تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-05-2017

نت نئی دریافتیں

مارچ 2014ء میں پہلی بار سائنسدانوں نے gravitational wavesدریافت کر لی ہیں ۔ ان کی تھیوری پہلے سے موجود تھی۔ یہ ویوز کائنا ت کے آغاز کے وقت ہونے والے عظیم دھماکے ''بگ بینگ ‘‘سے وجود میں آئی تھیں ۔گویا ان کی دریافت سے بگ بینگ پر ایک اور مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی ہے ۔ آئن سٹائن نے gravitational waves کو اپنی جنرل تھیوری میں predictکیا تھا۔ 
نینو ٹیکنالوجی میں ہوتایہ ہے کہ آپ نینو سکیل (انتہائی چھوٹے ، خوردبینی درجے )پر جا کر عناصر کی خصوصیات میں مداخلت کرتے ہیں ۔ اور پھر آپ اپنی مرضی کی خصوصیات رہنے دیتے ہیں اور باقی نکال دیتے ہیں ۔ نینو میٹر ہوتاہے ایک میٹر کاایک اربواں billionthحصہ۔ نینو سکیل پر جا کر بہت سے میٹیریل بدلے ہوئے انداز میں behaveکرنے لگتے ہیں ۔ جیسا کہ ایلومینیم کے ایٹم پھٹنے لگتے ہیں اس لیول پر او روہ راکٹ میں ایندھن کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں ۔ ایک میٹریل جس کے آر پار دیکھنا ممکن نہیں ہوتا، وہ شفاف ہو جاتاہے ۔ ٹھوس چیز کمرے کے درجہ ء حرارت پر مائع بن جاتی ہے ۔ ایک نرم چیز بہت مضبوط بن جاتی ہے ۔ کاربن بہت مضبوط ہو جاتاہے ۔ تو آپ چیزوں کی خصوصیات کو بدل سکتے ہیں ۔ فزکس ، کیمسٹری، بیالوجی، طب اور انجینئرنگ کی فیلڈ میں نت نئے استعمال۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو چھوٹا اور بہتر کرنے میں مدد ملے گی نینو سے ۔ نینو پارٹیکل کینسر والے خلیات کو ڈھونڈ کر مار سکیں گے ۔ دوائی وہیں جائے گی ، جن خلیات کو ضرورت ہوگی ۔ برین ڈس آرڈر کے لیے ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے ، جو کہ ڈی این اے سے بنی ہو اور وہ مالیکیولز کو وہاں پہ پہنچا دے گی ، جہاں اس کی ضرورت ہوگی ۔ مثلاً برین بلڈ بیرئیر کے پا ر۔ 
مصنوعی فوٹو سینتھیسز پہ بہت کام ہورہاہے ۔ اس دوران پانی اورکاربن ڈائی آکسائیڈ کے تعامل سے روشنی کی توانائی کو کیمیکل انرجی میں تبدیل کیاجاتاہے ۔ پودوں میں یہی ہوتاہے ۔ پودوں میں conversion efficiency 0.2 %ہوتاہے ۔ پینا سونک نے آرٹی فیشل فوٹو سینتھیسز میں 0.3فیصد حاصل کرلی ہے ۔ 
جدید انسان قریباً دو لاکھ سال پہلے فاسل ریکارڈ پر نظر آنا شروع ہوتاہے لیکن اس کا ماڈرن روّیہ صرف پچاس ہزار سال پہلے نظر آتاہے ۔ اس میں کلچر نظر آنے لگتاہے ۔ 
فاسلز کی سائنس : ڈی این اے کی Tendencyیہ ہوتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتاہے ۔ اس لیے کچھ سال پہلے تک 60ہزار سال سے پرانے ڈی این اے کا مطالعہ ممکن نہ تھا لیکن حال ہی میں چار لاکھ سال پرانے انسانی فاسلز میں ڈی این اے کی کامیابی سے sequencingکی گئی ہے اور یہ sequencingکی نئی techniques کا کمال ہے ۔ 
جسم کے اندر ایک گھڑی ہوتی ہے ، جسے circadian clockکہتے ہیں ۔24گھنٹے میں انسانی جسم اپنے اہم processesپورے کرتاہے ۔ بار بار سونے جاگنے کا وقت تبدیل کرنے سے اس قدرتی نظام میں مداخلت ہوتی ہے ۔ اس کا نتیجہ بہت برا ہو سکتاہے ۔ یہ بہت سے disordersکا سبب بن سکتاہے ۔ metabolic disorder, anxiety, depression, schizophrenia and sleep disorders۔ اس میں دو پروٹین اس ردھم کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ 
دماغ کے اندر amygdalaلمبک سسٹم کے اندر ہوتاہے ۔ یہ جذبات اور خوف وغیرہ کو کنٹرول کرتاہے ۔ اگر یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو انسان fearاور aggressionکا مظاہرہ کرنا چھوڑ سکتاہے اور یوں ہو سکتاہے کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت سے بھی بے نیاز ہو جائے ۔ 
اب انسان کے پاس ایسی خوردبین اور ایسے آلات ہیں کہ وہ ایک واحد خلیے کا مشاہدہ کرسکتاہے ، اس کی پیمائش کر سکتاہے اور اس میں چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے ۔ ہم ایک خلیے کا دوسرے خلیات کے ساتھ تعامل اور اپنے ماحول (environment)سے ان کا تعامل دیکھ سکتے ہیں ۔ 
تھری ڈی بائیو ٹیکنالوجی کی مدد سے tissuesبنائے جا چکے ہیں ۔ ایک دن عضو بھی بن سکتے ہیں ۔ 
بڑھاپا کیا ہے :slow accumulation of loss to our cells, tissues and organs خلیات، عضو اور ٹشوز میں بتدریج نقص پیدا ہونا۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ نظر کمزور ہو جاتی ہے ، یادداشت کم، ہڈیاں بوسیدہ، وغیرہ وغیرہ۔ 
ڈی این اے کے اندر پروٹین بنانے کے لیے تمام ضروری ہدایات موجود ہوتی ہیں ۔ جب بھی خلیہ تقسیم ہوتاہے تو وہ ڈی این اے کے تین ارب حروف پر مشتمل کوڈ کی تقریباً perfectکاپی تیار کر تاہے ۔ اس میں غلطی بھی ہوجاتی ہے تواسے درست کرنے کے لیے سپیشل نظام موجود ہے ۔ repair enzymes۔ DNA editors۔ اسی طرح آکسیجن کے استعمال سے نقصان دہ مالیکیول پیدا ہوتے ہیں تو ان کے لیے antioxidants ہوتے ہیں ، جو ان کا اثر زائل کر دیتے ہیں ۔ اسی طرح زیادہ گرم ہونے پر جسم کی پروٹین میں نقص پیدا ہوتاہے تو اسے ٹھیک کرنے کے لیے پروٹین کی ایک اور خاص قسم heat shock proteinsموجود ہوتے ہیں ۔ یہ جسم کے repair mechanismsہیں ۔ یعنی 1.۔ DNA editors۔ 2۔ antioxidants۔ 3۔ہیٹ شاک پروٹینز۔ وغیرہ وغیرہ۔ جب عمر بڑھتی ہے تو ان سب میں نقائص پیدا ہونے لگتے ہیں ۔آخر کار خلیات تقسیم ہونا اور ایک دوسرے سے کمیونی کیٹ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔انسان بوڑھا ہو کر مر جاتاہے ۔ 
جو سائنسدان بڑھاپا روکنے پر کام کر رہے ہیں ، وہ انہی چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ چوہے کو کم کیلوری والی خوراک پر رکھ کر اس کی عمر بڑھائی گئی ہے ۔ کچھ سائنسدان telomeres، ڈی این اے ری پئیر انزائمز اور ہیٹ شاک پروٹینز پر کام کر رہے ہیں ۔ telomeresہمارے کروموسومز کی حفاظت کرتے ہیں ۔ یہ بھی ہر سال مختصر ہوتے جاتے ہیں ۔ مختصر ترین الفاظ میں اگر بڑھاپے کو بیان کیا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ خلیات کو پہنچنے والا نقصان۔ اس کی مختلف وجوہات یہ ہیں ، جو اوپر بیان ہوئی ہیںیعنی خلیات کے مختلف کاموں کو ٹھیک کرنے والے mechanismsمیں نقائص۔ 
بروک میگن گرین برگ ایک ایسی لڑکی تھی ، جس کی عمر بڑھ نہیں رہی تھی ۔ اس کا دماغ بھی 9ماہ سے ایک سال کی بچی کا تھا اور اس کا قد بھی ڈھائی فٹ تھا۔ اور عمر 20سال۔ ڈاکٹر والکر نے بروک میگن گرین برگ پر تحقیق کی۔ بارہ سال کی عمر میں چھ کلو وزن۔ چار سے پانچ سال کی عمر کے دوران اس نے بڑھنا بند کر دیا تھا۔ عمر رک گئی تھی ۔ اس سے پہلے اسے بہت سارے صحت کے مسائل ہوئے ۔ اس کے دانت سات سال تک نکلتے رہے ۔ اور بھی دو بچے تھے ۔ freeman of australia۔ دس سال کا لگتا تھا چالیس سال میں ۔ ان بچوں کے جسم کے مختلف اعضا مختلف عمر کے تھے ۔ chromosomal abnormality اور genetic syndromeکوئی نہیں تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved