ایسا نہیں کہ پروفیسر احسن اقبال جانتا نہ ہو‘ خوب وہ جانتا ہے مگر بیچارہ کیا کرے؟ع
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر‘ بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
سائنس دان جب اپنی بات کہہ چکا تو غلام اسحٰق خان نے سر اٹھایا اور کہا : سالِ گزشتہ آپ نے ایک مختلف بات کہی تھی۔
اس واقعے پر کئی سال بیت چکے تھے‘ جب پاکستان نے چاغی میں چھ عدد ایٹمی تجربات کئے اور جہاں دنیا کے سب سے زیادہ میٹھے اور خوشبودار خربوزے اگتے ہیں‘ ایک سائنس دان سے میں ملنے گیا۔ اس کا پڑوسی میرا دوست تھا۔ اس نے کہا : اپنے گھر پہ ملاقات کا بندوبست کر دوں گا‘ باقی تمہاری قسمت۔
یہ ایک بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ کمال احتیاط کے ساتھ‘ رفتہ رفتہ اصل موضوع کی طرف لے جانا اور اس دوران‘ اس قدر اعتماد پیدا کرنا کہ کم از کم بنیادی معلومات حاصل کی جا سکیں۔
غلام اسحٰق خان کا ذکر ہوا۔ گفتگو کے اس موڑ پر یکایک اس نے کہا : مگر آپ تو بے نظیر بھٹو کے مداح ہیں۔ ''اس کی تصویر‘ ڈرائنگ روم سے اتار کر‘ میں نے سٹور میں لگا دی ہے‘‘۔ بوڑھے آدمی نے کہا‘ جو دنیا جہان سے بے نیاز دکھائی دیتا تھا۔ ''جہاں تک خان صاحب کا تعلق ہے‘ ہم سب کے لیے وہ باپ کی طرح محترم ہیں‘‘۔
سیکرٹری خزانہ تھے‘ وزیر خزانہ‘ سینٹ کے چیئرمین یا صدرِ پاکستان‘ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر 1993ء میں نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ تک‘ بیس برس تک خان صاحب ایٹمی پروگرام سے وابستہ رہے۔ کتنے ہی نازک مراحل اس دوران آئے ہوں گے۔ ان سب میں وہ سرخرو گزرے بلکہ سبکدوشی کے بعد بھی۔
فخر ایشیا‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو جیل کی کوٹھڑی میں‘ خود ترسی نے چھو لیا تھا۔ خفیہ طور پر شائع ہونے والی اپنی کتاب "If i am Assassinated" میں‘ انہوں نے ایٹمی پروگرام کی دہائی دی‘ جو ایک خطرناک اقدام تھا۔ غلام اسحٰق کا عالم یہ تھا دو برس بعد‘ 1995ء میں کرید کرید کر میں تھک گیا مگر اس سے زیادہ وہ نہ پھوٹے ''کبھی ہم اس کے امین تھے‘ اب اور لوگ اس کے امین ہیں‘‘۔
ٹویٹ‘ آج کا فیشن ہے۔ ضرورت ہو یا نہ ہو‘ ماحول سازگار ہو یا ناسازگار‘ اظہار ذات کے تمنائی‘ پیغام جاری کرنے پہ تلے رہتے ہیں۔ پروفیسر احسن اقبال کا تازہ پیغام یہ ہے کہ سول ملٹری مراسم میں خرابی پیدا کرنے کی کوشش ملک کے لیے تباہ کن ہو گی۔ بات ان کی درست ہے اور سو فیصد درست۔ مگر کیا اس امر کا انہیں ادراک ہے کہ ان مراسم کو استوار رکھنے کے تقاضے کیا ہیں؟۔
سوات آپریشن کو چھ سال بیت چکے تھے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے‘ پندرہ ماہ سے زیادہ‘ جب میں ان سے ملنے گیا۔ اس بات کے لیے وہ فکرمند تھے کہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود صورتِ حال جوں کی توں ہے۔ علاقے کا نظم ونسق سول انتظامیہ سنبھال نہیں سکی۔
کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 80 فیصد سے زیادہ کمی آنے کے باوجود‘ الطاف حسین کے بظاہر بڑی حد تک غیر متعلق ہو جانے کے باوجود‘ ایپکس کمیٹی کے نگران رہنے کے باوجود‘ سندھ پولیس میں اب تک کوئی خاص بہتری نہیں آ سکی۔ اگرچہ 16000 نئی بھرتی‘ فوج کی نگرانی میں ہوئی‘ انسپکٹر جنرل اے ڈی خواجہ سے ناراضی کے بعد‘ ایس ایچ اوز تک کی تقرریاں‘ گاڈفادر‘ جناب آصف علی زرداری کی ہمشیرہ محترمہ فرما رہی ہیں۔ عدالت عالیہ میں‘ جس میں نیک نام پولیس افسر کو برطرف ہونے سے‘ جس نے بچا لیا۔ خواجہ کا کہنا یہ ہے کہ آئی جی کی حیثیت سے‘ کام جاری رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز ان کے پاس باقی نہیں۔
باقی کیوں نہیں؟...بائیس برس پہلے 1995ء کے موسم خزاں میں ڈی آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل کے پاس یہ جواز موجود تھا۔ زرداری صاحب کے والد گرامی حاکم علی زرداری نے‘ جب ان سے یہ کہا کہ فلاں انسپکٹر کو وہ تھانیدار مقرر کر دیں تو ان کا جواب یہ تھا۔ "Give me a good reason" کوئی ایک معقول وجہ مجھے بتا دیجئے۔ کہا : وہ میرے پرانے باورچی کا بیٹا ہے۔ جب بھی میز پر کھانا وہ لگاتا ہے‘ یاد دہانی کرانے سے چوکتا نہیں۔ پولیس افسر کا جواب یہ تھا۔ آپ کے لیے ایک اچھے باورچی کا میں بندوبست کئے دیتا ہوں۔
چیف آف آرمی سٹاف‘ بااصول جنرل عبدالوحید کاکڑ‘ صدر فاروق لغاری اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے پولیس افسر سے پیمان کیا تھا کہ ان کے کام میں مداخلت نہ کی جائے گی۔ جنرل کاکڑ گھر جا چکے تھے۔ فاروق لغاری غیر متعلق ہو گئے تھے مگر بے نظیر اپنے وعدے پر قائم رہیں۔ صوبائی وزیراعلیٰ کی بجائے‘ معاملات انہوں نے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کو سونپ دیئے۔ جون کے آخری ہفتے میں آپریشن کا آغاز ہوا اور دو ماہ بعد‘ 14 اگست کو ڈبل سواری پر پابندی ختم کر دی گئی۔ سرشام بند ہو جانے والی دکانیں‘ آدھی رات تک کھلی رہنے لگیں اور جنوری 1996ء تک‘ دہشت گرد مارے گئے یا فرار ہو گئے۔ کرائے کے قاتلوں سے‘ جن میں سے بعض نے بھارت میں تربیت پائی تھی‘ الطاف حسین نے کہا تھا : وہاں جا چھپو‘ روشنی کی ایک کرن بھی جہاں پہنچ نہ سکتی ہو۔
آج کے کراچی کی صورتِ حال من و عن وہی ہے۔ ایک متعلقہ افسرنے چند روز قبل بتایا : وہ مارے جا چکے ہیں‘ گرفتار ہیں یا بیرون ملک بھاگ چکے۔ بھارت‘ بیلجیم‘ جنوبی افریقہ‘ بنکاک یا کینیڈا کی طرف۔ بہترین کامیابیوں کے باوجود‘ آج بھی حال مگر یہ ہے کہ ہفتے کی شب تین پولیس والوں کو گولیاں ماری گئیں اور دو کو براہ راست سر کا نشانہ لے کر۔
فوجی افسر نے کہا : پولیس والے دل شکستہ ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں ہمارے نیک نام آئی جی کے ساتھ یہ سلوک ہو سکتا ہے تو ہمارا کیا ہو گا؟ پھر اس نے کہا : سندھ میں کوئی وزیراعلیٰ ہے اور نہ وزیر‘ کوئی آئی جی ہے اور نہ ڈی آئی جی۔ صوبے کی حکومت ایک آدمی چلا رہا ہے اور اس کا نام آصف علی زرداری ہے۔ قانون اس کی مرضی و منشا کا نام ہے۔
اے ڈی خواجہ کا جرم کیا ہے؟ فوجی افسر سے سوال کیا گیا۔ اس کا جواب یہ تھا : انور مجید اس سے ناراض ہیں۔
یہ کوئی راز نہیں کہ کراچی کے کور کمانڈر اور رینجرز کے سربراہ کا آدھے سے زیادہ وقت سول معاملات سلجھانے میں صرف ہوتا ہے‘ جس سے کوئی واسطہ ان کا نہ ہونا چاہیے۔
1995ء کے آپریشن میں رینجرز کا کوئی کردار نہ تھا۔ یہ کارنامہ سندھ پولیس نے انجام دیا تھا‘ جس کی تنظیم نو کی گئی تھی۔ 25000 پولیس والوں میں سے‘ پانچ ہزار ملازمتوں سے الگ کر دیئے گئے اور ان میں سے شاذ ہی کسی نے زیادتی کی شکایت کی۔
فروری 1996ء میں میاں محمد نوازشریف برسرِ اقتدار آئے‘ تو ایم کیو ایم کے 500 دہشت گرد رہا کر دیئے اور 50 کروڑ روپے تاوان ادا کیا گیا۔ ان کے بعد جنرل پرویز مشرف تشریف لائے۔ ان کے مبارک دور میں‘ وہ دو سو پولیس افسر قتل کر دیئے گئے‘ 1995ء کے آپریشن میں جنہوں نے حصہ لیا تھا۔
نوازشریف ایک بار پھر اقتدار میں ہیں۔ خوب وہ جانتے ہیں کہ الطاف حسین سے ڈاکٹر فاروق ستار اب بھی‘ رابطہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود اتنے ہی ان پر وہ مہربان ہیں‘ جتنے کہ ظالم صفت الطاف حسین پر تھے۔ سول نہ فوجی حکمرانی۔ امن کا انحصار قانون کے نفاذ پر ہوتا ہے۔ جرم کے لیے زیرو فیصد عدم رواداری پر۔
ایسا نہیں کہ پروفیسر احسن اقبال جانتا نہ ہو‘ خوب وہ جانتا ہے مگر بیچارہ کیا کرے؟ع
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر‘ بھنور ہے تقدیر کا بہانہ