج نے امریکہ کی فوج سے (ویت نام) بڑی جنگ لڑی اور اس کا یہ اقدام افغانستان میں سوویت فوجوں کی شکست کا باعث بنا۔ اس جنگ میں پاکستان کے کردار کو غیر جانبدار امریکی ماہرین آج نہیں جھٹلا پائے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اس وقت ضیاء الحق کا دور تھا۔ انہیں امریکہ کی ہر ممکن مدد اور حمایت حاصل تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مبصرین پاکستان کو امریکہ کی 51ویں ریاست کہتے تھے۔یعنی اس وقت امریکہ اپنی 50 ریاستوں کے بعد جس ملک میں ملوث اور منحصر تھا‘ وہ پاکستان تھا۔ کسی ماہر نے اس دور کو ٹرپل اے کا دور قرار دیا تھا کہ پاکستان میں جو ہوتاہے اللہ کے نام پر ہوتا ہے امریکہ کے حکم پر ہوتا ہے اور آرمی کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔ ضیاء الحق دور میں 1980ء کی دہائی کے ایک کالم میں رائٹر نے ایک فقرہ لکھا تھا کہ اسلام آباد کو جانے والی تمام سڑکیں واشنگٹن میں سے ہو کر گزرتی ہیں۔ 
جیسے ہی سوویت یونین کو شکست ہوئی اور اس نے افغانستان سے پسپائی اختیار کی تو امریکہ نے یہ محسوس کیا کہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروا لیا جائے گا‘ لہٰذا ذوالفقار بھٹو کی طرح ضیاء الحق کے عہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اور پھر سانحہ بہاولپور پیش آیا‘ جس میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ ضیاء الحق کو کافی حد تک اندازہ ہو چکا تھا کہ اب امریکی اسے مار سکتے ہیں لہٰذا سانحہ بہاولپور والے دن اپنے بہاولپور کے دور میں ضیاء الحق نے امریکی سفیر کو بھی اپنے ہی طیارے میں بٹھا لیا‘ مگر چونکہ ضیاء الحق سے نجات حاصل کرنا طے ہو چکا تھا اس لیے ان کے ساتھ امریکی سفیر کو بھی قربان کر دیا گیا۔ اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت آئی‘ تو اسے تقریباً دو سال کے بعد اس وقت کے صدر غلام اسحاق نے برخاست کر دیا۔ تاریخ نے ایک عجیب واقعہ دیکھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو بغیر پروٹوکول کے صبح سویرے امریکی سفیر کی رہائش گاہ پر امداد کی آس یا شکوہ شکایت لے کر پہنچیں‘ یعنی محترمہ کو یقین تھا کہ اگر کوئی ان کی حکومت کو بحال کروا سکتا ہے تو وہ امریکی سفیر ہے۔
آخر میں ذکر ایوب خان کا۔ جب وہ اپنی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہا تھا تو امریکی سفیر کا فون آیا‘ جو ان (ایوب خان) کے سیکرٹری نے سنا۔ سیکرٹری کے بتانے پر کہ جناب صدر کابینہ کی میٹنگ میں ہیں‘ اس لیے وہ بات نہیں کروا سکتا‘ امریکی سفیر نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ بہرحال کابینہ کا اجلاس ختم ہونے پر ایوب خان کو امریکی سفیر کے رویہ کے متعلق بتایا گیا تو ایک تاریخی فقرہ کہا گیا "Do not bother beggers are not the choosers" مشرف دور میں دی جانے والی ایئر بیسز پاکستان میں بلیک واٹر اور دیگر امریکی سرگرمیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم UK سے آزادی حاصل کرنے کے بعد USA کے بھرپور اور مکمل طور پر زیرِ اثر بطرز طفیلی ریاست رہے ہیں۔ اس کے عوض پاکستان کو کتنے منصوبے ملے‘ کتنی امداد ملی اور مجموعی طور پر کیا فائدہ ہوا؟ اس کا اندازہ آپ خود لگائیں!
نوٹ: حالیہ پاک چین تعلقات اور معاملات‘ خصوصی طور پر سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تناظر میں بعض مبصرین کی جانب سے چین کی پاکستان میں در اندازی کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کالم میں گنجائش نہیں، ورنہ ضرور بات کرتا‘ عین اسی طرح جیسے چین کی در اندازی امریکی حدوں کو چھونے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved